میاں نواز شریف کی جمہوریت نوازی

بادشاہ اور ڈکٹیٹر مطلق العنان ہوتے ہیں چونکہ وہ قوت کے بل بوتے پر اقتدار میں آتے ہیں اور پھراپنی سوچ کے مطابق حکمرانی کرتے ہیں مگر اس کے باوجود معاشرے کا ایک طبقہ اس کی حمایت کرتا ہے اور ان کے طرز حکمرانی کو درست قرار دیتے ہیں ۔ایوب خان۔جنرل یحییٰ خان،ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے پرستاروں کی بھی ایک بڑی تعداد عوام میں موجود ہے۔جبکہ لیاقت علی خان ،ذلفقار علی بھٹو، بینظیر اور آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والیبھی کم نہیں ۔ڈکٹیٹروں اور غیر منتخب حکمرانوں کو عوام اس وقت یاد کرتے ہیں جب جمہریت پسند اور لوگوں کے ووٹ سے منتخب حکمران عوام سے وہی کرتے ہیں جو ڈکٹیٹر اور بادشاہ کرتے ہیں۔منتخب نمائندوں کی محدود اور عوامی خواہشات کے منافی سوچ انہیں نہ صرف ڈکٹیٹروں اور مطلق العنان بادشاہوں کی صف میں لاکھڑا کر دیتے ہیں بلکہبلکہ وہ عوامی غیض و غضب کا نشانہ بن کربے توقیر ہو جاتے ہیں ۔

وزیر اعظم پاکستان میان نواز شریف جب دوسری دفعہ وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹائے گئے توجررل پرویز مشرف کو عوام نے نجات دہندہ اور انکی خواہشات کا مظہر قرار دیا۔جناب حسن نثار اور ان کے ہم خیال کالم نویسوں نیمشرف کے حق میں کالم لکھے اور کرپٹ اور بد دیانت حکمرانوں کو چوراہوں پر لٹکانے کی تجاویز دیں ۔پاکستان کے ہر شہر اور قصبے میں یوم نجات منایا گیا اور ایک منتخب اور جمہوری حکومت جس کا اندازہ شاہانہ تھا کے غیر جمہوری طریقے سے خاتمے پر یوم نجات منایا۔بھٹو حکومت کے خاتمے اور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے نفاذ پر بھی عوام نے کچھ یوں ہی خوشی منائی تھی مگر اس کا لیول ذرا کم تھا۔مذہبی سیاسی جماعتوں اور تحریک استقلال نے حلوے بانٹے تھے مگر ساتھ ساتھ احتجاج کی صدائیں بھی بلند ہو رہی تھیں ،مگر میانں نواز شریف کی جبری رخصت پر سیاسی بشمول مسلم لیگ کے کچھ مخصوص دھڑوں نے خوشی کا اظہار کیا ۔اور جب تک پرویز مشرف نے گجرات کے چوہدریوں اور عیش و۲ آرام کرنے والے ایک خاص طبقے بلکہ کلب کی رکنیت حاصل نہیں کی تھی وہ عوام کے ہیرو تھے۔جنرل مشرف کے مانیٹرنگ سسٹم نے تھانوں اور پٹوار خانوں کی چولیں ہلا دیں اور کرپٹ سیاستدانوں کو پہلی بار لوہے کی نتھ ڈالی مگر یہ نظام زیادہ دیر برقرار نہ رہا۔شیم ڈیموکریسی ،کرپشن اور بد عنوانی کو جڑ سے اکھاڑنے والے مشرف نے سیاستدانوں ،بیوروکریٹس اور جرنیلوں کی ایک ٹیم کے ایک گھیرے میں آکر محمد شاہ رنگیلا بن گئے اور مخض شاہی محل تک محدود ہوگئے۔جنرل جی ایم کی حادثاتی موت کے بعد مشرف عملاََ بے خصار اور شتر بے مہار بن گئے۔جنرل جی ایم واحد شخص تھے جو مشرف کو صحیح مشورے دیتے تھے۔اور مشرف کو درست اور عوامی رائے کے مطابق فیصلے کرنے پر مجبور کرتے تھے۔جنرل غلام محمد نے نہ صرف جنرل پرویز مشرف کی درست اور صحیح سمت رہنمائی کی بلکہ اسے چاپلوس اور لالچی ٹولے سے بھی دور رکھا۔مشرف کی بدقسمتی کہ جنرل غلام محمد اپنے آبائی گاؤں جاتے ہوئے حادچے کا شکار ہو گئے اور مشرف سیاسی ھادثات کا شکار ہو کر عوام کی نظروں سے گر گئے۔

پاکستانی عوم کی خوش فہمی تھی کہ میاں نواز شریف جلاوطنی کے بعد عوام کے دکھ کا مداوا کریں گے۔اور این آر او حکمرانوں کی ظل و زیادتیوں کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں گیمگر یہ ہو نہ سکا اور عوام کو پانچ ماہ کی اس حکمرانی نے مشرف اور زرداری کو بہتر حکمران تسلیہم کرنے پر مجبور کر دیاہے،ساری دنیا جانتی ہے کہ آزاد کشمیر پر ایک برادری کی حکومت ہے۔اور ڈوگر راج کی طرح مجیدی ٹولے نے بھی آزاد کشمیر پر حکومت سازی ایک اوپن بولی کے ذریعے حاصل کی ہے۔منظور وٹو ،قمر الزمان کائرہ اور رحمان ملک نے ایک منسوبے کے تحت الیکشن کا ڈونگ رچایا اور اور اس ڈھونگ کو ڈھنکے کی چوٹ پر کامیاب بھی کرایا۔صدارت سے لیکر وزارت اور مشارت تک کے عہدوں کے الگ الگ ریٹ لگا اور جس کے پاس جتنے ڈالر اور پاؤنڈ تھے سب نے استطاعت کے مطابقمن پسند وزارت حاصل کی۔ اسلام آباد میں لگنے والی جمہوری میں ایم ایل اے کو سو فیصد کامیابی کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا گیا اور مال لگاؤ مال بناؤ جمہوریت کی کامیابی کیلئے سرحد پولیس اور نادرہ کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا۔

مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد وزیر اعظم چوہدری عبد المجید نیاپنے لئے مجاور وزیر اعظم کا لقب پسند کیا اور گڑھی خدا بخش بھٹو جا کر بھٹو خاندان کی قبروں پر جھاڑو لگا کرمجاور حکومت کا عملی نمونہ پیش کیا ؛کشمیر کی تاریخ میں مہاراجہ گلاب سنگھ کے بعد چودھری مجید حکمران ہیں جنہوں نے مزارات پر جھاڑو لگانے کا اعزاز حاصل کیا۔مہاراجہ گلاب سنگھ نے مزار پر حاضری دی ،چادر چڑھائی ،لنگر تقسیم کیا ،قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا مہاراجہ کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی اسلئے مزار پر حا ضری دی اور پھر ولی عہد کی پیدائش پر دھڑیاں والی سرکار کے مزار پر حاضر ہوئے اور جھاڑو لگا کر مساکین میں لنگر تقسیم کیا اورمنت ادا کی چوہدری عبد المجید نے لاڑ کانہ جا کر کیا منت مانی اس کا تو پتہ نہیں مگر واپس آکر چوہدری مجید اور سینئیروزیر نے آزاد کشمیر کے خزانے پر جھاڑو پھیر ا،کاغذی سکیموں سے مال بنایا ،جیالوں میں عہدے تقسیم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی بی اے پاس جیالوں اور برادری والوں کو پبلک سروس کمیشن کا ممبر بنا یا اور ہر عہدے اور پوسٹنگ پر رشوت اور سفارش کا بازار لگا کرمیرٹ اور قابلیت پر جھاڑو پھیر دیا ۔منگلا ڈیم منصوبے پر جو کچھ سردار عتیق سے بچ گیا تھا اسے سمیٹا اور پھرجناح کالونی اور نیو میر پور سٹی سے مال بٹور کر بیرون ملک منتقل کر دیا لوٹ مار اور کرپشن پر عوام نے چیخ و پکار کی تو بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کرپٹ ٹولے کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا تو میاں نواز شریف نے کرپٹ ٹولے کی حمایت کا فیصلہ کیا اور اسے جمہوری حکومت اور حکمرانی کا سرٹیفیکیٹ جا ری کرتے ہوئے کرپشن اور بد دیانتی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔اب کاہرہ ،وٹومنصوبے کی ایک جھلک دیکھئے کہ میاں نواز شریف کی پسندیدہ جمہوریت کس گورکھ دھندے کا نام ہے ۔میاں صاحب کی جمہوریت نوازی اور جمہوری وژن کیلئے آزاد کشمیرکی برادری جمہوریت کی ایک مثال آزاد کشمیر کا ایک انتخابی حلقہ نمبر 4کوٹلی ہے جو آزاد کشمیر کے اصل وزیر اعظم اور دکھلاوے کے سینئیر وزیر کا حلقہ ہے،کہنے کو تو چوہدری عبدالمجید وزیر اعظم ہیں مگر اصل قوت سینئیر وزیر کے پاس ہے جسے زرداری ہاؤس میں وزیر اعظم سے بڑھ کر پروٹو کول دیا جاتا ہے ۔زرداری ہاؤس میں چوہدری عبدالمجید کو صرف مجید کہہ کر بلایا جاتا ہے جبکہ سینئیر وزیر کیلئے چوہدری صاحب پکاراجاتا ہے۔آزاد کشمیر الیکشن ڈرامے کی رات کو ہی برادری جمہوریت کے قیام کا فیصلہ ہو چکا تھا ۔اور سرحد پولیس نے حلقہ نمبر 4کے اہم سیاسی لیڈر جن کے گھر ن لیگ کے اہم ورکروں کا اجلاس ہو رہا تھا کو گھیرے میں لے لیا ۔یہ گھر ضلع کوٹلی کے مرکزی قائد راجہ مشتاق ایڈوکیٹ کا تھا جہان حلقہ بھر کے سینئیر کارکن اور بااثر افراد جمع تھے اور صبح ہونے والے الیکشن کے انتظامات کو حتمی شکل دے رہے تھے،سینئیر وزیر نے رحمان ملک، قمرالزمان کائرہ اورمنظور وٹو کے حکم پر سرحد پولیس کے ذریعے موضع کجلانی کو محاصرے میں لے لیا اور الیکشن کے اختتام تک ان لوگوں کو محصور رکھا،نہ یہ لوگ اپنے علاقوں میں جا سکے اور نہ اپنے ووٹروں کو لا سکے اور نہ ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکے۔کیا میاں نواز شریف کے سیاسی وژن کے مطابق یہ جمہوریت نوازی ہے،اگر میاں صاحب اس دھاندلی اور جبر کو جمہوریت نوازی کہتے ہیں تو ان کی جمہوریت کو سات سلام ،سینئیر وزیر نے پھٹہ سازی کی بھی حدیں پار کر لیں ۔مرے ہوئے اور بیرون ملک مقیم لوگوں کے ووٹ بھی دیدہ دلیری سے پول کئے جس کا ریکارڈ راجہ مشتاق کے پاس موجود ہے لیکن سننے والا کوئی نہیں ،سینئر وزیر ،قمر الزمان کائرہ،منظور وٹواور رحمان ملک کا اگلا کارنامہ بھی ملاحظہ ہو ۔

الیکشن سے قبل رات دس بجے کے بعد اسلام آباد سے نادراکوٹلی آفس کوحکم ملا کہ کہ نادرا آفس کھول کر حلقہ نمبر 4کے جیا لے کو جس قدر شناختی کارڈوں کی ضرورت ہے صبح سے پہلے بناکر حوالے کر دو۔نادرا آفس نے انکار کیا توضلع کوٹلی کے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی نے اسلام آباد حکومت کے حکم کے مطابق نادرا آفس کے مینیجر سے دفتر کھلوایا اور جعلی شناختی کارڈز کی چھپائی شروع کر دی۔ ن لیگ کے امیدوار راجہ اقبال خان نے اپنے بھانجے راجہ ژاروب اور دیگر رشتہ داروں کو نادرہ آفس بھیجا جہاں ضلعی پولیس اور سرحد پولیس نے ان نوجوانوں پر بری طرح تشدد کیا اور زخمی حالت میں ہسپتال لیجا کر پھینک دیا۔ پولیس گردی کی یہ خبر دوسرے روز اخباروں میں بھی شائع ہوئی مگر زرداری حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ میاں صاحب سے گزارش ہے کہ اگر وہ آزاد کشمیر میں اپنی پارٹی کیساتھ ہونیوالی دھاندلیوں اور زیادتیوں کا ازالہ نہیں کرسکتے تو پھر آزاد کشمیر(ن) لیگ بنانے کی تکلیف کیوں کی ہے آپ کی(ن) لیگ مسلم کانفرنس کی آفٹر نون ہے جس کا سورج طلوع ہوتے ہی غروب ہونے لگا ہے اگر آپ کو جمہوریت کا کچھ احساس ہے تو آپ کوٹلی حلقہ نمبر4 کے واقعات کی تحقیق کروائیں اور جن لوگوں نے جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے انہیں سزا دیں۔ نادراکے ڈی جی جس نے رات کو نادرادفتر کھولنے کا حکم دیا اسے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں تو وٹو، کائرہ اور رحمن ملک کی سازشوں کا پول خود ہی کھل جائے گا۔ کوٹلی کے ایس پی اور ڈسی کی غیر جانبدار انکوائری کروائیں تو دھاندلی اور غنڈہ گردی کی ساری گھتیاں سلجھ جائینگی۔ اگر آپ میں سچائی کا سامنا کرنے اور برائی کو ختم کرنے کی ہمت ہے تو غنڈہ گردی کو جمہوریت کہہ کر جمہوریت کی تذلیل نہ کریں اگر آپ کو آزاد کشمیر کے عوام سے کوئی دلچسپی نہیں اور مجید حکومت کی سپورٹ کسی این آر او کا حصہ ہے تو آزاد کشمیر(ن) لیگ کا بے مقصد دفتر بند کر دیں تاکہ مجید حکومت کے ستائے ہوئے عوام کھنہ ہاؤس سے وابستہ جھوٹی امیدیں ترک کرکے کاکا ہاؤس کی مجاروی شروع کر دیں۔ آزاد کشمیر کے بے بس عوام برادری جمہوریت، کرپشن کی سیاست اور غنڈہ گردی کی حکومت سے عاجز آچکے ہیں۔ کھانے پینے اور لوٹ مار کے علاوہ وزیراعظم اور سینیئروزیر کا کام ہیلی کاپٹروں کے ہوا لارے لینا، شادیوں اورجنازوں میں شرکت کرنا مخالفین کو تڑیاں لگانا، پٹواریوں اور تھانیداروں سے خفیہ میٹنگیں کرنا اور رٹے رٹائے بیان دینا ہے۔ اگر آپ اسے جمہوریت تصور کرتے اور صرف فضول اور بے مقصد کاموں کیلئے ایک سینئر اور ایک سینئر موسٹ وزیراعظم رکھنے پر مجبور ہیں تو برائے کرم اس کرپٹ ٹولے کی جگہ وزیراعظم امور کشمیر کے علاوہ ایک عدد وزیراعظم تدفین بھی رکھ لیں اس کام کیلئے اگر موزوں آدمی میسر نہیں تو اس دوکے ٹولے کو دو عدد ہیلی کاپٹر دیکر ایک کو شادی اورمبارکبادی اور دوسرے کو اموات اور قبرستان کا محکمہ دے دیں۔

آزاد کشمیر کے غلام عوام آپ سے کسی غیر جمہوری اقدام کی فرمائش نہیں کرتے وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ حلقہ نمبر4 کوٹلی کو مثال بناتے ہوئے الیکشن میں ہونیوالی دھاندلی اور اس میں ملوث نادرہ اور سرحد پولیس کیخلاف انکوائری کروائی جائے اور آزاد کشمیر کے چیف سیکرٹری اور آئی جی کوٹلی کے ایس پی اور ڈی سی کی انکوائری کریں جوکہ براہ راست اس جرم میں شریک تھے۔
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 92119 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.