’’ابن ِمریم ہوا کرے کوئی
مرے درد کی دوا کرے کوئی‘‘
اس معاشرے میں کچھ اندھے اور کچھ آنکھ والے ہیں۔ جب تک معاشرہ آنکھ والوں
کے پیچھے چلا، اندھے بھی گرنے سے بچے۔کیونکہ آنکھ والوں کی یہ کیفیت ہوتی
ہے کہ وہ خود بھی نہیں گرتے اور دوسروں کو بھی گرنے سے بچاتے ہیں۔ یہ اندھے
عقل کے بھی اندھے ہوتے ہیں اور فکر کے بھی۔ عقل اور فکر کے اندھوں نے بحثیں
تو بہت کی ہیں ،لیکن حل نہیں دیا۔جبکہ عقلمندوں نے ہمیشہ معاشرے کو ایک حل
دیا ہے،مسئلہ میں الجھایا نہیں۔یہ دنیا کا دستور ہے کہ جب اﷲ نے انسانوں کو
دنیا کے وسیع و عریض سمندر میں زندگی کی کشتی پر سوار کیا تو اکیلا نہیں
چھوڑا، بلکہ عقل کو رہبر بناکرساتھ کیا اور زندگی کے اصول و ضوابط سے
روشناس کرایا،اور یہ بتانے کی بھی کوشش کی کہ نہ جاننا عیب نہیں ہے،جاننے
کی کوشش نہ کرنا عیب ہے۔اس معاشرے میں اچھے لوگوں نے مذہب کے قانون کو ایسے
دیکھا،جیسے وہ پیاسے ہوں اور ان کے سامنے صاف پانی بھی موجود ہو اور ان کی
جان ایک گھونٹ پانی پی لینے کے لئے لمحے گن رہی ہو، تاکہ پیاس کی شدت میں
کمی آئے اور دل کو سکون حاصل ہو لیکن ایک ڈاکٹر ہے، جو اپنے اوزار کے ذریعہ
پانی کی جانچ کرتا ہے اور اس میں الگ الگ اقسام کے مہلک جراثیم کی خبر دیتا
ہے اور اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ اس پانی کو استعمال کرنے سے پہلے اس کو
صاف کر لو ، ابال لو، تاکہ تمہاری پیاس بجھ جائے اور زندگی کو کوئی نقصان
بھی نہ ہو۔اس لئے اس معاشرے کے اچھے لوگوں نے اپنے مذہب کو بھی مانا اور
مذہب کی بھی مانی۔آج جومعاشرے میں خواتین کے لئے باتیں ہو رہی ہیں، میں یہ
سمجھتا ہوں کہ نہ تو کبھی پاکستانی معاشرے نے خواتین کو بے عزت رکھنے یا
کرنے کی اجازت دی ہے اور نہ اسلام نے کبھی عورت کے احترام کو ختم کیا۔اسلام
نے عورت کو انسانی معاشرے میں سب سے اعلیٰ درجہ پر بٹھایا، لیکن شرط یہ
رکھی کہ وہ عورت بھی صرف ایک عام عورت نہ ہو، بلکہ مریم جیسی ہو، تاکہ دی
ہوئی عزت کے ساتھ انصاف ہو سکے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر عورت اپنی عزت
میں مریم ہو تو معاشرے کے مردوں میں اس کا سامنا کرنے کی طاقت نہیں، کوئی
اس پر انگلی نہیں اٹھاسکتا یہ میں نہیں ،قرآن کہہ رہا ہے۔قرآن پاک میں سورۃ
مریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، ’’مریم کے برابر مردوں میں کوئی نہیں‘ ‘اس
آیت سے خواتین کی عزت و حترام کیاہے یہ واضح ہو جاتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں
خواتین میں ایک عظیم نام بی بی مریم کا ہے،مریم کا مطلب پاکیزہ ہوتا ہے۔
یعنی پاکیزگی،مریم کوہمارے ملک کے عیسائی اور تقریباً تمام فرقہ کے لوگ بڑی
عزت اوراحترام سے جانتے ہیں۔اسلام میں تو ان کی بڑی اہمیت ہے، چاہے بدتر
ہوں یا بہتر جب ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تو ایک معاشرہ بنتا ہے۔اﷲ تعالیٰ نے
پوری دنیاکو انسانوں کے لئے اور انسانوں کو اپنے لئے بنایاہے۔ اﷲ تعالیٰ نے
فرمایاکہ دنیا کو بنانے یعنی انسانوں کو پیدا کرنے،اور دنیا کی ترقی میں
مرد ،عورت کا محتاج ہے،اور اسی اﷲ نے مریم کی کوکھ سے حضرت عیسیٰ کو پیدا
کر کے عورت کی عظمت و طاقت دکھائی کہ عورت مرد کی محتاج نہیں ہے۔اسی لئے
عورت کو آج ہم عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم ترقی کے مخالف نہیں ہیں، ہم
مغربی تہذیب کے خلاف ہیں۔ کوئی بھی دنیا عورت کے بغیر ادھوری ہے۔ یعنی چل
ہی نہیں سکتی۔ آپ عورت کے جذبۂ ایثار وقربانی کا اندازہ لگائیں۔اس کا شوہر
نکاح کے وقت نان ونفقہ یعنی روٹی، کپڑا اور مکان کی ذمہ داری اٹھانے کا خود
وعدہ کرتا ہے۔ لیکن پھر بھی عورت یہ نہیں مانگتی کہ اسے تیار کپڑا اور پکی
پکائی روٹی چاہئے حالانکہ وہ یہ سب کچھ مانگ سکتی ہے۔ وہ چولہے کی آگ کی
گرمی کو محسوس کرتی ہے، تبھی اپنا ہاتھ خود جلاتی ہے، لیکن وہ یہ برداشت
نہیں کرتی کہ ان زحمتوں میں اپنے شوہر کو بھی اپنے ساتھ شا مل کرے۔ حالانکہ
وہ چاہے تو اسلامی قاعدوں کے مطابق تیار کھانا مانگ سکتی ہے۔ پھر بھی اپنے
شوہر کی ذمہ داریوں میں بھی شانہ بشانہ حاضر رہتی ہے۔اسی طرح مختلف حلقوں
میں عورت نے بڑے بڑے اہم کردار ادا کئے ہیں، جنہیں قطعی بھلایا نہیں جا
سکتا۔جنگ آزادی سے لے کر آج تک پاکستان کی بنیاد وں کو مضبوط بنانے میں
خیالی اور عملی طور پر عورتوں کا بڑا ہاتھ اور تعاون رہا ہے۔اگر مذہب کی
عزت اس کے دل میں ہے تو وہ جانتی ہے کہ اسے کہاں ہونا ہے اور کہاں نہیں۔وہ
جہاں کہیں بھی مذہب کے ساتھ ہے، مذہب کی عزت ہے اور اگر بغیر مذہب کا مان
رکھے وہ گھر میں بیٹھی ہے تو وہ مذہب کے لئے بے عزتی کا باعث بن جاتی ہے۔
اگر عورت مذہب کے بارے میں جانتی ہے، خود کو معاشرے میں محفوظ سمجھتی ہے
اور خود کو محفوظ رکھنے کی طاقت رکھتی ہے، تو اسے مرد کے کندھے سے کندھا
ملا کر ملک اور معاشرے کی ترقی میں حصہ داری سے کوئی نہیں روک سکتا۔ چاہے
کسی بھی قسم کا علم ہو کوئی بھی شعبہ ہو ہر جگہ عورتوں کی موجودگی تعظیم و
مبارکباد کے لائق ہے۔اسلام نے عورت سے صرف ایک ہی چیز مانگی ہے ، وہ یہ کہ
تم کہیں بھی رہو،قرآن نے تمہیں جو زندگی جینے کی تہذیب اور اصول دیئے ہیں،
وہ یاد رہیں، یعنی قرآن کے دائرے کے اندر رہو۔قرآن کی آیتوں کے سائے میں
رہو۔میں یہاں ایک خوبصورت واقعہ بتانا چاہتا ہوں۔امریکہ کے سابق صدر مسٹر
ریگن ایران میں آئے اسلامی انقلاب کے زمانہ میں اپنی پارلیمنٹ میں کہا کہ
ایران میں عورتوں کی بہت بری حالت ہے۔ انہیں جانوروں کی طرح پردے میں بند
کر دیا گیا ہے، تو آیت اﷲ خمینی نے تہران میں کہا کہ میں مسٹر ریگن کو دعوت
دیتا ہوں۔ ہم ساتھ جنگل میں جاتے ہیں۔اگر جنگل کے جانور پردے میں ہیں تو ہم
اپنے معاشرے میں بہتری کر لیتے ہیں اور اگر جنگل کے جانور ننگے ہوں تو وہ
اپنے معاشرے میں بہتری کر لیں۔ ایران میں عورتوں کو پردے کی روایت کے ساتھ
ہر میدان میں شانہ بشانہ رہنے کی اجازت دی ہے۔ایرانی صدر خاتمی کے وقت میں
پچاس فیصد خواتین کاریزرویشن بل پاس ہوا اور آج وہاں کے اہم عہدوں پر
خواتین کام کر رہی ہیں اور ان کی خدما ت سے ملک کی ترقی ہو رہی ہے۔ہم مغربی
تہذیب کی بات نہیں کرتے،لیکن ہماری پرانی تہذیب اور مغربی تہذیب میں خاصا
فرق ہے۔وہ یکسانیت کی بات کرتے ہیں اور ہم برابری کی بات کرتے ہیں ،ہم
یکسانیت کی بات اس لئے نہیں کرتے کہ ہر معاشرے اور ہر مذہب میں ہر کام عورت
سے نہیں لیا جا سکتا جیسے مسلمان عورت مرد کو قبر میں نہیں اتار سکتی،
کیونکہ اﷲ نے اس کے دل کو ممتا سے بھرا ہوا بنایا ہے۔ایسا نہ ہو کہ وہ اس
کام کو انجام دینے میں کہیں خود ہی نہ مر جائے اس طرح اسلام میں عورت کے
لئے یکسانیت نہیں ،برابری کی بات کہی گئی ہے۔ اس لئے ہم یکسانیت میں نہیں،
بلکہ برابر ی میں یقین کرتے ہیں۔ قرآن بھی یہی کہتا ہے، ’’جو جتنا گناہوں
سے بچتا ہے،اتنا ہی اﷲ کے نزدیک ہے۔چاہے وہ عورت ہو یا مرد‘‘۔ ایک چیز جو
بہت ضروری ہے، وہ یہ کہ عورتوں کا استحصال نہ ہو اورہر میدان میں شانہ
بشانہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے سخت قوانین بھی ہوں،جن میں ان کی عزت و آبرو
کی حفاظت ہو۔ ان کی حفاظت کو زیادہ سے زیادہ ممکن بنایا جا سکے اور ہوس کے
وہ درندے،جو عورتوں کا استعمال و استحصال کرتے ہیں، انہیں سخت سے سخت سزا
مل سکے۔اس سے عورتوں کو محفوظ بھی رکھا جاسکتا ہے اور باآبرو بھی۔ |