رویے اچھے ہوں یا برے وباکی طرح
ہوتے ہیں، جب پھلتے ہیں تو پھر پھلتے ہی چلے جاتے ہیں۔پاکستانی معاشرہ جہاں
اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنے کافیشن تقریبا فوت ہوجاچکاہے وہاں اچھے اور
تعمیری رویوں کی بہار تو نہ جانے کب آئے البتہ ہمارے جنونی رویوں کی خزاں
کیا کیا گل کھلارہی ہے اس بات کا ادراک بطور معاشرہ اﷲ ہی جانے ہمیں کب ہو
۔ ہمارا معاشرہ جس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی کہ اپنے اور پرائے سبھی
اسے ایک غیر سنجیدہ ہجوم ہونے کا طعنہ دیتے نہیں تھکتے وہاں آج دن دوگنی
رات چوگنی نشوونماپانے والے خود کش رویوں کی وبا نے اس کے باسیوں کا نہ صرف
اچھا خاصا جینا حرام اور سکون غارت کررکھا ہے بلکہ پوری دنیا میں ہماری بچی
کھوچی ساکھ کا جنازہ دھوم دھام سے نکالنے کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ اپنوں کو
اپنوں کے ہاتھوں بے دردی سے زبحہ ہوتا اور مولی گاجر کی طرح کٹتادیکھ کر
دشمن ہماری وحشت پرلوڈیاں ڈالتے ہیں تو یہ دھرتی ماں ہماری عقل پر پڑے
پردوں پر بین ڈالتی نظر آتی ہے ۔ خدایا یہ کون لوگ ہیں جو خود اپنی قبریں
اپنے ہی ہاتھوں کھودنے کے جنون میں بری طرح مبتلا کردئیے گئے ہیں۔ خودکش
دھماکے، انتہاپسندی، فرقہ واریت ،قتل و غارت، ٹا رگٹ کلنگ، سرکاری املاک کو
نقصان پہنچانا، قومی ورثوں کو تباہ و برباد کرنا، اپنے ہی ہم وطنوں کے
مکانوں ، دکانوں، گاڑیوں اور بسوں کو نظر آتش کرنا، اور تو اور زندگی بچانے
والی جعلی ادویات، ناقص اور مضر صحت خوردنی اشیاء کی بڑھتی ہوئی پیداوار ،
سب اس ہوس زدہ معاشرے میں وبا کی طرح پھیلتے ہوئے رنگ برنگے خود کش رویوں
کی داستان الم سناتے نظر آتے ہیں۔ جہاں سالہ ایک ڈینگی مچھر اور ایک جعلی
سکندر پوری قوم کے مزاج پر اثر اندازہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں وہاں مسلح
گروہوں،شر پسندوں ، اوردہشت گردوں کو لگام دینے کی امید رکھنا اب کسی
دیوانے کا خواب بنتا جارہا ہے۔ہمارے رویوں اورعدم برداشت کا حال یہ ہے کہ
بندہ پہلے پھڑکا یا جاتاہے اور یہ سوچا بچار بعد میں کی جاتی ہے کہ اس بد
نصیب کا قصور کیا تھا۔ یاد آنے پر پتہ چلتا ہے لڑائی تو بس دس روپے کی تھی
لیکن عادت سے مجبور میٹر ایسا گھوما کہ مرنے والے اور مارنے والے دونوں کی
جان لے گیا۔ خودکش رویوں کا عذاب بری طرح ہمارے اوپرمسلط ہے ، کوئی دن ایسا
نہیں گزرتا جب اس پاک سرزمین پر انسانی لاشیں گرانے کا گھناو نااور گندا
کھیل نہ کھیلاجاتاہو۔موت بانٹنے کا رواج اتناعام ہے کہ بے رحم بم دھماکوں
اور ان دیکھی گولیوں سے بچ جانے والوں کی قسمت کے ستارے بھی ہمیشہ گردش میں
ہی رہتے ہیں کہ نہ جانے کب کہاں ایک بیمار رویہ کتنوں کو لے ڈوبے ۔
وقتاوفوقتا ہونے والے منگائی کے ڈرون حملوں،اشیاء خوردونوش کی ذخیرہ اندوزی
، من مانی قیمتوں ، ناجائز منافع خوری ، ملاوٹ اور جعلی ادویات ، بھوک اور
غربت کے صدموں اورحیرتوں سے نڈال عام آدمی کی زندگی قسطوں میں ملنے والی
موت کا منظر پیش کرتی نظر آتی ہے۔ ہم سب کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح اپنے
خود کش رویوں سے اس معاشرے کے گوڈے گٹوں میں بیٹھنے کا فریضہ احسن طریقے سے
سر انجام دے رہے ہیں۔ عام لوگوں کی بے زاری کا عالم اب یہ کہ انہوں نے
کھانسی ، نزلہ زکام اور بخار کی دوا تک لینا چھوڑ دی ہے بقول ان کے جب
معاشرتی رویے ہی ان کے لیے مرض الموت کا درجہ حاصل کرچکے ہیں تو پھر چھوٹی
موٹی بیماریوں کا کیا قصور ہے کہ ان کا علاج کرکے انہیں شرم سار کیاجائے ۔
ان حالات میں اگر کوئی باعزت زندگی گزارنے اور حقیقی معنوں میں زندہ و
جاوید کہلائے جانے کا حقدار ہے تو وہ ہے ہماری ایلیٹ کلاس جس کے پاس ان
رویوں سے بچنے کا معقول بندوبست موجود ہے۔
ہمارے رویوں اور ہمارے ماضی کے حکمرانوں کی کی غلط پالیسیوں نے ہمیں اپنے
ہی سامنے حالت جنگ میں لاکھڑا کیا ہے ۔اوپر سے ہماری عقل مندی، بصیرت اور
وطن دوستی ملاحظہ کیجیے! جس معاشرے کو اس وقت ، امن، رواداری ، بھائی چارے،
اخوت اور برداشت جیسے رویوں کی اشد ضرورت ہے۔ وہاں ببانگ دہل ایک دوسرے کو
، غدار ، کافر، واجب القتل، دشمنوں کا ایجنٹ قرار دینے جیسے سیاسی اور
مذہبی فتوے دینا کا راوج اپنے عروج پہ دکھائی دیتا ہے۔ کوئی کسی کے ساتھ
دست وگریبان نظر آتاہے تو کسی کے جی میں جو آتا ہے وہ بلا سوچے سمجھے کہتا
اور کرتا چلاجاتاہے ۔پاکستان کا مفاد کیا ہے اﷲ ہی جانے! ۔میرا پاکستان کے
انتہا پسندوں اور فرقہ واریت کے نام پر قتل عام کرنے والوں سے سوال ہے کہ
ہندوستانی معاشرہ جوشدید گمراہ قسم کے انتہا پسندوں سے بھرا پڑا ہے وہاں آج
تک کتنے ہندووں نے کتنے ہندووں کو مذہب کے نام پر مارا یا قتل کیا؟؟؟ جب ہم
امریکہ، برطانیہ یا کسی اور ملک میں رہائش پذیر ہونے کا شرف حاصل کرکے
مختلف مذاہب، مختلف فرقوں اور مختلف رنگ و نسلوں کے لوگوں کے درمیان پر امن
اور ذمہ دار شہری بن کر رہ سکتے ہیں تو پھراپنی سرزمین پر ایک دوسرے کے
وجود، ایک دوسرے کے مذہبی حقوق، اس ریاست کے وجود اوراسکے قوانین کا احترام
کرتے ہوئے ہمیں کیا تکلیف ہوتی ہے؟؟؟ باہر کے معاشروں میں ہم بخوبی جانتے
ہیں کہ ہیں کسی فساد، انتشاراور فرقہ واریت جیسی بونگیاں مارنے اور اپنی
دکانداریاں چمکانے کی صورت میں ان ملکوں کا کلچر ہمیں ہمارے نام نہاد عزائم
سمیت یاتو مستقل اندر یا باہر دے مارے گا ۔جب کہ اس کے برعکس پاکستانی
معاشرے میں موجو د مٹھی بھر نام نہاد محب الوطنوں اور نان اسٹیٹ ایکڑزنے اس
معاشرے کو مذہبی،لسانی، فرقہ وارنہ ، گروہی ، صوبائی اور ناجانے کون کون سے
نیلے پیلے تعصبات کی گمراہی میں ڈال کر انتشار پھیلانے کا ایسا کلچر پروان
چڑھا رکھا ہے جس کی مثال شاید پوری دنیا میں نہیں ملتی۔لہذا یہ لوگ اپنے
بیرونی آقاوں کی خوشنودی کے لیے ان کے ایجنڈے پرپیش رفت کا کوئی بھی موقع
ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔آج پاکستان اگر لہولہان ہے تو انہی اپنے اور پرائے
مہربانوں کی کرمانوازیوں کے طفیل ہے۔جہنوں نے ہمیں اپنے ہاتھوں اپنا
ستیاناس کرنے کے راستے پر ڈالا رکھاہے۔ ہم سب کے پیارے آقا حضرت محمدﷺ کا
خطبہ حجتہ الوداع پڑھ کر فیصلہ کیجیے کہ ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی
جان و مال کی حرمت اور آبرو کا کیا مقا م اور کیا احترام ہے۔ اس کے باوجو د
اگرمیں اپنے مسلمان بھائی کا خون بہاوں ، پھر اس کے کافر ہونے کا فتوی بھی
جاری کروں اور پھر اپنے جنتی ہونے کی بشارت بھی دیتاپھروں تو خدارا کوئی
مجھے سمجھائے یہ کون سا اسلام ہے ؟
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی
ہم جس ذوق وشوق سے خودکش رویوں کو سینے سے لگائے انہیں پال رہے ہیں وہ وقت
دور نہیں جب ہمارے گلی محلوں میں یہ نعرے اور آوازیں عام سنے کو ملیں گی ،
خود کش رویے مرمت کروالو۔۔۔ خود کش رویوں کی مرمت کے ساتھ گیس کے چولہوں
اور بجلی کے ہیٹروں کی مرمت فری کروالو۔اس سے پہلے کہ ہمارے اوپر واقعی
ایسا برا وقت آجائے، ریاست ،میڈیا،تعلیمی اداروں اورOpinion leaders کوجو
کہ ہمارے معاشرتی رویوں کی تربیت کرنے کے جائزاوراصلی حقدارہیں ان سب کو مل
کر اپنی ذمہ داروں کو مزید وقت ضائع کیے بغیر پورا کرنا ہوگا۔۔۔اچھی
حکمرانی، معاشرتی عدل و انصاف کی فراہمی اور قانون کی حقیقی معنوں میں
حکمرانی کے ساتھ ساتھ منظم اورمربوط معاشرتی تعلیم و تربیت سے ہی رویوں کو
بدلا جاسکتا ہے۔ اﷲ تعالی ہم سب کو حق پر چلنے کی توفیق دے آمین! |