پاکستان: قدرتی حسن سے مالا مال کیرتھر نیشنل پارک

کراچی کی ہنگامہ خیز مشینی زندگی، بھاگ دوڑ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شب و روز کی مصروفیات نے یہاں کے لوگوں کو زندگی کے لطف سے تقریباً محروم کردیا ہے۔ ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ نے لوگوں کے مزاج غیر محسوس طور پر بدل کر رکھ دئیے ہیں بعض اوقات ذہن معمولاتِ زندگی سے اس قدر اکتا جاتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسی پرسکون اور خوبصورت مقام پر بھاگ جانے کو دل چاہتا ہے۔ یوں تو پاکستان فطرت کے حسین اور دلکش مناظر سے آراستہ ایک ایسی سرزمین ہے جہاں فلک بوس پہاڑی سلسلے بھی ہیں۔ وسیع و عریض ریگستان بھی سیاحوں کو اپنے حسن سے مسحور کرتی سرسبز وادیاں گنگناتے دریاؤں سے لے کر طویل سمندری ساحل سرسبز اور خشک پہاڑ گھنے جنگلات جو جڑی بوٹیوں سے لے کر نایاب جنگلی حیات سے پر ہیں۔ شمالی علاقہ جات کی تو بات ہی کچھ اور ہے مگر وہاں تک رسائی ہر کسی کے بس کی بات نہیں کبھی وقت اجازت نہیں دیتا اور کبھی معاشی وسائل خواہشات کا خون کردیتے ہیں لیکن پریشانی کی کوئی بات نہیں ہم آپ کو کراچی سے صرف 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک خوبصورت جگہ لے چلتے ہیں جہاں پہاڑ بھی ہیں، ریتیلے میدان بھی، جنگل بھی اور مختلف النوع جانور اور پرندے بھی، جی ہاں یہ کیرتھر نیشنل پارک ہے۔
 

image


کیرتھر نیشنل پارک کراچی سے صرف 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ کیرتھرنیشنل پارک کا قیام 28 اکتوبر 1973 کو عمل میں آیا۔ ہوا یوں کہ 1970 کے عشرے میں ورلڈ وائلڈ لائف (W.W.F) کے جارج شیلر نے کیرتھر رینج میں اسٹڈی کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو رپورٹ دی کہ اس علاقے میں بعض نایاب جانور موجود ہیں اگر انہیں بروقت تحفظ نہ دیا گیا تو ان کی نسل ختم ہوجائے گی۔ معاملے کی اہمیت کے پیش نظر اس پر سنجیدگی سے غور کیا گیا اور یوں 28 اکتوبر 1973 کو اس پارک کا قیام عمل میں آیا۔ ورلڈ وائلڈ لائف کے قوانین کے تحت اس نیشنل پارک کو کٹیگری پانچ میں شمار کیا گیا۔ اس کٹیگری میں شمار ہونے والے نیشنل پارک میں جنگلی حیات کے تحفظ کا مکمل اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہاں ملک کا سربراہ بھی کسی جانور کا شکار نہیں کرسکتا۔ پارک کے قیام کے وقت اس میں 48 جنگلی بھیڑیں 12 سو کے قریب سندھ آئی بگس اور ایک دو چنکارہ ہرن کے علاوہ کچھ تعداد میں چیتے بھی موجود تھے۔ سندھ وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ حکومت پاکستان اور چند عالمی اداروں کے تعاون سے یہاں جنگلی حیات کے تحفظ کے خاطر خواہ انتظامات کئے گئے۔ آج یہاں 15 سو کے قریب چنکارہ ہرن، 2 ہزار کے قریب جنگلی بھیڑیں اور تقریباً 4 ہزار کی تعداد میں سندھ آئی بگس موجود ہیں۔ ان تین کے علاوہ کیرتھر نیشنل پارک میں سیاہ گوش، صحرائی بلے، بھیڑیں، جنگلی چوہے، کانٹے دار چوہے، نیولے، چھپکلیوں، گرگٹ اور سانپوں کی کئی نایاب اقسام محفوظ اور قدرتی ماحول میں پروان چڑھ رہی ہیں۔ پرندوں کی بھی مختلف اقسام یہاں موجود ہیں جبکہ چڑیا سے لے کر راج ہنس تک تقریباً 700 اقسام کے پرندے سائبیریا، یورپ اور دیگر ممالک سے سرد موسم میں ہجرت کرکے اس طرف آتے ہیں۔ سرد موسم میں ہمالیہ کا سنہرا عقاب اور گرے ہپوکولیس جیسا خوبصورت پرندہ بھی یہاں دیکھا جاسکتا ہے۔ کسی زمانے میں یہاں گلدار (چیتے) بھی موجود تھے لیکن 1982 میں آخری چار چیتے ایک حادثے کی نذر ہوگئے۔

کیرتھر نیشنل پارک میں انتظامی حوالوں اور جنگلی حیات پر تحقیق کرنے والوں کی سہولت کے پیش نظر دو سینٹر، کار سینٹر اور کرچار سینٹر موجود ہیں جبکہ دو سب سینٹر بھی ہیں جن میں ایک تھانو احمد خان اور دوسرا بچانی سب سینٹر کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ جنگلی حیات پر تحقیق کرنے والوں کو حتی الامکان سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ مطالعاتی دورے پر جانے کے لئے ان کے دفتر جو کہ کراچی پریس کلب اور YMCA کے قریب واقع ہے سے پیشگی اجازت لینی پڑتی ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی ایڈونچر کلب نے اساتذہ کے لئے مطالعاتی دورے کا اہتمام کیا جس میں ڈی جے کالج، گورنمنٹ ڈگری کالج برائے طلباء نارتھ کراچی، جناح کالج، آدمجی سائنس کالج، گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد، شپ اونر کالج، پریمئر کالج، قائد ملت کالج، بفرزون کالج ، ایس ایم سائنس کالج اور کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ شامل تھے۔
 

image

کیرتھر نیشنل پارک کے کھار سینٹر روانگی کے وقت ہمارا خیال تھا کہ وہاں جنگل میں دھول مٹی اور جھاڑ جھنکاڑ سے واسطہ پڑے گا، روشنی کے لئے ایمرجنسی لائٹس ، کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر ضروری ساز و سامان کے ہمراہ ہم سرجانی ٹاؤن والے راستے سے روانہ ہوئے۔ یاد رہے کہ کھار سینٹر کا ایک راستہ سپر ہائی وے پر گڈاپ کے قریب سے بھی جاتا ہے۔ جب ہم کھار سینٹر پہنچے تو ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی آراستہ ڈرائنگ روم، ڈائننگ ہال اور کئی کمروں پر مشتمل ایک بہترین ریسٹ ہاؤس ہمارا منتظر تھا اس جنگل ویرانے میں ریسٹ ہاؤس کی سب سے بڑی خوبی بجلی اور میٹھے پانی کی موجودگی تھی۔ اسٹور میں چھوٹے بڑے برتن، گدے، کمبل، چارپائیاں ایک بڑے مطالعاتی دورے کے شرکاء کی ضرورت کے لحاظ سے موجود تھیں۔ ریسٹ ہاؤس کے اردگرد بھی کئی چھوٹے چھوٹے مکمل رہائشی یونٹ موجود تھے جو ریسرچ کرنے والوں کے لئے بنائے گئے تھے۔

یہ ریسٹ ہاؤس کافی بلندی پر بنایا گیا ہے یہاں سے کافی دور تک کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔ بائیں جانب واقع حب جھیل بھی یہاں سے نظر آتی ہے۔ سامنے کی طرف وسیع و عریض جنگل میں بعض نایاب جانور مکمل قدرتی ماحول میں موجود ہیں۔ دائیں جانب نظر دوڑائیں تو بلند و بالا پہاڑے سلسلے حدِ نظر تک پھیلے نظر آتے ہیں۔ ریسٹ ہاؤس کی پچھلی طرف بڑی تعداد میں مور موجود ہیں۔

پارک میں ہماری رہنمائی کے لئے سندھ وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کے رفیق احمد راجپوت کراچی سے ہمارے ساتھ چلے تھے۔ جنگلی حیات کا مطالعہ ان کے پیشہ ورانہ فرائض میں شامل ہے۔ جنگلی حیات اور فطرت سے انہیں عشق ہے۔ اکہرے بدن کا یہ شخص جنگلی حیات کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ثابت ہوا اپنے شوق کے باعث وہ مختلف ممالک کے نیشنل پارکس کے علاوہ تقریباً 15 ہزار فٹ بلند دنیا کی بلند ترین سطح مرتفع ’’دیوسائی‘‘ کی یخ بستہ فضاؤں میں کئی کئی مہینوں تک بھورے ریچھوں پر ہونے والی تحقیق میں شامل رہے۔ معروف پاکستان سیاح اور قلمکار مستنصر حسین تارڑ نے رفیق راجپوت کی معلومات اور ان کے کام سے متاثر ہوکر اپنی کتاب ’’دیوسائی‘‘ میں باقاعدہ ایک عنوان ’’رفیق راج بھوت‘‘ کے نام سے لکھا ہے۔ تارڑ کا خیال ہے کہ یہ شخص اپنی معلومات اور جنگلی حیات پر ریسرچ کرتے کرتے بھوت بن چکا ہے۔
 

image

اردو اور فارسی زبان کے شعرائے کرام نے ہرنی کی چال اور چشمِ غزال کی ایسی تعریف کی ہے کہ ہم غزال کی تلاش میں رفیق راجپوت کے ساتھ جنگل میں گھومتے پھرے اور آخرکار انہیں آزاد ماحول میں چوکڑیاں بھرتے دیکھ کر ہی دم لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس شوقِ دیدار میں ہمارے کئی ساتھیوں کا دم ہوا ہوگیا تھا۔ ذرا دیر سستانے کو رکے تو ایک پتھر پر بڑی خوبصورت سی رنگین چھپکلی نظر آئی۔ رفیق راجپوت نے بتایا کہ اسے مقامی زبان میں ’’ہنٹر کھنٹر‘‘ کہا جاتا ہے مقامی لوگ اس سے بہت خوف کھاتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اگر یہ کسی کے بدن سے چھوجائے تو اس شخص کی موت فوری طور پر واقع ہوجاتی ہے۔ رفیق کا کہنا تھا کہ یہ محض وہم ہے یہ چھپکلی بے ضرر ہے ایک خاص بات جو رفیق راجپوت نے بتائی وہ یہ تھی کہ پورے پاکستان میں چار پیروں پر رینگنے والا کوئی جانور زہریلا نہیں ہے۔

کیرتھر نیشنل پارک کے وسیع علاقے اکثر مقامات پر گوٹھ بھی موجود ہیں جو جنگلی حیات کے تحفظ میں بورڈ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ ہماری ملاقات چاچا اسحاق سے کرائی گئی جنہوں نے اڑیال کے چند بچوں کو بڑی توجہ سے پالا تھا آج اڑیال کی ایک بڑی تعداد یہاں موجود ہے اور چاچا اسحاق سے اس قدر مانوس ہے کہ ان کی آواز سن کر بہت سے اڑیال دوڑتے ہوئے ان کے قریب جمع ہوجاتے ہیں۔ چاچا اسحاق بھی ان سے اپنی اولاد کی طرح محبت رکھتے ہیں۔
 

image

کیرتھر نیشنل پارک بڑی متنوع جگہ ہے مختلف المزاج لوگوں کی دلچسپی کا سامان یہاں موجود ہے۔ اگر آپ جنگلی جانوروں اور پرندوں میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کے دیکھنے اور جاننے کے لئے یہاں بہت کچھ ہے۔ اگر جنگلی پودوں جڑی بوٹیوں پر تحقیق آپ کا میدان ہے تو میلوں پر پھیلا ہوا جنگل آپ کی تحقیقی صلاحیتوں کو چیلنج کررہا ہے۔ اگر آپ کوہ پیمائی کا شوق رکھتے ہیں تو کیرتھر کے بلند و بالا پہاڑی سلسلے آپ کو اپنا عزم و حوصلہ آزمانے کی دعوت دیتے ہیں اگر آپ مناظر قدرت کے دلدادہ ہیں اور شہر کے شور شغف سے دور کچھ وقت حسنِ فطرت کی آغوش میں گزارنا چاہتے ہیں تو بھی یہاں آکر آپ کو مایوسی نہیں ہوگی۔
YOU MAY ALSO LIKE:

The Kirthar National Park is situated in the Kirthar range mountains in Karachi and Jamshoro District in Sindh, Pakistan. It was founded in 1974 and stretches over 3087 km², being the second largest National Park of Pakistan after Hingol National Park. The fauna comprises leopards, striped hyenas, wolves, ratels, urials, chinkara gazelles and rare Sind wild goats.