بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الحمد ﷲ رب العالمین ،والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین ،وعلی آلہ وصحبہ
ومن والاہ الی یوم الدین ، امابعد :
سب سے پہلے تو میں icrc اور اس کے منتطمین کا انتہائی مشکور ہوں کہ انہوں
نے بنی نوع بشری اور انسانیت پر چارسو بے تحاشا ظلم وستم کے ڈھائے جانے کے
اس مہیب اور المناک دور میں بھی احترام آدمیت کا پر چم بلند کیئے رکھاہے ،
پھر اس حوالے سے ان کی شبانہ روزمساعیٔ جمیلہ بھی قابل صد تحسین ہیں ، آج
جس سیمینار میں ہم سب یہاں جمع ہیں یہ اور اس طرح کی متعدد پُروقار تقریبات
اس ادارے نے وقتافوقتا قائم کی ہیں ، جس پر میں انہیں خراج عقیدت اور سلام
ِ تکریم پیش کرتاہوں ۔
عزیز سامعین کرام ، ایک فرق ملحوظ رہے، اس وقت دنیا میں دو اصطلاحات بہت
مشہور ہیں :
۱- حقوق انسانی کا بین الاقوامی قانون ۔
۲-بین الاقوامی انسانی قانون ۔
ICRC کا موضوع سخن ہمیشہ سے عام انسانی حقوق کے قوانین نہیں ہیں، بلکہ جنگ
وجدال میں احترام انسانیت کے قوانین اس کا امتیازی وصف ہیں۔بنابریں ایک
اسلامی سکالر ہونے کے ناطے ہمیں یہاں جو موضوع دیاگیاہے ،وہ ہے:
’’ زخمی اور بیمار مقاتلین کے حقوق اسلام کی نظر میں ‘‘۔
عزیزان گرامی ،حسن اتفاق سے اﷲ تعالی نے مجھے دنیا میں موجود تمام ادیان
سماویہ اور دیگر غیر الہامی نظامہائے حکومت پر کام کرنے کے مواقع نصیب
فرمائے ، اس حوالے سے ہمارے یہ مذکورہ محاضرات ولیکچر ز 500 کے قریب صفحات
میں ایک وقیع کتاب :’’مکالمہ بین المذاہب ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آچکے
ہیں ، لہذا مجھے کہنے دیجئے ،کہ صرف اسلام ہی کیا، مذہب کوئی بھی ہو،
بنیادی طور پر وہ خون خرابہ ، قتل وقتال ، اور لڑائی جھگڑا کا مخالف ہوتاہے
، کیونکہ مذہب کا مقصد دراصل تہذیب اخلاق اور تربیت انسانیت ہے، ایک پر امن
، خوشگوار ،محبت وآشتی سے لبریز سوسائٹی فراہم کرنا اس کے اولین اور اہم
ترین اہداف میں سے ہے ، ظاہر سی بات ہے جنگ اور لڑائی اس مقصد کے بالکل
متضاد اور متناقض ہیں، اسی لئے بشمول اسلام تمام ادیان الہامیہ اور وضعیہ
میں سے کسی نے بھی کبھی جہاد وقتال کو اپنے اساسی اور بنیادی ارکان میں سے
نہیں شمار کیا، چنانچہ اسلام کے ارکان خمسہ : توحید ، صلاۃ ، زکاۃ، صیام ،
اورحج ہیں ۔تعلیم ،تبلیغ اور نصیحہ یعنی خیر خواہی جوجناب رسالتمآب ﷺ کی
رحمۃ للعالمینیت کی وجہ سے سب کی بھلائی کے پیش نظر بطور فرض کفایہ ایک حد
تک لازم ہے ، نہ کہ ہر کس پر ہرحال میں ۔چنانچہ سیرت نبوی ﷺ کا مکی دور اس
پر شاہد عدل ہے،لیکن ۔۔۔
انسانیت کی بھلائی خیر سگالی اور ترقی وتہذیب کے مقابلے میں جب اوچھے
ہتھکنڈے عروج پر پہنچ گئے، تو اب ان نازیبا ونامناسب حرکتوں ،سازشوں اور
تحریکوں کا سدّ باب کر نے اورانہیں قلع قمع کرنے کے لئے مختلف آپریشن کے
انتظامات جہادوقتال کے عنوان تلے کرنے پڑے۔بالکل ایساہی جیسے چمنستان کے
پھولوں کو خس وخاشاک یا خار وتارمتاثر کریں ،ان کی بڑوتری اور پروان چڑھنے
کے بجائے خود ان پھولوں کے مرجھاجانے کا اندیشہ ہوتو ایسے میں پھر مالی جو
کچھ قینچی چلاکر کرتاہے، وہ سب اس کائنات کے لئے رحمۃ للعالمینﷺ کو
کرناپڑا۔
آج میں اس پلیٹ فارم کے توسط سے اقوام عالم کو اپنی یہ آواز پہنچانا
چاہتاہوں کہ اسلام میں اقدامی اور دفاعی جہاد دونوں ہیں ،دفاعی جہاد پر تو
اعتراض کوئی غائب الدماغ اور احمق ہی کرسکتاہے ، البتہ اقدامی جہاد پر
اعتراض انجانے میں اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی کردیتے ہیں ۔
بات دراصل یہ ہے کہ اسلام میں دفاعی جہاد اور اقدامی جہاد کا تصور اس کے
اسباب وعوامل اور موجبات ومحرکات کی وجہ سے ہے ، اقدامی جہاد کا مطلب ہرگز
یہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ زمینی یا تاریخی حقیقت ہے کہ جہاں کہیں کفر یا
کافر ہیں ،انہیں تہ تیغ کیاجائے ،کیا ہمارے درمیان ذمی نہیں رہتے ،کیا
ہمارے چاروں طرف ہمیشہ غیر مشرف باسلام انسانوں کی مختلف سوسائٹیاں اور
ممالک نہیں ہیں ، کیا ہمیں قرآن کریم نے ’’لااکراہ فی الدین ‘‘ کا ایک عظیم
الشان کلیہ نہیں بتلایا، کیا مستشرقین اور دیگر معلومات تک دسترس اور رسائی
رکھنے والے لوگ اور ادارے ان حقائق سے بخوبی واقف نہیں ہیں ، سب کو پتہ ہے۔
مگر عناد ، حسد ، ہٹ دھرمی ، کبروغرور ، دنیاوی ادنی سے ادنی مفادات نے
انہیں سچ کہنے سے روکے رکھاہے ، اسلام نے جس اقدامی جہاد کا نظریہ دیاتھا ،
وہی نظریہ آج دنیا میں مہذب کہلانے والی قوموں نے ’’گرم تعاقب ‘‘کے عنوان
تلے اپنایاہواہے ، یعنی جہاں کہیں ان کے ملکوں، جمہوری نظریات اور ان کے
مفادات کو نقصان پہنچانے کے تانے بانے بُنے جاتے ہوں ، اس طرح کے نیٹ ور
کزپر قبل از اقدام وقبل از وقت حملہ کیاجائے ،اور ان کے سازشی ،تخریبی ،
اور دہشت گر دانہ نظم کو توڑا اور تہس نہس کیاجائے، اسلام نے بھی یہی
کیاتھااور کررہاہے ۔
اس تمام تر سمع خراشی وبصر خراشی سے اندازہ لگایا جاسکتاہے ،کہ اسلام کاہر
دوطرح جہاد وقتال خواہ دفاعی ہو یا اقدامی وہ حقیقت میں انسانیت کے دشمن
قول وعمل اور فکر ونظر کا تعاقب اور ردعمل ہوتاہے ، اور یہ سب ہی جانتے ہیں
کہ ردعمل اور تعاقب کسی لانگ ٹرم اسٹرٹیجی کا حصہ نہیں ہوتے ہیں، بلکہ ایک
تکتیک اور ضرورت ہوتی ہے ، ’’جومحظورات کو بھی مباح کردیتی ہے‘‘، پھر یہ
بھی سب کو معلوم ہے کہ ’’ الضرورات تتقدر بقدر الضرورۃ‘‘ کہ ضرورتیں ہمیشہ
ہمیشہ کے لئے بقدر ضرورت ہی ہوتی ہیں ۔
اب جب یہ ثابت ہوچکا کہ اسلام چونکہ بنیادی طور پر ضرب وحرب کا طلب کنندہ
مذہب نہیں ہے، اسلئے جنگوں میں اسلام نے موجودہ بین لاقوامی انسانی قوانین
کی تدوین وترتیب سے سینکڑوں سال قبل کچھ اخلاقیات اور ضوابط کا تعین
کردیاہے ،تاکہ بے محاباانسانیت کا نقصان نہ ہو ، نیز یہ کہ بلاضرورت شدیدہ
سفک دماء اور قتل وگردن زدنی سے بچاسکے ۔۔۔۔۔چنانچہ اسلام نے زخمی ، معذور
،مزدور ،مریض ، ہتھیار ڈالنے والے ،قیدی، عابد ،مذہبی پیشوا ،بوڑھے ، بچے ،
خواتین ، معالجین واطباء ،کھانے پکانے والے، خدام ،بھاگنے والے ،امان طلب
کرنے والے ،عام شہری ، باغات ،درخت ،مفاد عامہ کے وسائل کو تلف وہلاک کرنے
پر پابندی لگائی ہے اوراپنے پیروکاروں کو سختی سے اس پر کاربندرہنے کی
تلقین کی ہے ،گویا اسلامی نقطۂ نظر سے جنگ میں صرف اورصرف’’ مقاتل من حیث
انہ مقاتل‘‘ ہی ہدف ہے اور بس ۔۔۔۔ بلکہ مذکورہ بالا متأثر ہ افراد
وممتلکات کو بروقت تحفظ فراہم کرنے کے لئے اسلام ہی نے جنگ میں ’’وقفے ‘‘
کا تصوربھی دیاہے ۔مزیدیہ کہ اسلام نے مثلہ کرنے ، نعشوں کی توہین کرنے اور
انہیں بے گور وکفن چھوڑنے سے بھی منع کیاہے۔ نیزاسلام نے جنگی چالوں ،حکمت
عملی اور تکنیک کی تو اجازت دی ہے، مگر جنگ میں دھوکہ دہی اور غدر کو سختی
سے ناجائز وممنوع قرار دیاہے ، صرف یہ نہیں مذکورہ اخلاقیات کی اگر کہیں
تنفیذ میں کوتاہی کی گئی ہے ،تو اسلامی تاریخ اوراسلامی فقہ کے مراجع
وامہات الکتب کے مطالعے سے معلوم کیاجاسکتاہے ،کہ ان کوتاہیوں کے مرتکب
افراد ومجموعات کے لئے بروقت سزاؤں کی تعیین بھی کی گئی ہیں اور نافذبھی کی
گئی ہیں ۔
اس تناظر میں اگر دیکھا جائے ، توحقیقی معنوں میں زخمی اور بیمار مقاتل
چونکہ خود بخود مقاتل کی صفت سے محروم ہوجاتاہے ،اب چونکہ اس میں قتال کی
سکت باقی نہیں رہتی ،اس لئے اسلام کی نظر ِعدل ،انصاف اورترحم میں وہ ان
تمام حقوق کا مستحق ہوجاتاہے ،جن کا غیر مقاتلین شرکائے میدانِ قتال
استحقاق رکھتے ہیں ،لہذا یہ دونوں قسم کے سابق مقاتلین اور حالاًغیر
مقاتلین اُن تمام رعایتوں اور آسائشوں کے مالک بن جاتے ہیں ،جن کے متعلقہ
علاقے سے وابستہ عام غیرمقاتلین شہری مستحق قرار پاتے ہیں،بشرطیکہ یہ زخمی
اوربیمارگرم جنگ سے لا تعلق ہوجائیں۔اسی دعوی پر اب ہم تاکید المؤکد کے طور
پرچند اقتباسات کچھ تغییر ات واضافات کے ساتھ یہاں نقل کرنا چاہینگے :
’’القانون الانسانی الدولی‘‘ کے شہرۂ آفاق ماہر ڈاکٹر عامر الزمالی
رقمطرازہے:
انسانیت :
قانون انسانیت پر بحث اس کی اصل یعنی ’انسانیت‘ کا جائزہ لئے بغیر نہیں کی
جاسکتی ۔ جنگ انسانی افعال کا نتیجہ ہوتی ہے او ران کے لئے ممکن نہیں کہ وہ
انسانیت کو نظر انداز کردے ۔ بین الاقوامی قوانین ،چاہے رواجی ہویا تحریری
شکل میں مدون شدہ اپنے احکام کے ذریعے اسی حقیقت کو ظاہرکرتے ہیں ۔ یہ
قوانین لازم ٹھہراتے ہیں کہ جنگ کے متاثرین کے ساتھ انسانیت کا معاملہ
کیاجائے ،یعنی ان کی آبرو ،جان اور مال کا احترام مدنظررکھا جائے ۔ اسلام
نے بھی انسان کی تکریم کا بنیادی قاعدہ دیاہے ۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿ولقد کرمنا بنی آدم وحملنھم فی البر والبحر ورزقنھم من الطیبت وفضلنھم علی
کثیر ممن خلقنا تفضیلا ﴾۔ (الاسراء ، آیت ۷۰)۔
’کَرَّمَ ‘ کا فعل ’تکریم انسانی ‘ کی نشاندہی کرتاہے ۔شدید ترین حالات ،
یعنی جنگ میں بھی نوع انسانی کی تکریم لازم ٹھہرانے والے تمام احکام کا
بنیادی ماخذ قرآن مجید کی یہ آیت ہے ۔انسانیت کے تقاضوں کی پابندی کا نتیجہ
یہ ہے کہ جنگ میں حصہ نہ لینے والے افراد ، یا جنگ میں حصہ لینے کے بعد کسی
بھی وجہ سے علیحدہ ہوجانے والے افراد کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں ہے
۔اسلامی قانون کا یہ بنیادی قاعدہ قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت سے ماخوذہے
:
﴿وقاتلوا فی سبیل اﷲ الذین یقاتلونکم ولاتعتدوا ، ان اﷲ لایحب المعتدین
﴾۔(البقرۃ ،آیت ۱۹۰)۔
اس آیت نے قتال کا عمل مقاتلین تک محدود کردیاہے اور اعتداء سے نفی اس بات
کا تقاضا کرتی ہے کہ جنگ میں بھی کچھ خاص حدود کی پابندی لازم ہو ۔
ہم جانتے ہیں کہ بین الاقوامی قانونِ انسانیت کے معاہدات نے ان مخصوص
انسانی گروہوں کے لئے مخصوص احکام وضع کیے ہیں ،مگر ان تمام معاہدات کا
بنیادی ہدف ایک ہے ،اور وہ ہے ’’انسانیت ‘‘پر مبنی سلوک ۔
تاریخ اسلام پر نظرڈالیں تو نظرآتاہے کہ اسلامی افواج میں طبی امداد دینے
والے اور علماء اور قضاۃ شامل رہے ہیں اور پوری کوشش کی جاتی تھی کہ وہ
اپنے اپنے فرائض منصبی سہولت کے ساتھ ادا کریں ، تاریخ اسلام کے اولین
معرکوں میں خواتین نے مریضوں اور زخمیوں کی تیمارداری کا کام بھی کیاہے
،رسول کریم ﷺ نے مثلہ کرنے ، زخمیوں پر حملہ کرنے اور قیدیوں اور امان طلب
کرنے والوں پر حملہ کرنے کی ممانعت کے احکام جاری کئے ۔ ہم مثال کے طور پر
قیدیوں کو کھانا کھلانے کے متعلق قرآن کریم کی ایک آیت کا ذکر کرتے ہیں :
﴿ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا ویتیما واسیرا ﴾۔(الانسان ۸)۔
اس آیت میں قیدی کی صراحت موجود ہے ۔یہ آیت بہت بلیغ اور وسیع مفاہیم پر
مشتمل ہے ،کیونکہ اس میں قیدی کی زندگی کے تمام مادی اور معنوی پہلو آجاتے
ہیں ۔
ڈاکٹر زمالی نے آگے چل کر ایک اور کلیہ بھی بیان کیا،لیجئے وہ لکھتے ہیں:
مقاتلین اور غیر مقاتلین کے درمیان تمیز کا قاعدہ :
انسانی قوانین کے جدید ترین معاہدات میں سے ہم بین الاقوامی انسانیت کے
جنیوا معاہدات ۱۹۴۹ء کے پہلے اضافی ملحق کا ذکر کریں گے جو ۱۹۷۷ ء میں
وضع کیاگیا۔ اس ملحق کی دفعہ ۴۸ میں ا س قاعدے کا ذکر ان الفاظ میں ہے : ’’
جنگ کے فریق شہریوں او ر مقاتلین اور شہری آبادی اور جنگی اہداف مین تمیز
کریں گے اور صرف جنگی اہداف کے خلاف اقدام کریں گے ۔‘‘
بین الاقوامی عرف پر مبنی یہ قاعدہ جدیدجنگی قوانین اور اعراف کی بنیاد ہے
،اور اس کا ان واضح اور دوٹوک الفاظ میں معاہدے میں اندراج اس بات کو مزید
مؤکد کرتاہے کہ ہر طرح کے جنگی حالات میں اس قاعدے کی پابندی ضروری ہے ،ہم
یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ’’غیر مقاتلین ‘‘ کی اصطلاح ’’شہری ‘‘سے زیادہ وسیع
ہے کیونکہ غیر مقاتلین مسلح افواج کے اندر بھی پا ئے جاتے ہیں ، مثلا طبی
خدمات مہیا کرنے والے
او رمذہبی رسوم ادا کرنے والے افراد،زخمی اور بیمارمقاتلین بھی اسی زمرے
میں آتے ہیں ۔
مقاتلین اور غیر مقاتلین او رجنگی اہداف اور شہری آبادی کے درمیان تمیز کے
قاعدے کے تحت یہ ناجائزہے کہ عام شہریوں ،لڑنے کی قدرت کھو دینے والے افراد
جیسے زخمیوں ، مریضوں ، ڈوبتے ہوؤں ، قیدیوں اور جنگی ہوائی جہاز کھودینے
کے بعد پیراشوٹ میں اترتے پائلٹ ، کونشانہ بنایاجائے، طبی خدمات یا مذہبی
رسوم اداکرنے والے افراد ، خواہ وہ فوجی ہوں یا شہری ، نیز شہری دفاع کے
عملے اور امداد فراہم کرنے والی بین الاقوامی فلاحی تنظیموں ، یا اس کام کے
لئے اجازت رکھنے والی مقامی تنظیموں کو بھی یہی تحفظ حاصل ہے ۔اسی طرح بین
الاقوامی قانون انسانیت تمام فریقوں پر یہ لازم کرتاہے کہ وہ کسی ایسی چیز
کو نقصان نہ پہنچائیں، جسے جنگی ہدف قرار نہ دیاجاسکتاہو ، ان میں
پُل،شاہراہیں،ڈیم ، بند ، بجلی پیداکرنے والا جوہری پلانٹ ، انسانی زندگی
کی بقاکے لئے ضروری سامان، محفوظ ، اور غیر عسکری علاقے ،وہ علاقے جن کو
فوجی حفاظت میسر نہ ہو اور ثقافتی مراکز ، یہ سب شامل ہیں ۔بین الاقوامی
قانون انسانیت کی طرف سے دی گئی یہ حفاظت ان افراد او رسامان کو اس وقت تک
شامل رہتی ہے جب تک قانوناً محفوظ کوئی شخص کسی جنگی کاروائی میں حصہ نہیں
لیتا،یا پھر قانوناً محفوظ کسی مقام کو جنگی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا
جاتا۔
بین الاقوامی قانونِ انسانیت ان قانوناً محفوظ افراد کے خلاف انتقامی
کاروائی کرنے سے بھی روکتاہے اور اسی قسم کے افعال سے کچھ خاص زمروں میں
آنے والی املاک اور اشیاء کو بھی نقصان پہنچانے کی ممانعت کرتاہے ۔ اسی طرح
اگر کسی فرد یا جگہ کے بارے میں شبہ ہو ،
او رقرائن سے ان کا غیر عسکری ہونا معلوم ہوتاہو، تو قانوناًاس کو غیر
عسکری ہی سمجھاجائے گا ، بین الاقوامی قانونِ انسانیت جنگ کے تمام فریقوں
پر لازم کرتاہے کہ وہ اندھا دھند حملوں سے گریز کریں اور اپنے اہداف کے
بارے میں یہ معلوم کرلیاکریں کہ وہ کس نوعیت کے ہیں ؟
اوپر مذکورہ بنیادی یہی فرق اسلامی شریعت کے اساسی قواعد میں سے ہے ۔
اسلامی شریعت کلی جنگ (totel wer )کو روا نہیں رکھتی ، اور جنگی کاروائی کو
وقت ، جگہ اور ہدف کے لحاظ سے محدود رکھتی ہے ، عام احکام بیان کرنے والی
قرآنی آیات کے علاوہ خاص (جنگی ) احوال سے متعلق قرآنی آیات ،احادیث نبوی ﷺ
،خلفاء راشدین رضی اﷲ عنہم اور اسلامی لشکروں کے کمانڈروں کے فرامین کو
بنیاد بناکر فقہاء کرام نے مقاتلین اور غیر مقاتلین کی تحدید کے لئے قواعد
مرتب کئے ، احادیث نبوی ﷺ کے ضمن میں ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے کچھ
معین لوگوں پر حملے سے منع فرمایا ، جیسے عورتیں ، بچے ،مزدور اور خانقاہوں
میں رہنے والے ۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے ۱۰ھ ۶۳۲ ء میں مسلمان افواج سے
اپنے پہلے خطاب میں جنگ سے متعلق احکام کی یہ بنیادیں فراہم کیں :
’’اے لوگوں ! ٹھہرو ! میں تمہیں دس چیزوں کی وصیت کرتاہوں ۔ ان کی پابندی
کرنا :خیانت مت کرو ۔ مال غنیمت میں سے چوری نہ کرو۔ عہد شکنی مت کرو ۔
مثلہ مت کرو۔ بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کو مت مارو۔ کھجور کے درخت نہ کاٹو۔
نہ ہی انھیں جلاؤ۔ پھل دینے والے درخت مت کاٹو۔ بکری ، گائے اور اونٹ ذبح
نہ کرو، الا یہ کہ کھانے کی ضرورت ہو ،تم راستے میں ایسے لوگوں کو دیکھو گے
جنھوں نے دنیا چھوڑ کر خانقاہوں میں پناہ لے رکھی ہے ـ؛ ان لوگوں کو ان کے
حال پر چھوڑدو ۔ تم ایسی قوم سے ملوگے جو تمھارے پاس اپنے برتنوں میں مختلف
انواع کے کھانے لائیں گے ؛ پس جب اس میں سے کھاؤ،تو اس پر اﷲ کا نام ضرور
لینا۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ اگر عسکری ہدف حاصل ہوجائے اور دشمن مغلوب ہوجائے تو پھر
جنگی کا روائی کو مزید جاری نہیں رکھا جاسکتا۔
(بین الاقوامی قانون انسانیت اور اسلام ۔ص:۲۱۷سے ۲۲۱تک)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس قانون کے ایک اور ماہر احسان ہندی لکھتے ہیں:
اسلام باقی مذاہب سے اس طور پر مختلف ہے کہ یہ صرف مذہب ہی نہیں بلکہ قانون
بھی ہے اور یہ قانون کامل ہے جو زندگی کے تمام پہلو ؤں کا ، جن میں زمانۂ
امن وجنگ میں دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات بھی شامل ہیں ،کا احاطہ کرتاہے۔
ہم جانتے ہیں کہ اسلامی قانون کے تین بنیادی مصادر ہیں : قرآن ،کریم ، سنت
مطہرہ اور اجتہاد ۔ یہی تین مصادر اسلام میں قانون ِجنگ کے لئے بھی ہیں،
جنھوں نے اس قانون کی تشکیل وار تقا میں ،جسے اب بین الاقوامی قانون ِ
انسانیت کہا جاتاہے ،اہم کردار ادا کیا ہے ۔مثلاً دوسری اقوام کے افراد کے
ساتھ زمانۂ امن وجنگ میں رویے اور طرز عمل کے متعلق قرآن کریم میں بہت سے
قواعد مذکور ہیں جنھیں گویا ’’دستور ‘‘ کی حیثیت حاصل ہے ۔ پھر قرآن کریم
میں مذکورہ اس دستور کی تفسیر اور تکمیل حدیث شریف نے کی اور یہ گویا
’’قانونی قواعد‘‘ ہوئے ۔ اس کے بعد فقہی اجتہاد، جس میں خلفائے راشدین کی
ہدایات بھی شامل ہیں ، نے اس قانونی نظام کی تشکیل کی جسے ’’عرب مسلمانوں
کے جنگی ادب ‘‘ کا نام دیاجاسکتاہے ۔
اسلامی بین الاقوامی قانونِ انسانیت کوہم چارحصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں :
۱ - وہ حالات جن میں اسلام جنگ کی اجازت دیتاہے ۔
۲- اسلام میں اعلان جنگ کا طریقہ ۔
۳-جنگ میں مسلمان مجاہدین کا کردار ۔
۴- اسلام میں قیدیوں کے ساتھ سلوک او رغنائم کے احکام ۔
قدرتی طورپر یہ ناممکن ہے کہ ہم اس طرح کے مقالے میں ان تمام چارحصوں کا
پورا حق ادا کرسکیں ۔اس لیے ہم یہاں صرف تیسرے حصے ، یعنی مسلمان مجاہدین
کا کردار ، پر ہی اکتفا کریں گے اور وہ بھی بہت اختصار کے ساتھ ۔تفصیل کے
طالب اس موضوع پر ہماری دوکتابوں الاسلام والقانون الدولی اور احکام الحرب
والسلام فی دولۃ الاسلام کا مطالعہ کرسکتے ہیں ۔
جنگ میں مسلمان مجاہدین کاکر دار:
مسلمان مجاہدین دوسری اقوام کے افراد کے خلاف جنگ مین جن قواعد کی پابندی
کرتے تھے ،ان کی حیثیت محض عام اخلاقی اصولوں یا ان کے کمانڈر اور حکمرانوں
کی ہدایات کی سی نہیں تھی ،بلکہ وہ ایسی شرعی ذمہ داریاں تھیں جن میں اکثر
کا قرآن وسنت میں صراحتاًذکر ہے او رجن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو صرف ان
کے افسران کی جانب سے ہی سزا نہیں ملتی تھی ،بلکہ وہ اخروی زندگی میں بھی
سزا کے لئے پیش ہوں گے ،کیونکہ انھوں نے ایسی قطعی شرعی نصوص کی مخالفت کی
،جو قرآن یا سنت یا ان دونوں میں مذکور تھیں ۔
اس ضمن میں مسلمان مجاہدین کے کردار کی تشکیل کرنے والے چنداہم شرعی قواعد
یہ ہیں :
۱- جنگ کو صرف دشمن مردوں اور لڑنے والوں تک محدود رکھنا۔
رسول کریم ﷺ سے روایت ہے کہ جب آپ نے حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالی عنہم
کو موتہ کی طرف بھیجا تو انھیں ہدایت کی :
’’بچے ،عورت ، بزرگ، بوڑھے ، اور خانقاہ میں گوشہ نشین شخص کو قتل نہ
کرو۔‘‘
اسی طرح رسول اﷲ ﷺ نے جنگ میں زخمیوں سے کام لینے کی ممانعت کی :
’’ زخمی کے ذریعے جنگ نہ کرو، کیونکہ اس کا بعض حصہ اس کے پاس نہیں ہوتا۔‘‘
اسی طرح آپﷺ نے زراعت پیشہ افراد اور بچوں کو اذیت دینے سے روکتے ہوئے
فرمایا:
’’بچوں اور محنت کشوں کو قتل نہ کرو ۔ ‘‘ جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے تو
رسول کریم ﷺنے ان پر حملے سے گریز کا حکم دیا ،الا یہ کہ وہ ہتھیار اٹھاکر
مسلمانوں کے مقابلے میں آئیں ۔ چنانچہ جب رسول اﷲ ﷺ نے مشرکین کی ایک مقتول
عورت کی لاش دیکھی ،تو جس نے اسے قتل کیا یا اس کی اجازت دی اس کو ملامت
کرتے ہوئے فرمایا :
’’یہ تو لڑنے کے لئے نہیں تھی ۔‘‘
(بین الاقوامی قانون انسانیت اور اسلام۔ص:۲۱۰سے ۲۱۲تک)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید ہاشم لکھتے ہیں:
مسلح تصادم کے متاثرین کے حقوق:
مسلح تصادم کے متاثرین کے حقوق دوقسم کے قانونی قواعد کے ذریعے متعین کیے
گئے ہیں :
پہلی قسم کے قانونی قواعد ، جو ’’قواعد ہیگ‘‘ کے نام سے معروف ہیں ،مقاتلین
پر بعض ہتھیاروں کے استعمال پر پابندیاں لگاتے ہیں اور ان کی واضح اساس
۱۸۹۹ ء اور ۱۹۰۷ء میں منعقد ہونے والی ہیگ کی دو امن کانفرنسوں اور ان کے
نتیجے میں وجود میں آنے والے معاہدات میں پائی جاتی ہے۔
دوسری قسم کے قانونی قواعد ،جنھیں ’’قانون جنیوا‘‘ کہاجاتاہے ،مسلح تصادم
کے متاثرین ، یعنی قیدیوں ،زخمیوں اور مقتولین ،کے حقوق مقرر کرنے کے علاوہ
مقاتلین اور غیر مقاتلین کے درمیان تمیز کو لازم قرار دیتے ہوئے لازم کرتے
ہیں کہ طاقت کا استعمال صرف مقاتلین تک ہی محدودہو۔ یہ قواعد ۱۹۲۹ء او ر
۱۹۴۹ء کے جنیوا معاہدات میں پائے جاتے ہیں ۔
اس کے بعد ۱۹۴۹ء کے چار جنیوا معاہدات کے اضافی ملحقات آئے ،جنھوں نے ان
دونوں قسم کے قواعد کو یکجا کیا اور متاثرین جنگ کی حفاظت کے قاعدے میں
توسیع کے علاوہ طاقت کے استعمال کو مزید قیود کا پابند کردیا۔
اگر ہم ان قواعد کی بات کررہے ہیں، جن کی تدوین بین الاقوامی برادری نے
انیسویں صدی کے اواخر اوربیسویں صدی میں کی ، تو دوسری طرف اسلامی شریعت نے
نزول قرآن کی ابتدأسے ہی، اور پھر رسول کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے عملی
نمونوں اور فقہائے کرام کے اجتہادار او ر اسلامی قانون کے قواعد عامہ کی
تدوین کی شکل میں ، مسلح تصادم کے متاثر ین کی حفاظت کے لئے تفصیلی اور
محکم ضابطہ لائی ہے جسے حجم اور نوعیت دونوں اعتبار سے معاصر بین الاقوامی
قانون کے قواعد پر سبقت حاصل ہے ۔
یہان ہم مقالے کی حدودکی پابندی کرتے ہوئے اس حفاظت کی وضاحت کریں گے ۔
الف : مقاتلین اور غیر مقاتلین کے درمیان فرق:
اس فرق کا مقصد یہ ہے کہ فوجی طاقت کے استعمال کو فوجی اشخاص اور املاک تک
محدود کیاجائے ۔۱۹۴۹ء کے چارجنیوا معاہدات اور ان کے اضافی ملحقات نے اس
مسئلے کے لئے تفصیلی ضوابط دیے ہیں ۔ اس سے پہلے ہم رسول کریم ﷺ کی ان
ہدایات کا ذکر کرچکے ہیں ،جو آپ لشکر کے کمانڈروں کو دیتے تھے اور جو اس
مسئلے کو نہایت دقیق انداز میں حل کرتے ہیں ۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق
نے ان ہدایات کی روح کو سمجھتے ہوئے اپنے لشکر کے ایک کمانڈر کو مزید یہ
ہدایات دیں :
’’خیانت مت کرو ۔ مال غنیمت میں سے چوری نہ کرو ۔عہد شکنی مت کرو ۔مثلہ مت
کرو ۔ بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کومت مارو ۔کھجور کے درخت نہ کاٹو۔ نہ ہی
انھیں جلاؤ ۔پھل دینے والے درخت مت کاٹو ۔ بکری ۔گائے اور اونٹ ذبح نہ کرو
۔الا یہ کہ کھانے کی ضرورت ہو ۔ تم راستے میں ایسے لوگوں کو دیکھو گے
،جنھوں نے دنیا چھوڑکر خانقاہوں میں پناہ لے رکھی ہے ؛ان لوگوں کو ان کے
حال پر چھوڑ دو ‘‘۔
رسول کریم ﷺ نے حضر ت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالی عنہ کو محنت مزدوری کرنے
والوں پر حملہ نہ کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا :
’’ مزدوروں کاقتل درست نہیں ہے ۔‘‘
اسی طرح انھیں لوٹ مار سے منع کرتے ہوئے فرمایا :
’’وہ ہم میں سے نہیں جس نے لوٹ مار کی ، مال چھینا،یا اس کی طرف دوسروں کو
ترغیب دی۔‘‘
طاقت کے استعمال پر قیود:
ہم بیان کرچکے ہیں کہ جنگ کی اجازت اسلام میں محض ایک ناگزیر ضرورت کے
طورپر ہے اور یہ کہ یہ جنگ صرف عُدوان کے خاتمے کے لئے ہے ۔ پس ضروری ہے کہ
طاقت کے استعمال کاجواز اس قید کے ساتھ مشروط ہو کہ وہ صرف اپنے ہدف تک ہی
محدود رہے اوراس سے تجاوز نہ کرے ۔
زخمیوں اور مریضوں کے حقوق :
اسلام نے زخمیوں اور مریضوں کے ساتھ اچھا سلوک لازم کیاہے ۔چنانچہ زخمیوں
اور معذوروں پر حملہ جائز نہیں ہے ، بلکہ ان کے ساتھ رحم دلی اور شفقت کا
سلوک اور ان کا علاج کرنا واجب ہے ۔صلیبی جنگوں کی تاریخ اتنی پرانی نہیں
ہے اور ہم سب کو یادہے کہ صلاح الدین ایوبی کا ان جنگوں میں فریق مخالف کے
زخمیوں کے ساتھ کیا سلوک رہا ۔ یہاں ہم یہ یاد دلائیں گے کہ اسلام نے
دشمنوں کی طرف سے واقع ہونے والے جرائم کے ضمن میں معاملہ بالمثل سے منع
کیاہے پس مثلہ کرنا نا جائز ہے ، خواہ پاگل کتے ہی کاہو، جیسا کہ رسول کریم
ﷺ نے ارشاد فرمایاہے ۔اس ضمن میں اسلام کے ضوابط میں سے ایک یہ ہے کہ
ہتھیار ڈال دینے والے پر حملہ ناجائز ہے، کیونکہ اسے اب مقاتل نہیں سمجھا
جاسکتا اور اسلام نے غیر مقاتل پر حملے کی اجازت نہیں دی ، اسی طرح دشمن
افراد میں سے جو میدان چھوڑکر بھاگ جائے اس کا قتل بھی جائز نہیں ،کیونکہ
وہ غیر مقاتلین میں سے ہوجاتاہے ،یہ وہ فرق ہے جس تک معاصربین الاقوامی
قانون ابھی تک نہیں پہنچا۔
بہت افسوس کا مقام ہے کہ بین الاقوامی برادری اسلام کی اعلی تعلیمات سے اور
اس کے سلف صالحین کے کردار سے کتنی دورہیں !
(۔۔۔۔۱۶۸ سے ۱۷۰ تک)۔
اس تمام تر مفصل گفتگو سے مسلح تصادم اور خلفشار میں طبی خدمات وسہولیات
اور غیر مقاتل افراد و اداروں کے حقوق اور ان کے لئے موجودرعایتوں کااندازہ
بڑی آسانی سے لگایاجاسکتا ہے۔
وصلی اﷲ علی النبی محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم۔
نوٹ:یہ مقالہicrcاورicrhکے تحت دو روزہ بین الاقوامی انسانی قانون کے حوالے
سے منعقدہ سیمینار27|28نومبر 2013’’بیسٹ ویسٹرن‘‘ہوٹل ،اسلام آباد میں
پڑھاگیا اس سیشن کی صدارت مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی
کررہے تھے۔
|