سکون انصاف کے مرہون منت ہے

ایک بزرگ سے کسی شخص نے عاجزی اور انتہائی انکساری سے سوال کیا کہ یا حضرت میں زندگی کے اندر تمام معاملات میں ـ’’ سکون چاہتا ہوں ‘‘مجھے کوئی طریقہ بتا دیں برزگ ہستی پراسرار خاموشی کے بعد اچانک بول اٹھے اے عاجز بندے! بظاہر تیری عاجزی اور انکساری قابل تعریف ہے لیکن اس کے باوجود تو نے جو کچھ مانگا ہے ان الفاظ پر غور کر "میں" تکبر کی علامت ہے اور تکبر خدا کو بالکل پسند نہیں، فرعون، نمبرود اور یزید نے تکبر کیا تھا ان کا حشر رہتی دنیا تک علامت عبرت ہے اپنے الفاظ میں سے "میں"کو ختم کر دے لفظ ’’چاہتا ہوں‘‘تیرے نفس کی خواہش ہے اور خواہشات کی تکمیل در اصل نفس پروری ہے نفس پروری کرنا چھوڑ دو باقی جو بچے گا وہ ’’سکون ‘‘ہے بات سمجھنے کی ہے اور یقینا معاشرتی سکون کا تعلق صرف و صرف انصاف سے جڑا ہوا ہے جب معاشروں سے انصاف ختم ہو جاتا ہے وہ معاشرے خود معاشرتی شکل میں قائم رہنے کی بجائے جنگلی جانوروں کے نظام زندگی میں بدل جاتے ہیں جنگل میں ہر طاقتور جانور کمزور کو ہڑپ کر جاتا ہے جنگل میں یہ نظام زندگی صدیوں سے نافذ ہے اس میں کسی قسم کا کوئی رد بدل نہیں آسکتا جبکہ انسان اشرف المخلوقات میں آتا ہے رب تعالی کی70ہزار مخلوقات میں انسان کو اشرف کا درجہ دیا گیا ہے اور اس کو اشرف کا درجہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کو اﷲ تعالی نے اچھائی اور برائی میں فرق کرنے کی صلاحیت دے رکھی ہے معاشرتی بگاڑ کے باعث بننے والی وجوہات کو سمجھنے کی پوری صلاحیت انسان میں موجود ہے اسی طرح معاشرتی خوبصورتی اور دلکشی کا باعث بننے والی تمام وجوہات کا بھی انسان کو پوری طرح علم ہے اچھائی اور برائی کو ماپنے والے پیمانے کو ہم انصاف کہتے ہیں شاہد اسی لیئے انصاف کی نشانی بھی ’’ترازو ‘‘ہے ۔جب تک انسانی معاشروں کے اندر انصاف کا ترواز برابر رہا ہے طاقتور رہا ہے اور غیر جانبدرر رہا ہے انسان امن و سکون میں رہا ہے اور جب سے ترازو کا طرز جانبدار ہوا ہے تب سے معاشرتی بگاڑ میں اضافہ ہوا ہے دور جانے کی کیا ضرورت ہے اپنے ملک کے نظام زندگی کی مثالے والی وجوہات کو سمجھنے کی پوری صلاحیت انسان میں موجود ہے اسی طرح معاشرتی خوبصورتی اور دلکشی کا باعث بننے والی تمام وجوہات کا بھی انسان کو پوری طرح علم ہے اچھائی اور برائی کو ماپنے والے پیمانے کو ہم انصاف کہتے ہیں شاہد اسی لیئے انصاف کی نشانی بھی ’’ترازو ‘‘ہے ۔جب تک انسانی معاشروں کے اندر انصاف کا ترواز برابر رہا ہے طاقتور رہا ہے اور غیر جانبدرر رہا ہے انسان امن و سکون میں رہا ہے اور جب سے ترازو کا طرز جانبدار ہوا ہے تب سے معاشرتی بگاڑ میں اضافہ ہوا ہے دور جانے کی کیا ضرورت ہے اپنے ملک کے نظام زندگی کی مثال ہمارے سامنے ہے مارنے والے کو کوئی علم نہیں کہ سامنے کھڑے بے قصور انسان اور اپنے مسلمان بھائی کو کیوں مار رہا ہے۔ اورمرنے والا کوبھی کوئی علم نہیں کہ کس جرم کی سزا کی پاداش میں اس کو مارا جا رہا ہے۔دیکھئے انصاف کے نفاذ کی بنیاد ی جو اکائی ہے وہ انسانوں کے ہمارے سامنے ہے مارنے والے کو کوئی علم نہیں کہ سامنے کھڑے بے قصور انسان اور اپنے مسلمان بھائی کو کیوں مار رہا ہے۔ اورمرنے والا کوبھی کوئی علم نہیں کہ کس جرم کی سزا کی پاداش میں اس کو مارا جا رہا ہے۔دیکھئے انصاف کے نفاذ کی بنیاد ی جو اکائی ہے وہ انسانوں کے دلوں کے اندر حاکم کے انصاف کا خوف ہے قانون کا خوف ہے اور جس وقت یہ خوف اپنی جگہ پر قائم نہیں رہتا اس وقت اس کی جگہ بندوق کی نالی سے نکلنے والی بے سمت گولیاں لے لیتی ہیں۔ عوام عام طور پر حکمرانوں پر توقع کرتی کہ انصاف حکمران نہیں کرتے لیکن ہم کسی کی طرف اشادلوں کے اندر حاکم کے انصاف کا خوف ہے قانون کا خوف ہے اور جس وقت یہ خوف اپنی جگہ پر قائم نہیں رہتا اس وقت اس کی جگہ بندوق کی نالی سے نکلنے والی بے سمت گولیاں لے لیتی ہیں۔ عوام عام طور پر حکمرانوں پر توقع کرتی کہ انصاف حکمران نہیں کرتے لیکن ہم کسی کی طرف اشارہ کرتے وقت یہ کبھی محسوس نہیں کرتے کہ ہمارے ہاتھ کی ایک انگلی کا اشارہ کسی طرف ضرور ہے ۔لیکن اسی ہاتھ کی باقی چار انگلیاں ہم کو اپنے کردار اور ضمیر پر نظر ڈالنے کا اشارہ کر رہی ہوتی ہیں ہم لوگ دوسرے کی خامی کو خوب اچھی طرح سے تلاش کر لیتے ہیں لیکن اپنی خامی کبھی نظر ہی نہیں آتی۔ہم مسجد اور مندر میں خدا کو تلاش کرتے ہیں دل کی مسجد اور مندر میں موجود خدا کو کبھی تلاش نہیں کیا کتابوں کو پڑھتے ہیں لیکن دل کی کتاب کو پڑھنے کی کبھی کوشش نہیں کی ۔بھائی کا حق، پڑوسی کا حق، ماں باپ کا حق، بہنوں کا حق، رشتہ داروں رہ کرتے وقت یہ کبھی محسوس نہیں کرتے کہ ہمارے ہاتھ کی ایک انگلی کا اشارہ کسی طرف ضرور ہے ۔لیکن اسی ہاتھ کی باقی چار انگلیاں ہم کو اپنے کردار اور ضمیر پر نظر ڈالنے کا اشارہ کر رہی ہوتی ہیں ہم لوگ دوسرے کی خامی کو خوب اچھی طرح سے تلاش کر لیتے ہیں لیکن اپنی خامی کبھی نظر ہی نہیں آتی۔ہم مسجد اور مندر میں خدا کو تلاش کرتے ہیں دل کی مسجد اور مندر میں موجود خدا کو کبھی تلاش نہیں کیا کتابوں کو پڑھتے ہیں لیکن دل کی کتاب کو پڑھنے کی کبھی کوشش نہیں کی ۔بھائی کا حق، پڑوسی کا حق، ماں باپ کا حق، بہنوں کا حق، رشتہ داروں کے حقوق ان کی ادائیگی کا ہم کو علم ہے لیکن اس کے باوجود حقوق کی ادائیگی میں ڈنڈی ضرور مارتے ہیں آٹے میں ملاوٹ ، چینی میں ملاوٹ، سرخ مرچ میں ملاوٹ ، دودھ میں ملاوٹ ، گھی اور کوکنگ آئل میں ملاوٹ، چائے کی پتی میں ملاوٹ ، یعنی جہاں ہمارا بس چلتا ہے وہاں ملاوٹ اور پھر کہتے ہیں کہ ہمارے حکمران ہمارے ساتھ انصاف نہیں کرتے سب سے پہلے ہم کو اپنے گھر سے انصاف کا آغاز کرنا ہو گا۔ اپنے کردار سے انصاف کو ثابت کرنا ہو گا اور پھر ایک گھر سے نکلنے والا انصاف
Mumtaz Ali Khaksar
About the Author: Mumtaz Ali Khaksar Read More Articles by Mumtaz Ali Khaksar: 49 Articles with 36519 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.