دو راستے ---دو منزلیں

زندگی کے سفر میں بہت سے مقامات پر انسان اپنے آپ کو دوراہے پر پاتا ہے ، جہاں اُس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں ، ایک راستہ وقتی فائدے اورظاہری سکون و راحت کا ہوتا ہے، اس میں ہر طرف پھول ہی پھول نظر آتے ہیں ،زندگی محفوظ اور پر کشش دکھائی دیتی ہے لیکن اس ساری آسائشوں کو حاصل کرنے کے لیے انسان کو کسی عظیم مقصد سے غداری اور کسی بہت بڑے فریضے سے رو گردانی کرنا پڑتی ہے ،جب کہ دوسراراستہ کسی عظیم الشان مقصد کا راستہ ہوتا ہے، اس میں ہر طرف دکھ کے کانٹے بچھے ہوے اور غم کے طوفان امڈتے نظر آتے ہیں ،بلکہ صاف نظر آرہا ہوتا ہے کہ شاید اس راستے پر چلتے چلتے مجھے زندگی سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں - ایسے لمحات فیصلہ کن لمحات ہوتے ہیں ،انسان نے فوری فیصلہ کرنا ہوتا ہے میں نے کس راستے کا مسافر بننا ہے، تاریخ بتاتی ہے کہ ان دوراہوں پر پہنچنے والوں میں دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں ،ایک وہ ہوتے ہیں جو پھولوں بھرے راستے کا انتخاب کرتے ہیں ،وقتی طور پر جان بھی بچا لیتے ہیں اور ہر قسم کے پر آسائش عہدوں ،پروٹوکول،نازو نعم سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں ، کم فہم لوگوں سے داد بھی وصول کر لیتے ہیں اور جی ہی جی میں خوش بھی ہو رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ،جبکہ دوسرا گروہ ان وفا پرستوں کو ہوتا ہے جو زبان ِ حال سے کہہ رہے ہوتے ہیں :
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر

اِن کے پیش نظر وہ جلیل القدر مقصد ہوتا ہے جو انہیں جان سے بھی بڑھ کر عزیزہوتا ہے ، دنیا انہیں وقتی طور پر (معاذ اﷲ ) کم فہم سمجھ رہی ہوتی ہے ، لیکن جب وقت اپنا فیصلہ صادر کرتا ہے تو پہلے طبقہ کے لیے تاریخ کے صفحات میں ذلت و رسوائی کے سوا کوئی حرف لکھا نظر نہیں آتا اور دوسرے گروہ ِ وفا کیش کو خراج ِ عقیدت پیش کرنے کے لیے الفاظ کم پڑتے دکھائی دیتے ہیں -

یزید نے زمام ِ اقتدار سنبھالی تو مشہور اور بااثر لوگوں کے سامنے یہی دوراہا موجود تھا، ایک طرف یزید کی بیعت کا راستہ تھا ،جس میں عہدے بھی تھے ،منصب بھی ،پر کشش تن خواہیں ، محلات ،کنیزیں ،نوکر چاکر، شراب و شباب اور ہر دنیاوی آسائش، شمر،ابن زیاد،حارث،ابن سعد اور ان جیسے دنیا کے پجاریوں نے اسی پہلے راستے کا انتخاب کیا، انہوں نے مصلحت پسندی کو گلے سے لگا لیا، شاید یہ لوگ چند دن دنیا جہان کی آسائشو ں سے بھی لطف اندوز ہوے ہوں ، لیکن آج تاریخ میں ان کے چہرے اس سیاہی سے آؒلودہ نظر آتے ہیں جسے شاید سات سمندروں کاپانی بھی نہ دھو سکے، یہ لوگ بے غیرتی ، بے حمیتی ،ضمیر فروشی اورباطل کی وکالت کی بد ترین مثال بن گئے -

دوسری طرف ظلم ،جبر، لادینیت، استحصال اور آمریت کے خلاف علم ِ جہاد بلند کرنے کا راستہ تھا جو امتحانوں سے لبریز اور مشکلات سے بھرا ہوا تھا ،امام عالی مقام رضی اﷲ عنہ نے بہت سوچ سمجھ کر اس دوسرے راستے کا انتخاب کیا، آپ جانتے تھے اس راستے میں قدم قدم پر خاک و خون کے دریا ہیں ، آہن و آتش کی وادیاں ہیں ،آپ کو مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ جیسے مقدس شہر چھوڑنے پڑے، پردیس اور غریب الوطنی کی حالت میں اپنا کنبہ اور پھر اپنی جان ِ مقدس قربان کرنا پڑی لیکن ان کا نام تاریخ میں ظلم و جبر کے خلاف آوازۂ حریت کا استعارہ بن گیا، امام عالی مقام اور ان کے رفقاء نے کائنات کو یہ فلسفہ دے دیا کہ اگر تم تعداد میں تھوڑے ہو ،تمہارے پاس وسائل کی کمی ہے، تم گھر سے دور ہو ، لیکن تمہارا مقصد عظیم ہے تو تمہیں اس کی نگہبانی کے لیے اٹھ کھڑے ہونا چاہیے، ضروری نہیں کہ جنگ میں غالب آجانے والا ،دشمنو ں کو تہ تیغ کر دینے والا اور فتح کے علم لہرانے والا ہی فاتح قرار پائے ، کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ خاک و خون میں لوٹتے ہوے وجود کے ایک ایک قطرۂ خون سے صدائے حق بلند ہوتی سنائی دیتی ہے -جو کٹ چکا ہوتا ہے تاریخ فتح کا تاج اسی کے سر پر سجا دیتی ہے ، اصل چیز یہ نہیں ہے کہ آپ کے پاس لشکر، وسائل ،اسباب و آلات کتنے ہیں ،اصل چیز یہ ہے کہ آپ کا مشن کتنا عظیم اور حوصلہ کتنا بلند ہے ،آپ کس قدر جراء ت کے مالک ہیں -انسان اس دوراپر کھڑے ہوکر جیسے راستے کا انتخاب کرتا ہے ویسی ہی منزل اس کی منتظر ہوتی ہے -

آج بھی ہمارے معاشرے میں قدم قدم پر یہی دوراہے موجود ہیں ، ایسے دوراہے جہاں ایک راستہ نیکی اور دوسرا بدی کی طرف ،ایک ظاہری دنیاوی نام و نمود اور دوسرا اُخروی سرخروئی کی طرف جاتا ہے -کوئی بھی سیاسی پارٹی یا آمر تخت ِ حکومت پر بیٹھتا ہے تو چاپلوسوں ،ہوس پرستوں ، اور جی حضوریوں کے لشکر اس کے ارد گرد اکھٹے ہو جاتے ہیں ،جب معاشرے میں اکثریت ان لوگوں کی ہو جو چند ٹکوں کے لیے اپنی قیمتی ترین متاع کو بھی بیچ دیتے ہوں ، جن کے لیے دین ،مذہب، وطن ،غیرت و حمیت ،اقدار و اخلاق جیسی چیزیں ایک کھوٹے سکے جیسی وقعت بھی نہ رکھتی ہوں اُن کو اپنے حکم رانو ں کی بے حمیتیوں کے رونے نہیں رونے چاہییں -

ہم امام ِحسین رضی اﷲ عنہ کے نام لیوا، ان سے محبت کے دعوے دار اور ان کے نام ہر سب کچھ لٹادینے کی مدعی ہیں ،لیکن اس طرح کے دوراہوں پر جہاں ایک طرف عظیم ترین مقصد کی روشنی بلا رہی ہو اور دوسری طرف درہم و دینار کی چمک آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہو ،ہم میں سے کتنے ہیں جو کردار ِ حسینی کو مشعل ِ راہ بنائے صبر و رضا اور استقامت کی منزلوں کی طرف بڑھتے چلے جائیں ؟؟؟

Muhammad Sohail Ahmed Sialvi
About the Author: Muhammad Sohail Ahmed Sialvi Read More Articles by Muhammad Sohail Ahmed Sialvi: 8 Articles with 9116 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.