دنیا ایک گلوبل ویلیج کا
روپ دھار چکی ہے، خبریں،رپورٹس اور ایک دوسرے کے خیالات پل بھر میں
الیکٹرانک میڈیا کے ذ ریعے دنیا کے ایک کو نے سے دوسرے کو نے تک با آ سانی
تک پہنچ جا تی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے با اثر ممالک اپنے ایجنڈا کی
تکمیل کے لئے الیکٹرانک میڈیا کا سہارا لیتی ہیں اور اور اس کو ہم نوا
بنانے کے لئے زرِ کثیر خرچ کرتی ہیں ۔معاشرے کے ذہنی تربیت،بنانے یا بگاڑنے
میں الیکٹرانک میڈیا کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا لہذا ہم کہہ سکتے
ہیں کہ اگر کسی ملک کا میڈیا اپنے عوام کے ذ ہنی تربیت میں مثبت کردار ادا
کرے تو یقینا نہ صرف یہ کہ پو رے معاشرے پر اس کا مثبت اثر پڑے گا بلکہ
بحثیت مجموعی پورا ملک ترقی و خو شحالی کی طرف محوِ سفر رہے گا لیکن بد
قسمتی سے اگر میڈیا ہی گمراہ ہو جائے تو یوں سمجھ لیجئے کہ پوری قوم گمراہی
کا شکار ہو کر غلط راستے پر چل پڑے گی۔۔
آ ئیے ! آ ج اس بات کا جا ئزہ لیتے ہیں کہ کیا ہماری الیکٹرانک میڈیا کا
کردار مثبت اور درست سمت میں رواں دواں ہے ؟ اور وہ قومی کردار کی تشکیل
میں مثبت کردار ادا کر رہی ہے ؟ اس کے لئے ہمیں اپنے ٹی وی چینلز اور دنیا
کے مشہور و معروف ٹی وی چینلز کی نشریات کا بغور مشا ہدہ کر نا ہو گا۔اگر
آپ بی بی سی، فو کس نیوز، سی این این،اے بی سی نیوز اور جزیرہ وغیرہ کی
خبریں اور ٹاک شوز دیکھیں تو وہا ں آپ کو کو ئی وزیر، مشیر یا سیا ستدان
نہیں دکھائی دے گا۔وہ اپنے ٹاک شو میں محقق، اعلی تعلیم یافتہ، سکالرز اور
دانشوروں کو بلا کر پیش کردہ مسائل پر انکی بنیادی وجوہات اور حل پر گفتگو
کرتے ہیں اور مو ضو ع عموما وہ ہوتا ہے جس کا تعلق عوام کو در پیش مشکلات
سے ہو ۔اس کے مقابلہ میں اگر آپ اپنے ٹی وی چینلز کی نشریات خصو صا ان کے
ٹاک شوز دیکھیں تو ہر چینل پر آپ کو سیاستدان ہی نظر آئینگے بلکہ صبح اور
دوپہر پریس کانفر نس اور شام کو ٹاک شو پر چند گنے چنے چالیس پچاس
سیاستدانوں کا قبضہ نظر آ تا ہے (ماسوائے چند ایک کے) وہ ایک دوسرے کو نیچا
دکھانے اور اپنے پارٹی کے لیڈر کی تعریف میں رطب اللساں نظر آ تے ہیں ان کے
پاس نہ تو اپنا کو ئی ویژن ہوتا ہے نہ کوئی من مو ہا دلیل،البتہ غیر اخلاقی
زبان کے استعمال میں وہ ما ہر ضرور ہو تے ہیں۔
ان ٹی وی چینلز میں جو شخصیات بطورِ میزبان کام کرتے ہیں اور عرفِ عام میں
انہیں اینکرز پر سن کہا جاتا ہے ان کا پس منظر بھی عجیب اوران کی علمیت بھی
عجیب ،اکثریت صحافت کے اسرار و رموز سے بے خبر، سیاست، معیشت، دفاع اور
خارجہ امور سے نا بلد ، البتہ گفتار کے غازی ضرور ہو تے ہیں۔ٹی وی چینلز کے
مالکان انہیں لاکھوں روپے تنخواہ اور مراعات سے نوازتے ہیں۔قسمت کی دیوی ان
پر اکثر مہربان ہو تی ہے جس کی وجہ سے بہت تھوڑے عرصہ میں ہزار پتی سے کروڑ
پتی اوربڑے بڑے پلازوں کے مالک بن جاتے ہیں۔ٹاک شو کے لئے وہ جو مو ضوع
چنتے ہیں اس کا تعلق عمو ما عوام کے مسائل و مشکلات سے نہیں ہو تا بلکہ ان
کے مو ضوع کا تعلق حکمرانوں کے مسائل اور دلچسپی سے متعلق ہو تا ہے ۔مثلا
وہ اپنے ٹاک شو میں مہنگائی، بے روزگاری،لوڈ شیڈنگ ،صحت،تعلیم ،کرپشن،تھانہ،
پٹواری ،زراعت کے مسائل یا تعلیم یافتہ نو جوانوں کو درپیش مسائل کو مو ضو
عِ گفتگو نہیں بناتے بلکہ وہ ایسے مو ضوعات چنتے ہیں جس میں سر مایہ دار
اور حکمران طبقے کی دلچسپی ہو تی ہے۔وہ حکمران طبقے کے بڑے بڑے مالیاتی
اسکینڈل عوام کے سامنے لاتے ہیں نہ ان کے سیاہ کرتوتوں کو اپنے ٹاک شو کا
مو ضوع بناتے ہیں ۔بعض اینکرز حضرات جب ملک میں دہشت گردی، بد امنی،ڈرون
حملوں یا نیٹو سپلائی پر گفتگو کرتے ہیں تو یہ محسوس ہو تا ہے جیسے وہ
امریکہ یا انڈیا کا مقدمہ لڑ رہے ہیں عوام کو الیکٹرانک میڈیا سے یہ شکوہ
ہے کہ وہ ان کے مسائل کو محورِ گفتگو نہیں بناتے، ملک کے غریب عوام یہ
چاہتی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا عوام کے مسائل مثلا مہنگائی، بے روز گاری ، لو
ڈ شیڈنگ، زراعت سے متعلق کسانوں کے مسئلے اور بد امنی جیسے مو ضوعات کو
اپنے ٹاک شوز کا حصہ بنائے اور حکمرانوں کی توجہ اس طرف مبذول کرے مگر ان
مسائل پر گفتگو کرنے کے لئے صاحبِ بصیرت اور صاحبِ علم لو گوں کو بلائے جو
نہ صرف ان مسائل کی بنیادی اسباب کی نشاندہی کرے بلکہ قابلِ عمل حل بھی پیش
کرے۔ |