پانی کے اوپر تعمیر کیے جانے والے متعدد گھروں پر مشتمل
ایک بستی کو پانی کا گاؤں کہا جاتا ہے- ان میں سے اکثر گھر پانی پر تیرتے
ہیں یا پھر بعض Stilts House ( بانسوں کے سہارے کھڑے گھر) ہوتے ہیں- چھوٹے
جزیروں پر واقع دنیا میں ایسے انوکھے گاؤں انتہائی کم تعداد میں موجود ہیں٬
لیکن یہ انتہائی تیزی سے مقبول ہورہے ہیں اور سیاحتی مقام کی حیثیت حاصل کر
رہے ہیں- چند ایسے ہی انوکھے گاؤں پر مشتمل ایک فہرست دنیا میگزین نے شائع
کی جو کہ چند ترامیم کے ساتھ یہاں ہماری ویب کے قارئین کے لیے بھی پیشِ
خدمت ہے-
|
کوپنائی گاؤں - Ko Panyi
, Thailand
تھائی لینڈ کا یہ گاؤں ماہی گیری کے حوالے سے دنیا کا انوکھا گاؤں ہے۔
انڈونیشین مسلمان ماہی گیروں کے 200 گھروں پر مشتمل یہ گاؤں کشتیوں پر
مشتمل ہے جس میں 1500 سے 2000 تک نفوس رہائش پذیر ہیں۔ یہ مسلم خاندان جاوا
سے یہاں ہجرت کر کے آئے ہیں۔ اس کشتیوں کے گاؤں میں ایک سکول بھی ہے جس
میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ 1986ء کے فیفا ورلڈ کپ
کے موقع پر یہاں کے بچوں کا بنایا ہوا فلیوٹ بھی اختتامی تقریب میں پیش کیا
گیا تھا جواس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ گاؤں پانی پر رہتا ہے اور پانی پر
ہی زندگی بسر کرتا ہے کیونکہ ان کا ذریعہ آمدنی صرف اور صرف ماہی گیری ہے۔
اس گاؤں کا نام ’’کوپنائی ‘‘ ہے۔ |
|
ویت نام کا تیرتا ہوا گاؤں - Halong Bay
Floating Village , Vietnam
ہالانگ خلیج کے پانی پر ایک تیرتا ہوا گاؤں دنیا کے انوکھوں گاؤں میں سے
ایک ہے۔ جس میں 600 لوگ رہائش پذیر ہیں۔ یہ ویت نام کی ہنگاموں بھری زندگی
سے دور ایک پرسکون جگہ ہے جہاں کے لوگ لہروں کے رحم و کرم پر ہیں لیکن
زندگی مزے کی گزار رہے ہیں۔ اس گاؤں کے بسنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ لوگ
خلیج کے آس پاس کا علاقہ چٹانی زمین پرمشتمل ہے جہاں نہ تو کاشت کاری
ہوسکتی ہے اور نہ ہی کوئی معاش کا ذریعہ ہے کہ لوگ اپنی زندگی کو گزار سکتے۔
لوگ بڑی بڑی کشتیاں بنا کر اس میں محلے بنا کر رہتے ہیں۔ یہاں کے باسی سی
فوڈ اور مچھلیوں کا شکار کر کے زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ شام کو
آس پاس کے علاقوں سے بڑی کشتیوں میں آ کر ان ماہی گیروں سے مچھلیاں خریدی
جاتی ہیں۔
|
|
گیتھورن ہالینڈ - Giethoorn, Netherland
جرمنی ساحل کے نزدیک ہالینڈ کا یہ گاؤں واقع ہے۔ اسے ہالینڈ کا وینس بھی
کہا جاتا ہے، اس لئے کہ اس گاؤں میں 7.5 کلومیٹر لمبی نہریں گزرتی ہیں۔
گاؤں کے نفوسوں کی تعداد 1230 ہے اور گاؤں کی ساری کی ساری ٹریفک پانی کے
بہاؤ پر ہی چلتی ہے۔ الیکٹرک موٹر سے چلنے والی کشتیوں کو ’’پونٹرز‘‘ کہتے
ہیں اور یہ پونٹر مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لاتی اور لے جاتی ہیں۔
اس آبی گزرگاہ پر 50 سے زائد لکڑی کے پل ہیں۔ لوگ اپنے دروازوں سے کشتی
میں سوار ہو کر بازار سے شاپنگ کرتے ہیں۔ ان کی تمام سرگرمیاں کشتیوں پر ہی
ہوتی ہیں۔
|
|
پیرو کا تیرتا ہوا گاؤں - Uros Floating
Village , Peru
امریکہ کے بغل میں واقع چھوٹے سے ملک پیرو کے ایک فیشن ایبل علاقے کے
مکینوں نے اپنی تفریحی کا نیا ذریعہ ڈھونڈا ہے۔ اس علاقے میں بہت سی جھیلیں
اور ندیاں ہیں جو کئی مقامات پر ایک دوسرے سے جدا ہوتی ہیں اور کئی مقام پر
شیروشکر۔ چنانچہ لوگوں نے لکڑی کے گھر بنائے اور انہیں کشتیوں میں فٹ کر کے
کھڑا کر دیا ہے- یہ لوگ ویک اینڈ پر آ کر یہاں بسیرا کرتے ہیں۔ کشتیوں میں
بنائے گئے گھروں کی بالکونیوں میں بیٹھ کر مچھلیاں پکڑتے ہیں۔ پرندوں کے
کیلئے پھندے لگاتے ہیں اور ٹولیوں کی صورت میں بہتے مکان ایک راستے سے چلتے
ہوئے دوسرے راستے سے واپس اپنی جگہ پر آ کر رک جاتے ہیں- اس طرح سے یہ بھی
تیرتا ہوا گاؤں ہے- جہاں زندگی کے بہت سے رنگ بکھیرے دکھائی دیتے ہیں۔
|
|
ویزن چین - Wuzhen , China
ویزن چین کا قدیم روایتی پانی کا قصبہ ہے جہاں لوگ آبی گزرگاہ سے ہی آپس
میں جڑے ہوئے ہیں۔ 71.19 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل اس گاؤں کی کل آبادی
60 ہزار سے زائد ہے جبکہ 12ہزار افراد تو یہاں کے مستقل رہائشی ہیں۔ اس
گاؤں کی تاریخ دو ہزار سال پرانی ہے۔ یہاں کے بنے ہوئے لکڑی کے پرانے پل
اور پتھروں سے بنائے گئے تھڑے جس پر بیٹھ کر خواتین کپڑے دھوتی ہیں- یہاں
کی تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں۔ پانی پرتیرتا یہ گاؤں صدیوں سے اپنی روایت
برقرار رکھتے ہوئے ماہی گیری کے شعبے پر انحصار کرتا ہے۔
|
|
کمپونگ برونائی - Kampong Ayer, Brunei
برونائی دارالسلام کے دارالحکومت بانڈرسری بیگوان کے ساحل پر واقع اس آبی
گاؤں میں آبادی 39 ہزار نفوسوں پر مشتمل ہے جو کہ برونائی کی کل آبادی کا
دس فیصد ہے۔ پانی پر تیرتا یہ گاؤں دریائے برونائی پر واقع ہے۔ اس گاؤں کی
سب سے خوبصورت وہ مسجد ہے جسے سلطان عمر بن سیف الدین نے بنایا تھا۔ اتنے
بڑے گاؤں میں سکول، ہسپتال، ریسٹورنٹ، دکانوں، مساجد اور پٹرول سٹیشن کی
سہولتیں میسر ہیں اور ٹیکسی کشتیاں فراٹے بھرتی سارا دن مسافروں کی خدمت
سرانجام دیتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس گاؤں کی تاریخ 13 سو سال پرانی لیکن دنیا
کی جدید سہولتوں سے مزین ہے جس میں بجلی اور انٹرنیٹ سروس کی سہولت بھی
شامل ہے۔
|
|
ژوژانگ گاؤں - Zhouzhuang , China
چین ژوژانگ چین کا مشہور واٹر ٹاؤن ہے جو کہ سوزہاؤ شہر سے 30 کلومیٹر دور
واقع ہے۔ یہ گاؤں میں بھی نہروں کا جال بچھا ہوا ہے۔ جس پر پرانے طرز کی
لکڑی کے پل بنے ہوئے ہیں۔ گاؤں کی سب گلیاں آبی گزرگاہوں سے جڑی ہوئی ہیں۔
لوگوں کی آمدورفت کا واحد ذریعہ کشتیاں ہیں اسے مشرق کا وینس کہا جاتا ہے۔
|
|
ٹومیٹو گارڈن گاؤں - A floating tomato
garden on Inle Lake
میانمر کے لارپا میانمرمیں واقع وہ گاؤں ہے جس کے باسیوں نے ان کی جھیل میں
تیرتے باغوں پر مشتمل کشتیوں کے بیڑے بنائے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ تبت برہمن کے
ماننے والے ہیں۔ تیرتی کشتیوں میں سبزیاں، پھل اور خاص طور پر ٹماٹر اگا کر
اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔ بانسوں کی مدد سے بنائی گئی کیاریوں میں اعلیٰ
درجے کی سبزیاں علاقائی ضروریات کو پوری کرتی ہیں۔
|
|
ٹونگلی چین - Tongli , China
سوزہاوشو سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع ٹونگ لی گائوں آبی دیہاتوں میں
سے ایک معروف نام ہے۔ یہاں نہروں کا جال بچھا ہوا ہے اور قدیم اور تاریخی
آبی گزرگاہوں اور ریلوں کی وجہ سے یہ مشہور ہے اس میں پتھر کے بنے 49 پل
ہیں اور اس کے علاوہ باغات اور مندر بھی ہیں۔
|
|
لمبے بالوں والی خواتین کا گاؤں - world’s
first long hair village
لمبے بال خواتین کی خوبصورتی کا ایک بنیادی عنصر سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے
کہ دنیا کی تمام خواتین کی واضح اکثریت اپنے بالوں کو بڑھانا چاہتی ہے اور
اس کیلئے مختلف تیل اور جڑی بوٹیاں اور ٹوٹکے استعمال کرتی ہے۔ خدا کی قدرت
ہے کہ چین میں ایک ایسا گاؤں واقع ہے جہاں کی تمام خواتین کے بال بہت ہی
لمبے ہیں۔ اس گاؤں کا نام گولین ہے اور یہ ہان گولو کی ریاست میں واقع ہے۔
اس میں 82 گھر ہیں اور ہر گھر کی خاتون کے بال اس کی کمر سے ہوتے ہوئے اس
کے ٹخنوں کو چھوتے ہیں۔ اس وجہ سے اس گاؤں کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں
شامل کیا گیا ہے اور گولین کو اپنے لمبے بالوں والی خواتین کا گائوں کہا
جانے لگا ہے۔ ایک مطالعہ کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ 120 عورتوں کے
بالوں کی لمبائی 1.7 میٹر ہے اور سب سے لمبے بالوں کی پیمائش 2.1 میٹر ہے۔
گرمیوں اور خزاں میں یہ خواتین گاؤں کے قریب بہتی ندی میں جا کر انہیں
دھوتی ہیں اور پھر انہیں نیلے سکارف میں باندھ کر محفوظ کرلیتی ہیں۔ ان
لمبے بالوں کو دیکھنے کا حق صرف اس مرد کو حاصل ہوتا ہے جو اس لڑکی سے شادی
کرے گا۔ اور اگر کوئی غیر ان بالوں کو دیکھ لے تو اسے اس خاندان کے ساتھ
تین سال گزارنے پڑتے ہیں اور اس کا مرتبہ گھر داماد کا سا ہوتا ہے۔ یہ
پابندی 1987ء تک تو بہت سختی سے عائد تھی لیکن آج یہاں کی خواتین پورے فخر
سے اپنے بالوں کو دکھاتی ہیں۔ |
|