اسلامی تقویم کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن
کریم میں ارشادفرمایا:
ان عد ة الشھور عند اللہ اثنا عشر شھراً فی کتٰب اللہ یوم خلق السمٰوٰت و
الارض منھا اربعة حرم(التوبة:۶۳)
” حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ تعالی نے آسمان و زمین کو
پیدا کیا ہے، اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے اور ان میں سے چار حرام ہیں“ ان
بارہ مہینوں کی ترتیب محرم سے شروع ہو کر ذی الحجہ پر ختم ہوتی ہے اور چار
مہینے محرم، رجب، ذیقعدہ اور ذی الحجہ ہیں۔
محرم کی فضیلت : عرب دورِ جاہلیت میں ان چار مہینوں کی بڑی تعظیم کرتے تھے
اور ان میں لڑائی جھگڑے کو حرام سمجھتے تھے اسی لیے ان کا نام حرمت والے
مہینے پڑ گیا۔ اسلام نے ان کی حرمت و عزت میں مزید اضافہ کیا ۔ان مہینوں
میں نیک اعمال اور اللہ تعالی کی اطاعت پر ثواب اور اس کی نافرمانی پر گناہ
،عام دنوں کے مقابلے بڑھ جاتے ہیں۔لہٰذا ان مہینوں کی حرمت توڑنا جائزنہیں
(تفسیرخازن ۳/۳۷)
محرم کی اہمیت:اس مہینہ کو مختلف اسباب کی وجہ سے اہم مقام حاصل ہے۔ اسی سے
اسلامی کلینڈر کا آغاز ہوتا ہے ،جو ہم مسلمانوں کی اکثریت کو یاد نہیں رہتا
ہاں یاد رہتا ہے تو ۱۳/ دسمبر جس میں ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے ،
آتش بازیاں ہوتی ہیں اور ٹھمکے لگائے جاتے ہیں، جو دراصل غیروں کی ایجاد
کردہ رسومات ہیں۔
دوسری اہمیت اس وجہ سے کہ اسی مہینہ کی دسویں تاریخ کو اللہ تعالی نے بنی
اسرائیل کو فرعون سے نجات دی تھی اور یہ بھی کہ اسی دن حضرت آدم ؑ کی تخلیق
ہوئی، اسی دن جنت وجود میں آئی، اسی دن سفینہ¿ نوح جودی پہاڑ پر رکی ۔ ان
کے علاوہ اس مہینہ کی نہ تو کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی کوئی مقام، جیسا کہ آج
کے مسلمان سمجھتے ہیں۔
محرم اور عاشوراءکے روزے: حضرت ابو ہریرةؓ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے
فرمایا :
” رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہِ محرم کے روزے ہیں جو اللہ تعالی کا
مہینہ ہے اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز
ہے“(مسلم:۳۶۱۱)
حضرت حسین ؓ کی شہادت کا واقعہ اسی مہینہ میں پیش آیا تو لوگ سمجھتے ہیں کہ
اسی کی یاد میں عاشوراءکے دن روزہ رکھا جاتا ہے جب کہ یہ واقعہ ۱۶ھ میں پیش
آیا تھا اور شریعت کی تکمیل نبیِ کریم ﷺ کے ہی دور میں ہو چکی تھی۔اس لیے
اس روزے کا تعلق حضرت حسینؓ کی شہادت سے نہیں ہے۔
حضرت ابوقتادہؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ سے عاشوراءکے روزے کی فضیلت کے متعلق
دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
”یہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے“(مسلم:۶۷۹۱)
اس کا پس منظر یہ ہے کہ اس دن اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات
دی تو اس احسان کے شکرانے کے طور پر روزہ رکھنا مستحب قرار دیا گیا ۔حدیث
میں آتا ہے کہ :
نبیِ کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو انہوں نے قومِ یہود کو اس دن روزہ
رکھتے ہوئے پایا ۔آپ ﷺ نے دریافت کیا تو جواب ملا کہ اس دن موسیٰؑ کو فرعون
سے نجات ملی تھی ۔آپ ﷺ نے فرمایاکہ ہم تمہاری نسبت موسیٰؑ سے زیادہ قریب
اور حقدار ہیں ۔پھر آپﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی اس کا
حکم دیا(مسلم:۰۳۱۱) ۔ایک اور روایت میں فرمایا :
”اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو اس کے ساتھ ۹/ محرم کا بھی روزہ رکھوں گا
تاکہ یہود کی مخالفت بھی ہو جائے“
اس لیے اب ۹/۰۱ یا ۰۱/۱۱ کا روزہ رکھا جائے گا، تاکہ یہود کی مخالفت ہو۔
محرم میں شرک اور بدعات و خرافات:امت میں زوال آنے کے بعد رفتہ رفتہ اس
مہینہ میں بھی مختلف بدعات و خرافات انجام دی جانے لگیں۔یہ صرف اس وجہ سے
کہ اس مہینہ میں حضرت حسین ؓ کی شہادت ہوئی۔ ان کی یاد میں یا حسین کے فلک
شگاف نعرے، سیاہ لباس ،شادی سے اجتناب ،مساجد و مقابر کی زیارت ،ماتم ،
مرثیہ خوانی اور نوحہ وغیرہ کی مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں ، ماتمی جلوس
نکالا جاتا ہے جس میں سینہ کوبی ، تلوار ، چاقو،زنجیر، خنجروغیرہ کا
استعمال کیا جاتا ہے اور اسی طرح نیاز و فاتحہ، پانی کی سبیلیں لگانا ،
حضرت حسینؓ کا اپنے بیٹے یا بھائی کو ’منگتا‘ بنانااور تعزیہ وغیرہ نکالنے
کا اہتمام ہوتا ہے ۔ مردو زن کا اختلاط ہوتا ہے لیکن مزے کی بات یہ کہ ان
بدعات و رسومات کو دین کی خدمت سمجھ کر انجام دیا جاتا ہے۔
جب کہ اسلام نے ان تمام شرکیہ افعال اور بدعات و خرافات سے واضح طور سے منع
کیا ہے اور ایسے موقع پر صبر سے کام لینے کی تعلیم دی ہے ۔ ارشادِ ربانی
ہے:
الذین اذا اصابتھم مصیبة قالوا انا للہ و انا الیہ راجعون (البقرة:۶۵۱)
” جب کوئی مصیبت پڑے ،توکہیں کہ:ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں
پلٹ کر جانا ہے“
پھر یہ بھی کہ حضرت حسینؓ شہید کیے گئے ہیں تو وہ زندہ ہیں ، جیسا کہ قرآن
شہیدوں کے بارے میں کہتا ہے:
ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاءو لکن لا تشعرون
(البقرة:۴۵۱)
” اور اللہ تعالی کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو ، وہ زندہ ہیں لیکن تم
سمجھتے نہیں“
تو جب وہ زندہ ہیں تو ان کے لیے خود کو زخمی کرنا اور رونا پیٹنا کہاں سے
جائز ہو سکتا ہے؟یہ کام تو کوئی بے وقوف ہی کر سکتا ہے اور جہاں تک نوحہ
کرنے اور گریباں چاک کرکے آہ و فغاں کرنے کی بات ہے تو نبی کریم ﷺ کا ارشاد
ہے:
”جو شخص رخساروں پر طمانچہ مارے، گریبانوں کو چاک کر کے جاہلیت کی پکار کے
ساتھ پکارے ، واویلا کرے اور مصیبت کے وقت ہلاکت اور موت کو پکارے وہ ہم
میں سے نہیں“(بخاری:۴۹۲۱)
ایک اور جگہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو جاہلیت کے چار کام چھوڑنے پر تیار نہ
ہوں گے۔ حسب کی بنیاد پر فخر کرنا، کسی کے نسب میں طعنہ زنی کرنا، ستاروں
کے ذریعہ قسمت کے احوال معلوم کرنا اور نوحہ کرنا۔ نیز آپ ﷺ نے فرمایا :
”نوحہ کرنے والی عورت اگر موت سے پہلے توبہ نہیں کرتی تو قیامت کے روز اس
حال میں اٹھا ئی جائے گی کہ اس پر تارکول کی ایک قمیص ہو گی اور بیماری کے
ایک لباس نے اس کے جسم کو ڈھانپ رکھا ہوگا“(مسلم:۴۳۹)
محرم میں ایک اور بدعت جس کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے وہ کھچڑا کی رسم ہے
جسے حضرت حسینؓ کی نیاز کا نام دیا جاتا ہے اور بہت ہی متبرک سمجھ کر
کھایا، تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصود حضرت حسین ؓ کی روح کو خوش کرنا ہے۔
جب کہ ان کو معلوم بھی نہ ہوگا کہ ان کے پیچھے کیا کیا بدعات و خرافات
انجام دی جا رہی ہیں۔
بعض مولوی حضرات نے اس کو ایصالِ ثواب قرار دے کر جواز کا زبردستی پہلو
نکالا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ حضرت حسینؓ کی شہادت ہوئی ہے تو ان کو ثواب کی
کیا ضرورت ہے ؟ کہ یہ لوگ بانٹتے پھر رہے ہیں؟ پھر یہ کہ کھچڑا خود ہی
پکایا ، کھایا اور کھلایا تو اس میں ثواب کا کیا کام ہوا؟؟واقعہ یہ ہے کہ
یہ صرف پیٹ بھرنے کا طریقہ ہے جس کو نذرو نیاز اور ایصالِ ثواب کا خوبصورت
نام دے دیا گیا ہے۔اسی لیے اس طرح کی کوئی مثال ہمیں عہدِ نبوی یا صحابہ
کرام کے دور میں نہیں ملتی ہے۔
تعزیہ داری کی ابتدا : حضرت حسین ؓ کی شہادت کے بعدگریہ و ماتم کی
ابتداءیزید کے گھر سے ہوئی اور تین روز تک جاری رہالیکن پھر اس کے بعد تین
سو برس تک محرم میں رونے پیٹنے کی رسم کا کہیں وجود نہ تھا۔ سب سے پہلے
۲۵۳ھ میں معز الدولہ دیلمی نے صرف دسویں محرم کو بغداد میں حضرت حسینؓ کا
ماتم کرنے کا حکم نافذ کیا اور اس کے بعد ۳۶۳ھ میں المعز لدین اللہ فاطمی
نے پورے مصر میں اس کا حکم جاری کر دیا(ملا باقر مجلسی، ص ۴۲۵)
خود ہندوستان میں نویں صدی کے بعد تعزیہ کی شروعات ہوتی ہے اور اس کے آگے
منتیں،فاتحہ، چڑھاوے ، نیازوغیرہ پیش کی جاتی ہیں اورپھر اس کو متبرک سمجھ
کر کھایا ، تقسیم کیا جاتا ہے۔اس کا جلوس نکالا جاتا ہے ۔ جس طرح دسہرہ اور
دیوالی کے موقع پر غیر مسلم دیوی دیوتا کی مورتیاں تیار کر کے پوجتے اور
گشت کرتے ہیں پھر اس کو دریا میں غرق کر دیتے ہیں بالکل اسی طرح سے یہ لوگ
بھی تعزیہ بنا کر گشت کرتے ہوئے ماتم کرتے اورسینہ کوبی کرتے ہوئے مصنوعی
کربلا کے گہرے کنویں میں دفن کر تے ہیں۔بہرحال یہ بت پرستی کا دوسرا رخ ہے
اور اس میں کسی بھی طرح سے حصہ لینا جائز نہیں اور نہ ہی دیکھنے کی غرض سے
جانا صحیح ہے کیوںکہ اسلام نے ایسی جگہوں پر جانے سے سختی سے منع کیا ہے۔
اچھے یا برے دن منانے کی شرعی حیثیت :حضرت حسینؓ کی شہادت کا واقعہ ضرور
اسلامی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے لیکن جس طرح اس کو ۰۱/محرم کے ساتھ مخصوص
کر دیا گیا ، مختلف طرح کے افسانے گھڑ لیے گئے اور بدعات و خرافات انجام دی
جانے لگیں ، یہ غلط اور نا جائز ہے۔ورنہ اس سے پہلے بہت سے انبیاءکرام اور
صحابہ کرام کو شہید کیا گیا،خودحضرت عمر ؓ کی شہادت یکم محرم کو ہوئی،جن کے
بارے میں نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتے تو وہ عمرؓ
ہوتے ۔اتنی اہمیت کے باوجود آپؓ کی وفات پر کسی نئی بدعت اور رسم کا آغاز
نہیں ہوا ،کیوں کہ اسلام نے شر اور خیر کو ایام کا معیارِ فضیلت قرار نہیں
دیا ہے اوراسی لیے کہا گیا کہ:
زمانے کو گالی نہ دو کیوں کہ برا بھلا اللہ تعالی کے ہاتھ میں
ہے(بخاری:۷۲۸۵)
آج کل جس طرح سے محرم یادوسرے بڑے لوگوں کی سالگرہ یا برسی وغیرہ منائی
جاتی ہے،اگر اسلام اس کی اجازت دے دے تو مسلمان پورے سال ایسی ہی تقریبات
یا سوگوار ایام منانے اور اس کے انتظامات کرنے میں لگے رہیں گے ۔
کربلا کی حقیقت: حضرت حسینؓ نبی ِکریم کے نواسے تھے ۔ ان کو آپ ﷺ نے جنت کے
نوجوانوں کا سردار قرار دیا تھا لیکن کیاآپؓ کا مقام صرف اس وجہ سے بلند
تھا کہ آپؓ رسول اللہ ﷺ کے نواسے تھے؟نہیں ،بلکہ اس کی وجہ آپ کا بلند
کردار اور وہ قربانی ہے جو آپؓ نے اسلام کے لیے دی۔
حضرت حسین ؓ کا اہلِ عراق کی دعوت پر تشریف لے جانا اوریزید کے مقابلے میں
کھڑا ہونا اس لیے نہ تھا کہ آپؓ کو اقتدار کی لالچ تھی، بلکہ آپؓ نے صرف اس
وجہ سے مخالفت کی تھی کہ خلافت کے تصور کا خاتمہ نہ ہواور لوگ یہ نہ سمجھ
بیٹھیں کہ اسلام میں بادشاہت یا ملوکیت بھی ہے۔اسی لیے آپؓ نے مقابلہ کیا
اور شہید ہوئے۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ آج امت اس بات پر متفق ہے
کہ اسلام میں سیاست خلافت کے ذریعہ ہے ۔اگر آپ مخالفت نہ کرتے تو لوگ یہی
سمجھتے کہ ملوکیت کے نظام پر مسلمانوں کا اجماع ہو چکا ہے۔آپؓ کااس کے لیے
نکلناصحیح تھا یا غلط؟لیکن صحابہ کرام یا تابعین میں سے کسی نے بھی اس کو
غلط قرار نہیں دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ آپؓ اہلِ کوفہ کے منافقوں کی سازش کا شکار ہوئے ۔جب آپ ؓ نے
ان کا اصلی روپ دیکھ لیا تھا تو یزید سے ملنا اور اس سے بیعت کرنا چاہا تھا
لیکن کوفیوں نے اس کی نوبت نہیں آنے دی ،کیوں کہ اس سے ان کی سازشیں بے
نقاب ہو جاتیںتو انہوں نے وہی کیا جو جنگِ جمل میں حضرت علیؓ اور حضرت
عائشہ ؓ کے درمیان کیا تھا اورآخر میں حضرت حسین ؓ کو شہید کردیا۔
آخری بات: اگرچہ کربلا کا واقعہ بہت ہی دردناک ہے لیکن حضرت حسینؓ اور ان
کے ساتھیوں کے ساتھ جو کچھ سلوک کیا گیا اس کا جواب ہمیں نہیں دینا ہے۔ ان
کے مخالفین نے جو کیا ،اس کی سزا وہ بھگتیں گے ۔ہم کو اپنے اعمال کی جواب
دہی کرنی ہے تو ہمیں اس کی ہی فکر کرنی چاہیے۔جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
تلک امة قد خلت لھا ما کسبت و لکم ما کسبتم ولا تسئلون عما کانوا
یعملون(البقرة:۱۴۱)
” وہ کچھ لوگ تھے جو گذر چکے ان کی کمائی ان کے لیے تھی اور تمہاری کمائی
تمہارے لیے۔ تم سے ان کے اعمال کے متعلق سوال نہیں ہوگا“
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کوئی ایسا عمل نہ کریں جس سے ہمارے سارے
اعمال غارت ہو جائیں اور عذاب کے مستحق ہو جائیں۔ |