تہذیبوں کی جنگ کا مجاہدسکندر احمد

آج بھی ہمارے چاروں طرف تہذیبوں کی جنگ کے مختلف مظاہر بکھرے پڑے ہیں۔ فلسطین سے افغانستان و پاکستان تک اور مصر و شام سے عراق و بحرین وغیرہ تک۔

مذہب اور ادب و صحافت کے میدانوں میں ‘ تہذیبوں کی جنگ تو اور بھی پہلے سے جاری ہے۔ اکبرؔالہ آبادی اور علامہ اقبال شاعری میں ‘ محمد حسن عسکری اور سلیم احمد ادب میں زندگی بھر یہ جنگ لڑتے رہے۔ آج محمد مجاہد سید اور شاہنواز فاروقی شاعری و صحافت میں پروفیسر معین الدین جینا بڑے،ڈاکٹر سلیم خان اور سکندر احمد فکشن اُس کی تنقید اور لسانیات میں‘ اِسی میدان جنگ کے مجاہد ہیں۔ اب اسے اتفاق ہی کہا جائے کہ اقبال ‘ سید قطب شہید اور علی شریعتی کی طرح سکندر احمد اور معین الدین کی ڈاڑھی بھی ‘ ان کے ظاہر میں نہیں ‘ باطن میں تلاش کی جانی چاہیے۔

سکندر احمد کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو فکشن اور شعر کی تنقید اور اردو لسانیات کے بظاہر خشک اور پیچیدہ نظریاتی اور عملی مباحث پر خوب لکھا لیکن بازی گران ادب کی گروہی عصبیت سے خود کو بچائے رکھا ۔ پھر بھی ‘ آدمی ’ سماجی حیوان ‘ ہونے کے ناطے دوستی بھی کرتا ہے اور خواہی نخواہی دشمنی کا شکار بھی ہوتا ہے ۔ کبھی و ہ دشمن بناتا ہے اور کبھی لوگ باگ خود ہی اس کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ہوتا آیا ہے کہ اُن لوگوں پر تکبر کی تہمت بہ آسانی لگا دی جاتی ہے جن کی ’ تھاہ ‘ سطح بینوں کو نظر نہیں آتی ۔ سکندر احمد بھی اُن ہی مردانِ بے نیاز وحق آگاہ میں شامل تھے ۔

مابعدجدیدیت یعنی ادبی فاشزم اور اردو کے ادبی فاشسٹوں کی بخیہ اُدھیڑنے کا کام جیسا سکندر احمد نے کیا فضیل جعفری (1) احمد ہمیش اور اشعر نجمی (2) بھی شاید نہیں کر سکے۔ آخر الذکر تینوں حضرات نے ‘ عمران شاہد بھنڈر کی طرح (3) مابعد جدید ’ تھیوری‘ کی دُھنائی توخوب کی لیکن ناصر عباس نیر(4) کی طرح یہ نہیں بتا سکے کہ نوآبادیاتی (فاشسٹوں ) کا اصلی مقصد مشرق کی تہذیب و ثقافت اور بالخصوص اسلامی تہذیب کے بنیادی متون کو نہ صرف عہد جدید میں بے فیض IRRELEVANTقرار دینا تھا بلکہ یہ بھی ثابت کرنا تھا کہ مشرق تو دراصل گونگا ہے۔ اُن کا تہذیبی ثقافتی اور علمی ورثہ تہذیبِ حاضر کے لئے از کار رفتہ ہے۔ یہ مذہبی ‘ تہذیبی اور علمی متون ماضی بعید میں وجود میں آئے ‘ اُس وقت وہ لوگوں کی زندگیوں میں موثر بھی رہے ہوں گے لیکن زمانۂ حال میں ان کی کوئی کار فرمائی نہیں۔ مابعد جدید فاشسٹوں کے مطابق اہل مشرق اُن متون سے چمٹے ہوئے ہیں جن کی تب و تابِ حیات راکھ ہو چکی ہے۔مشرق کا تہذیبی الاؤ بجھ چکا ہے۔ اب جو کچھ ہے وہ دانش حاضر اور مغربی تہدیب ہے۔ اہل مشرق اپنی مردہ تہذیب کی لاش کو ڈھوتے رہنے کے حق کے لئے اہلِ مغرب سے متصادم ہیں لیکن علم و طاقت کا مغربی تہذیبی تصادم بالآخر اُنہیں ناکام بناکر دانش ِحاضر کی بالا دستی ثابت کردے گا۔‘‘

اہل مشرق نے بالعموم اور مسلمانوں نے بالخصوص ‘ علم کا استعمال دنیائے انسانیت کے اجتماعی مفاد میں کیا‘ جبکہ اہل مغرب نے ’ علم ‘ کو صرف ’ طاقت‘ (اور اقتدار) کے حصول اور طاقت کے نفاذ بالجبر کا ذریعۂ محض بنا دیاہے۔

یہ سکندر احمد ہیں جنہوں نے صرف اِن حقائق کا ادراک ہی نہیں کیا بلکہ ‘ مابعد جدیدیت کے دَجْلْ کو پاش پاش بھی کرڈالا۔

مغربی تہذیب میں ’ علم ‘ اندھی اور بے لگام طاقت کا سر چشمہ ہے اور یہ نوآبادیاتی سامراجی جدید مغربی تہذیب ‘ علم کو صرف طاقت و اقتدار کے حصول کے لئے استعمال کرتی ہے اور جب مل جائے تو اس کے تحفظ اور بقا کے لئے By Hook or by Crookکسی بھی انتہا تک جانے کے لئے تیار رہتی ہے ۔جبکہ علم حقیقی وہ ہے جو انسان کو ہر طرح کے اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے اور پھر یہ بتاتا ہے کہ اُس کا اِس دنیا اور اس کی دیگر مخلوقات سے اور اِن سب کے خالق اور پروردگار سے رشتہ کیا ہے ! اور یہ کہ اُسے زندگی اور علم کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا ہے کہ جب وہ بالآخر اپنے خالق و مالک کے سامنے پیش ہو تو اُسے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔

برادر اشعر نجمی مابعد جدیدیت کا تعزیت نامہ چار سال پہلے ہی تحریر فرما چکے ہیں ( دیکھئے سہ ماہی اثبات ‘ نقش ثالث فروری 2009)اور بزرگ نقاد فضیل جعفری کے تنقیدی مضامین کے مجموعے آبشار اور آتش فشاں (2007)کے دو آخری مضامین ’’ساختیاتی کباب میں رد تشکیل کی ہڈی ‘‘ اور ’’ تھیوری امریکی شوگر ڈیڈی اور مابعد جدیدیت ‘‘ (جو اس سے قبل رسائل و جرائد میں بھی شائع ہو چکے ہیں) مابعد جدیدیت کے پوسٹ مارٹم پر مبنی ہیں ‘ پھر بھی قاضی افضال حسین (سابق صدر شعبۂ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ) نے ضروری سمجھا کہ مابعد جدیدیت کی تفہیم و تشریح پر مشتمل ایک کتاب ضروری ہے خواہ وہ اس نام نہاد تھیوری کی تدفین کے بعد ہی کیوں نہ شائع ہو ۔ ان کی کتاب ’’ تحریر اساس تنقید‘‘ بقول سکندر احمد دس سال قبل شائع ہوتی تو شایدکسی قدر باجواز بھی ہوتی ۔ اس کتاب پر سکندر احمد کا بسیط تبصرہ سہ ماہی اردو ادب کے شمارہ نمبر 348اپریل جون 2010 میں شامل ہے۔ سکندر احمد اس ادبی فسطائیت یعنی مابعد جدیدیت کے سب سے بڑے ناقد تھے۔

مابعد جدیدیت Post Modernismکیا ہے؟ اس کا لفظی ترجمہ ہے جدیدیت سے آگے ‘ جدیدیت سے پرے ‘ یا جدیدیت کے بعد ۔ افسانہ نگار شوکت حیات اور کچھ دوسروں نے مابعد جدیدیت کے لئے ’ انامیت ‘ ، نامیاتیت‘، ’ حرکی تخلیقیت‘، کی اصطلاحیں بھی استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ’ مابعد جدیدیت ‘کو ان سب پر فوقیت حاصل ہے۔ ’ ساختیات‘ پس ساختیات ‘ تشکیل ‘ رد تشکیل وغیرہ اصطلاحیں اسی بعید ازکار ’ تھیوری ‘ کی تفہیم اور طریقہ ٔ کار کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔

فضیل جعفری نے بالکل صحیح نشاندہی کی ہے کہ ’’ غیر معمولی حد تک پیچیدہ زبان کا استعمال اور محیرالعقول قسم کی اصطلاحیں وضع کرنا ساختیاتی و پس ساختیاتی نقادوں ( دریداؔ ‘ لاکاںؔ اور فوکوؔ وغیرہ ) کا عام وطیرہ ہے۔ اس لئے ان کے تمام خیالات کو اردو میں منتقل کرنا ممکن نہیں (آبشاراور آتش فشاں ص۴۹۲)

ڈی ۔سی ۔ آر۔اے گونے تلکے (D.C.R.A. GOONETILLEKE)نے جو مابعد جدیدیت کے ہندوستانی نقادوں میں سے ایک ہے لکھا ہے کہ سلمان رشدی کی کتاب’’ شیطانی آیات‘‘ مابعد جدیدیت کا معتبر ترین متنی حوالہ ہے۔ ( اس کی تفصیل سلمان رشدی‘ گونے تلکے اور مابعدجدید یت کے حوالے سے انٹرنیٹ پر دیکھی جاسکتی ہے۔)

مابعد جدیدیت میں ’ پیروڈی‘ کو ایک سنجیدہ ادبی صنف کی حیثیت حاصل ہے۔’’ شیطانی آیات‘‘ مابعد جدیدیت کا متنی حوالہ اسی لئے ہے کہ وہ قرآن کریم کی نام نہاد پیروڈی ہے۔فضیل جعفری نے اپنے مضمون ’ ساختیاتی کباب میں رد تشکیل کی ہڈی ‘ میں ایک مابعد جدید نقاد مارگریٹ اے روز کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’ آج کل پیروڈی ہی ( مابعد جدید) تنقید کا غالب رجحان ہے‘‘۔

سلمان رشدی کے نزدیک مابعد جدیدیت کی چار شناختیں ہیں: (ایک ) مذہبی انکار کی صورت میں ڈاڑھی نہ رکھنا (دو) سرعام بوس و کنار کرنا (تین ) خنزیری سینڈوچ (HAM)کھانا اور (چار ) یہودیوں سے محبت کرنا۔
اسی لئے’’ شیطانی آیات‘‘ آج دنیا کی چوبیس یونیورسٹیوں میں مابعد جدیدیت کی ٹکسٹ بک کے طور پر پڑھائی جاتی ہے ۔

سکندر احمد اپنے ایک مضمون ’’ مابعد جدیدیت ایک اسلام دشمن تحریک ‘‘ (مطبوعہ ہفت روزہ ’ اعتراف ‘ پٹنہ ) میں لکھتے ہیں کہ تمام مذاہب عالم کے اصولی اقدار و نظام کی تردید و تنسیخ ہی اس کا بنیادی مقصد ہے۔ مقدس صحیفوں اور ان میں پیش کئے گئے دستورالعمل اور نظام زندگی کو مشکوک بنا کر ان پر خط تنسیخ کھینچنا مابعد جدیدیت کا نصب العین تھا۔ قاری اساس تنقید اور رد تشکیل وغیرہ کی اصطلاحیں اسی لئے گڑھی گئیں اور مذکورہ دور ازکاربحثیں اسی لئے اٹھائی گئیں کہ قرآن مجید کی حقانیت کو چیلنج کیا جاسکے ۔ مابعد جدیدیت کی پوری تحریک ایک صہیونی Zionistتحریک تھی جو بظاہر مارکسزم مخالفت اور سامراج کی حمایت پر مبنی تھی لیکن فی الواقع وہ اسلام رسول اسلامﷺ اور قرآن کریم کے خلاف تھی کیونکہ یہ حقیقت صہیونیت پر بہت پہلے ہی روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ مستقبل میں صرف اسلام اور مسلمان ہی ان کے آڑے آسکتے ہیں ۔ سکندر احمد نے لکھا ہے کہ چونکہ مابعد جدیدیت کے نقطہ ٔ نظر سے سلمان رشدی کی’ شیطانی آیات ‘ اسلام کی جڑوں پر کاری ضرب کی حیثیت رکھتی تھی اس لئے ہندستان میں بھی فاشسٹوں اور فرقہ پرستوں کی طرف سے سلمان رشدی کی بھرپور وکالت و حمایت کی گئی لیکن جب کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ مابعد جدیدیت کی زد میں صرف قرآن اور بائبل ہی نہیں گیتا اور رامائن جیسے ہندوؤں کے مقدس صحیفے بھی آتے ہیں تو ہندی ادیبوں کی ایک جماعت نے بھی مابعد جدیدیت کے خلاف ایک محاذ قائم کر لیا ہے اور اب ہندی کے سنجیدہ لکھنے والے بھی مابعد جدیدیت کو ہندو تہذیب و ثقافت کے لئے خطرناک سمجھتے ہوئے اس کی تردید و تنسیخ کرنے لگے ہیں ۔

ژاک دریدا کو ( جس کا چند سال قبل انتقال ہو گیا ) لاکاںؔ اور فوکوؔ کی طرح مابعد جدیدیت کے پیغمبر کا درجہ حاصل ہے۔ رد تشکیل (De- Construction)کی تھیوری اسی کے نام سے منسوب ہے۔

سکندر احمد نے گیارہ سال قبل ہفت روزہ ’ اعتراف ‘ کے ایک شمارے میں دریدا کے سرقے کا بھانڈا پھوڑا تھا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ رد تشکیل کی پوری تھیوری دریدا نے حسن بن صباح کی عربی کتاب ’ ’المتونت‘‘ سے اٹھائی ہے۔ وہ چونکہ بہت دنوں تک الجیریا میں رہا تھا اور عربی بہت اچھی جانتا تھا اس لئے یہ کام اس کے لئے کوئی مشکل نہ تھا لیکن اس نے کبھی یہ اعتراف نہیں کیا کہ اس نے ’ رد تشکیل ‘ کا پورا نظام فرقہ باطنیہ کی کتاب ’’ المتونت ‘‘ سے اڑایا ہے۔ حسن بن صباح کے پیروکار قرآنی متون کو اپنے حساب سے Deconstruct کیا کرتے تھے ۔ مقصد یہ تھا کہ اپنی مرضی کے مطابق جائز کو ناجائز اورناجائز کو جائز قرار دیا جائے ۔ دریداؔ نے فرقہ باطنیہ کے ’ ردتشکیل ‘ کے اس اصول کو تمام متون پر منطبق کر دیا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ باطنیوں کے پیش نظر صرف قرآنی متون تھے‘ جب کہ مابعد جدیدیت کی ردتشکیل تھیوری کے دائرہ کار میں بغیر استثنیٰ تمام ادبی وغیر ادبی ‘ مذہبی و غیر مذہبی متون شامل ہیں۔ سکندر احمد نے عبدالحلیم شرر کی کتاب حسن بن صباح (مطبوعہ 1931) اور’’ اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ (انسائکلوپیڈیا ) کی جلد سوم (مطبوعہ 1943)کے حوالے سے یہ انکشاف کیا تھا۔

مابعد جدیدیت اور تہذیبوں کے تصادم کی جدید تھیوری کے پرچم برداروں ……دریداؔ ‘ لاکاںؔ اور فوکوؔ نیز برنارڈ لیوس ‘ سیموئیل ہن ٹنگ ٹن‘ اور فوکو یاما کے مقاصد ایک ہی تھے۔ آخر الذکر کی کتابیں ’ اے مڈل ایسٹ موزیک ‘ ’ کلیش آف سویلائزیشن ‘ اور ’ دی اِنڈ آف ہسٹری اینڈ دی لاسٹ مین‘…… دراصل ’ علم اور طاقت ‘ کے یکساں مغربی نصب العین کے حصول کو یقینی بنانے ہی کے لئے تصنیف کی گئی تھیں۔

مابعد جدیدیت کی ادبی تھیوری کا دوسرا شارح ’ فوکو ‘ ہم جنسی کے عذاب میں مبتلا ’ ایڈز‘ کا مریض تھا لیکن وہ علی الاعلان کہتا تھا کہ ایڈز کوئی مرض نہیں ‘ ’ محض لفظوں کا ایک انتشار‘ (MERE EFFUSION OF WORDS)ہے۔ اُس نے نہ صرف اپنے ایڈز زدہ ہونے کو چھپایا بلکہ اپنے متعدد ہم جنس پارٹنروں میں ایڈز کی منتقلی کا سبب بھی بنا۔ فوکو منشیات کا اس قدر عادی تھا کہ کہا جاتا ہے کہ وہ مقدار ( جو نشے کے لئے روز لیا کرتا تھا) کسی کو بھی پاگل کردینے کے لئے کافی تھی(5)۔

سکندر احمد نے اردو لسانیات کے میدان میں بھی ماہرین لسانیات کی غلامانہ روش کا بھانڈا پھوڑا اور بتایا کہ ڈاکٹر محی الدین قادری زور سے لے کرمسعود حسین خاں ‘ گیان چند جین ‘ فہمیدہ بیگم ‘ اقتدار حسین خاں ‘ سہیل بخاری ‘ گوپی چند نارنگ اور مرزا خلیل بیگ تک…… کم و بیش سبھی کم یا زیادہ مغرب کی تقلید کے مرتکب ٹھہرتے ہیں ۔

سکندر احمد نے اپنے معرکہ آرا مضمون ’ اردو صوتیات:اصل کا تناظر‘ (مطبوعہ ’ جامعہ ‘ جنوری ۔ مارچ 2004)میں لکھا ہے کہ اردو صوتیات کی اصل ‘ سنسکرت عربی اور فارسی میں تلاش کرنا چاہئے ۔ آئی پی اے چارٹ (International Phonetics Association IPa Chart)اور مغربی ماہرین صوتیات بلوم فیلڈ ‘ پاٹک ‘ فرتھ‘ اور ٹربز کاے میں نہیں ۔

سنسکرت میں پانینی کی ’ اشٹا دھیائے ‘ عربی میں خلیل بن احمد کی کتاب العین ‘ بوعلی سینا کی مخارج الحروف ‘ اور سیبویہؔ کی ’الکتا ب‘ صوتیات اور لسانیات کی بنیادی کتابیں ہیں جن کے بغیر اردو صوتیات کی درست تفہیم ممکن ہی نہیں کہ یہی اردو صوتیات کے بنیادی اثاثے ہیں جن کے بغیراردو صوتیات پر گفتگو کرنا اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے سوا اور کچھ نہیں۔

سکندر احمد کا مضمون ’ ہمزہ(ء) اپنی اصل کے تناظر میں (مطبوعہ شب خون دسمبر1999) بھی غیر معمولی نوعیت و اہمیت کا حامل ہے‘ جو ثابت کرتا ہے کہ اُن کی غیر تقلیدی اجتہادی روش انہیں ہر جگہ ’ غلامی ‘ اور ’ تقلید ‘ سے بچاتی اور غلط نتیجے تک پہنچنے سے محفوظ رکھتی ہے ۔

سکندر احمد کے اس مضمون کی تائید میں شائع ہونے والا خواجہ غلام ربانی مجال کا مضمون ’’ ہمزہ (ء) اردو صوتیات کا مثلث برمودہ‘‘ (مطبوعہ اخبار اردو اسلام آباد ستمبر 2006) بھی بلند علمی اہمیت کا حامل ہے ۔

سکندر احمد کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ خواہ کتنے ہی اَدَق مشکل یا بظاہر غیر دلچسپ موضوع پر قلم اٹھائیں اُسے نہایت دلچسپ اور سہل بنا دینے کے باوجود اس کے اعلیٰ تحقیقی اور علمی وقار کو برقراررکھنے پر قادر تھے۔ تحقیقی مجلہ ’ فکر و تحقیق‘ میں شائع ان کا ایک مضمون ’ الفاظ کی تذکیرو تانیث ‘ (مطبوعہ جنوری ۔مارچ2005) پروفیسر وہاب اشرفی کی کتاب’’ مابعد جدیدیت : مضمرات اور ممکنات‘‘ (2003)پر ان کا تبصرہ (مطبوعہ سہ ماہی تشکیل اگست 2003) اور قاضی افضال حسین کی کتاب تحریر اساس تنقید (2010)پر ان کا تبصرہ مطبوعہ سہ ماہی اردو ادب جون 2010متذکرہ بالا دعوے کے ثبوت میں بآسانی پیش کئے جاسکتے ہیں ۔ بالخصوص اول الذکر مضمون ’’ الفاظ کی تذکیر و تانیث ‘ ‘ تو عام قاری کو اپنے موضوع پر تمام ضخیم و بسیط اور بوجھل کتابوں سے بے نیاز بنا دینے والے ’ حرف آخر‘ (سے بس ایک درجہ کم) کا درجہ رکھتا ہے ( کہ حقیقی حرفِ آخر تو بس صور قیامت ہوگا!)

آخر کلام میں ایک اعادہ کہ سکندر احمد نے گزشتہ 20-15برسوں میں جو کچھ لکھا ہے وہ ابھی تک ہندستان وپاکستان کے متعدد علمی جرائد و رسائل کی فائلوں میں بند ہے۔ خودہم نے بھی اب تک ان کے صرف دس بارہ مضامین ہی پڑھے ہیں جن میں متذکرۂ بالاکے علاوہ قرۃ العین حیدر اور نیر مسعود کے فکشن پر ان کے معرکہ آرا مضامین بھی شامل ہیں ۔ ’’قرۃ العینیت ‘‘ (مطبوعہ ذہن جدید ۔ دہلی 2009)کے بارے میں تو اہل نظر کا کہنا ہے کہ’’ آگ کا دریا‘‘ کی اس سے اچھی تفہیم شاید ہی کبھی ہوئی ہو۔ کاش یہ عینی آپا کی زندگی میں شائع ہوا ہوتا۔ نیّر مسعود پر سکندر احمد کا مضمون ’’نیّر مسعود معمہ یا حل‘‘ سہ ماہی اردو ادب کے شمارہ نمبر 341جولائی ستمبر 2008میں شائع ہوا تھا۔یہ نیر مسعود کے فن پر لکھا جانے والا شاید اب تک کا سب سے اچھا مضمون ہے۔

غرض یہ کہ اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ اب سکندر احمد کے تمام وقیع و قیمتی مضامین ایک کتاب میں یکجا کر دئے جائیں تا کہ نئی نسل کے ساتھ ساتھ ہماری نسل بھی جاتے جاتے اس کے تمام وکمال اور بالاستیعاب مطالعے کا حظ اٹھالے اور محرومی کی کسک لے کر قبر میں نہ جائے۔
حواشی :
(۱) فضیل جعفری ، آبشار اور آ تش فشاں ۔ تھیوری ، امریکی شوگرڈیڈی اورمابعد جدیدیت ۔
(۲) اشعر نجمی مدیر سہ ماہی اثبات ۔ نقش ثالث فروری 2009۔ مابعد جدیدیت کاتعزیت نامہ
(۳) عمران شا ہد بھنڈر،فلسفہ مابعد جدیدیت ایک تنقیدی مطالعہ (دوسرا ایڈیشن 2010) اورجدیدیت کے بعد :سر قہ اورتضادات سہ ماہی مژگاں کولکاتہ دہائی شمارہ ( 33تا36)2009-10ص ص1749تا1807
(۴) نا صر عباس نیر’’علم اور طاقت : نوآبادیاتی سیاق میں‘ ‘سہ ماہی اردو ادب نمبر 351جنوری تا مارچ 2011ص ص 49تا82
(۵) سہ ماہی اردو ادب جون 2010میں قاضی افضال حسین کی کتاب قاری اساس تنقید پر سکندر احمد کا تبصرہ
 

Alam Naqvi
About the Author: Alam Naqvi Read More Articles by Alam Naqvi: 4 Articles with 4645 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.