اس میں کوئ شک نہیں کہ غالب اپنی فکر کے حوالہ سے عہد عہد
کا شاعر ہے۔ اس حقیقت سے کوئ بالغ نظر شاعر دانشور محقق نقاد اور صاحب ذوق
قاری انکار نہیں کر سکتا کہ غالب‘ غالب تھا اور شعر کی فکری دنیا پر آج بھی
غالب ہے۔ وہ متاثر کرتا رہا آج بھی متاثر کرتا ہے۔ اس کی شعری بساط پر
کھیلنے والے کمال کے لوگ رہے ہیں۔ غالب کے ساتھ وہ بھی فکری اور تحقیقی
دنیا میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ اس امتیاز کو الگ رکھیے کہ فلاں نے تو غالب
کے خلاف لکھا۔ مخالف لکھنے والے بھی تو غالب کے حوالہ سے تنقید کی دنیا میں
اپنا وجود رکھتے ہیں۔
برہان قاطع وجود نہ رکھتی تو قاطع برہان ایسی نادر کتاب کس طرح وجود حاصل
کرتی۔ لسانی تحقیق میں ان دونوں کتب کو نظرانداز کرنا یا ان پر باقاعدہ کام
نہ ہونا‘ زیادتی کے مترادف ہوگا۔ اسی طرح غالب پر بہت کچھ ہونے کے باوجود
متنی کام باقی ہے یا تشنگی کا گلہ رکھتا ہے۔
عہد حاضر میں آزاد اور نثری شاعری بڑا مضبوط وجود اور حوالہ رکھتی ہے۔ یہ
شاعری اپنے عہد کے جملہ معاملات اپنے ساتھ لے کر چلتی نظر آتی ہے بلکہ اس
کے وجود میں عصر جدید کا دکھ سکھ پوری شدت اور ادبی توانائ کے ساتھ رچا بسا
نظر آتا ہے۔ اگر اس شاعری کو اپنے عہد کی معتبر شہادت کا نام دے دیا جائے
تو غلط نہ ہو گا۔ اس صنف سخن کے موجود ہونے کے سبب دنیا کی تقریبا تمام
زبانوں کی شاعری ترجمہ ہو کر اردو ادب کا حصہ بنی ہے۔ اس ترجمے کے عمل سے
دنیا کے ہر خطے کے شخص کی فکر حاجات اور نفسیات سے اردو کا قاری آگاہ ہوا
ہے۔
تراجم کے حوالہ سے اسلوبیات میں کشادگی پیدا ہوئ ہے۔ آتا کل‘ آج کی سماجی
معاشی اور سیاسی تاریخ کو اس صنف سخن کے حوالہ سے جان اور پہچان سکے گا۔
اسی شاعری کے تناظر میں اپنے ماضی کو شاباشی اور لعنتی کلمے گزارے گا۔
مجید امجد‘ ن م راشد‘ میرا جی ‘ مبارک احمد‘ تبسم کاشمیری‘ سعادت سعید‘
فاطمہ حسن‘ انیس ناگی وغیرہ وغیرہ کو جدید اردو شعر وادب سے نکال دیں باقی
رہ ہی کیا جاءے گا۔ ان ارباب سخن نے ناصرف زبان کی لسانی حوالہ سے گرانقدر
خدمت انجام دی ہے بلکہ شعری لوازمات بھی فراہم کیے ہیں۔ شعری لازمے مہیا
کیے ہیں۔ تشبہات‘ استعارے‘ علامتیں اور تلمیحیں بکثرت دستیاب کی ہیں۔ نئ
سوچ اور فکر اپنی جگہ‘ زبان کے اظہاری داءرے کو وقار اور ثروت سے سرفراز
کیا ہے۔
اسطلاحات مرکبات مترادفات اور استعمالات میسر ہوءے ہیں۔ یہی نہیں‘ نئے نئے
الفاظ گھڑے گیے ہیں۔ مستعمل الفاظ میں حیرت انگیز اشکالی تبدیلیاں بھی آئ
ہیں۔ ان معروضات کے پیش نظر جدید شاعری کو آج کی ضرورت اور لوازمے کا درجہ
دنیا عصری دیانت کے مترادف ہوگا
جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا غالب عہد عہد کا شاعر ہے۔ اس کی فکر جدید
ہے لیکن اس کی فکر کا شعری جامہ قدیم ہے۔ اس کی فکر کو جدید لباس ملنا آج
کی اہم ترین ضرورت ہے بلکہ یہ ضرورت بھی ہر عہد سے تعلق کرتی ہے۔ بات نئ
یلیکن لباس قدیم‘ سچی بات تو یہ ہے کہ بات جمتی نہیں۔ نئے لباس کے تحت
ناصرف قربت بڑھے گی۔ اجنبت میں بھی اضافہ نہیں ہو گا اور تفہیمی سہولتیں
بھی پیدا ہوں گی۔
ناصر زیدی روزنامہ پاکستان لاہور کے کالم نگار ہی نہیں‘ شاعر بھی ہیں۔
انھیں تخت و تاج سے قربت کا بھی شرف حاصل رہا ہے۔ اس حوالہ سے بھی ان کی
قرابتی و کرامتی عظمت سر آنکھوں پر ہرنی اور رہنی چاہیے۔ وہ ناصرف شاہی
کروٹوں کے حوالہ سے جدیدیت پسند ہیں بلکہ ادبی تبدیلیوں کو بھی اشارتی اور
ضرورتی لوازمات کے زیردست رکھنے کے قائل ومائل ہیں۔ موصوف غالب پسند‘ غالب
نواز غالب کے سچے طرف دار اور غالبات کے محقق بھی ہیں۔ غالب کو ہر عہد پر
غالب بھی مانتے ہیں۔ غالب کے حوالہ سے یہ امر بلاشبہ لائق وتحسین و آفرین
ہے۔ میں ان کی غالب نوازی کو سلام پیش کرتا ہوں اور ان کی توفیقات کے لیے
دست بہ دعا بھی ہوں۔
ان کی جدت پسندی کا ایک پہلو کالا سیاہ بھی ہے۔ انھوں نے غالب کے شعر کو
جدید لباس دینے کے جنوں میں قیامت ہی ڈھا دی۔ روح غلب قبر میں پلسیٹے مار
رہی ہو گی۔ دوبارہ زندگی ملنے کی صورت اس کوچے میں قدم رکھنے سے لرزہ بر
اندام ہو گی۔ غالب کے ایک شعر کی جدت پسدی ملاحظہ بلکہ ملاخطہ فرمائیے
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پہ رونق
وہ سمجھتے ہیں بیمار کا حال اچھا ہے
میں ان کی جدید جسارت اور غالب کو عہد حاضر میں لانے کی خواہش کو داد دوں
گا لیکن اس بے سری تبدیلی کی داد نہیں دوں گا۔ اگر وہ غالب کی شاعری کو
جدید لباس دینے کے معاملہ میں سنجیدہ ہیں تو اس کا ڈھنگ سیکھیں۔ اس ہنر کی
آگہی کے لیے انھیں تبسم کاشمیری کے قدم لینا ہوں گے ورنہ اس ہنر سے بے بہرہ
ہی رہیں گے۔۔ میں ہنرمند نہیں پھر بھی اس شعر کو عصر جدید کا لباس دینے کی
حقیر سی سعی کرتا ہوں
گر قبول اُفتد زہے عزّو شرف
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پہ رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
آج کی نظم کا ایک نمونہ بطور ذائقہ ملاحظہ ہو
مت لکھنا
ہوا پر آنسو مت لکھنا
فاختاؤں سے دشمنی
اچھی نہیں ہوتی
جو بھی سہی اشعار غالب کو جدید شعری لباس ملنا آج کا تقاضا ہے۔ اس سے
تفہیمات غالب کے نئے نئے در وا ہوں گے۔ قارئین کو ناصر زیدی کی اس سوچ اور
خواہش کی داد دینی چاہیے۔ بلاشبہ وہ اس داد وتحسین کے مستحق ہیں۔
الله ان کی توفیقات میں برکت دے۔ |