خلافت عثمانیہ کے زوال کا دور تھا تاتاریوں نے بغاد
پر حملے کا منصوبہ بنایا ،اور بغداد پر چڑھائی کر دی جب تاتاری حملہ آور
ہوئے تو ملک کے رہنماؤں ،لیڈروں ،اور علماء کرام کو اس کی اطلاع دی گئی کہ
حملہ ہو چکا ہے ملک کی حفاظت کی جائے جب حملے کی اطلاع دینے کچھ لوگ آئے تو
انہوں نے دیکھا کہ ملک کے بڑے بڑے علماء سیاست دان لیڈر،ایک کمرے میں بیٹھے
یہ مناظرہ کر رہے ہیں کہ کوا، حلال ہے یا حرام،یہ سوال بھی ہو رہا ہے کہ
سوئی کے سوراخ سے اونٹ گزر سکتا ہے کہ نہیں،یہ وہ دور تھا جب ملک کے طول
عرض پر اسی قسم کی بے معنی ،لا حاصل،اور فضول باتوں پرکبھی فتوے دیے جاتے
تو کبھی ان پر کئی کئی دن بحث کی جاتی،ملکی کمزرویوں،حکومتی پالیسیوں کی
کسی کو کوئی پرواہ نہ تھی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ تاتاری جو
کبھی اونچی آواز میں بات کرنے سے بھی ڈرتے تھے انہوں نے بعداد کی اینٹ سے
اینٹ بجادی اور سلطانت عثمانیہ کا الٹ دیا۔ جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو
اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی ہے وہ طاقت یا تعداد میں کمزور ہو گی ہے بلکہ اس کی
پالیسیاں ،کمزرو ہو جاتیں ہیں ۔جب قوموں کے اندر بے فضول اور لا حاصل قسم
کی تقریں اور تنقیدیں شروع ہو جائیں جب رہنماؤں،لیڈروں،اور دانشوروں کہ
درمیان انڈا پہلے آیا یا مرغی پر مباحثے ہونے لگے تو اس کا انجام سلطنت
عثمانیہ جیسا ہی ہوتا ہے۔ محرم الحر ام کی چھٹیوں کے بعد میں آفس جا رہا
تھا تو ایک جگہ پر کچھ لوگ بیٹھے آپس میں بحث کر رہے تھے ایک کہہ رہا تھا
کہ کیا زندہ کا ماتم کیا جاتا ہے،دوسرا کہہ رہا تھا کہ تم مجھے بتاو کہ کیا
مردہ کا ماتم کیا جاتا ہے،ان کی تقرار کربلا کے حوالے سے تھی میں اس پر بات
نہیں کرتا ۔ مگرجب میں دیکھتا ہوں تو مجھے پورے ملک کے علما،سیاست
دان،دانشور،لیڈر،اپنے اپنے جلسوں میں، ٹی وی چینل پر، بڑی بڑی کانفرنسس میں
اسی قسم کی بحث میں الجھے رہتے ہیں ۔اس بات سے بے خبر کہ عوامی مسائل کیا
ہیں ملک کس طرف جا رہا ہے دنیا ہمارے بارے میں کیا کہہ رہی ہے ،انٹرنیشنل
سروے ہمارے بارے میں کیا رپورٹس پیش کرتے ہیں،کرپشن،اور عدم تحفظ میں ہمارا
نمبر تیسرا ہو گیا ہے،انسانی جانوں سے سب سے زیادہ اس ملک میں کھیلا جا رہا
ہے،انسانی حقوق کی پامالی میں یہ ملک نمبر ون ہے ۔مگر ہمارے رہنماؤں کی
باتیں، مباحثے، تقریں اپنے نمبر بناننے اور دوسرے پر اپنی سبقت لے جاننے کی
ہوتی ہیں،ماضی کے چکر سے کبھی نکلے ہی نہیں ایک ہی بات پانچ سال تک کرتے
رہے گے،اور ایک ہی مسئلے کو لے کر کئی کئی سالوں تک اس پر بحث کرتے رہیں
گے۔،مستقبل کیا ہے؟ زمینی حقائق کیا تصویر پیش کرتے ہیں اس سے ان کو کوئی
غرض نہیں۔ سستی روٹی،لیپ ٹاپ،سکول،پل،سڑکیں ،جلا وطنی،یہ سکیم وہ سکیم،اس
نے کھا لیا،اس نے بیچ دیا،کون شہید ہے کون مردہ ہے۔ بس دوسرے کو نیچا
دیکھانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں،کالا باغ ڈیم بنے یا نہ بننے کی بحث
بیس سال سے شروع ہے آج تک وہ معمہ حل نہیں ہوا۔ جو قوم ایک اﷲ،رسول۔قران پر
ایک نہیں،جو دین پر ایک نہیں ترقیاتی کام پر کبھی ایک ہو ہی نہیں سکتی
ہمارے ملک میں دو سو سے زائد سیاسی جماعتیں ہیں جو عوام کو اپنے اپنے مفاد
میں وقت کے ساتھ ساتھ استعمال کرتے ہیں،اس ملک کی سیاست کا اور سیاست دانوں
کا یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ جب بھی ملک میں کوئی بہتر کام ہونے لگتا ہے یا
اس پر بات کی جاتی ہے تو ایک گروو ایسا نکل آتا ہے جو اس کو ملک دشمن ایشو
بنا کر پیش کرتا ہے اور سادہ لو لوگوں کو استعمال کر کے کچھ ان کو زبر دستی
کر کے ملک میں انتشار پھیلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں
جب منگلا ڈیم بنا تھا اس وقت بھی اگر گروپ ایسا تھا جو کہہ رہا تھا کہ ہم
برباد ہو گئے ہم تباہ ہو گئے،آج تک یہ کہا جا رہا ہے کہ، یہ حق نہیں ملا،
وہ نہیں ملا، مگر آج منگلاڈیم کے متاثرین برطانیہ اور امریکہ کے شہری
کہلاتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے تھے لوٹ گئے مر گئے۔
وہ سیاسی جماعتیں جو کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کی عوام دوستی پالیسیوں پر
تنقید کرتیں ہیں جو سالہا سال سے ڈینگی کے زمہ داروں کو ڈھونڈ رہی ہے ،وہ
جو عوام کی بسوں،سڑکوں،سکولوں،شہیدوں کے پیچھے پڑیں ہیں وہ سیاسی جماعتیں
اپنی کارگردگی ،اور کوششیں عوام کی فلاح وبہبود کے لئے صرف کرتیں رہیں۔ ان
کو بجائے تنقید کرنے کے اپنا اپنا کام کرنا چاہیے اور پھر فیصلہ عوام کے
اوپر چھوڑ دیں جب نہ یہ خود کام کرتے ہیں اور نہ دوسرے کو کرنے دیتے ہیں
اور خود کو پھر عوام دوست بھی کہتے ہیں یہ سمجھ سے باہر ہے۔ملک میں عوام کو
زندگی کی بنیادی سہولیات،بجلی ،گیس، پانی، تعلیم، اسپتال، ٹرانسپورٹ،
روزگار، تک میسر نہیں ،اور سب دعوے ترقی کے کرتے ہیں،کسی بھی ٹاک شو میں ان
عوام لیڈروں کی باتیں سنو تو سر شرم سے جھک جاتا ہے یہ ایک دوسرے کو ٹیکس
چوری ،کرپشن ،وعدہ خلافی ،اور فیملیز کا طعنہ دیتے رہتے ہیں،کوئی بھی اپنے
گریبان میں نہیں جھانکتا کہ وہ کیا کر رہا ہے اور جو وہ کہہ رہا ہے وہ کس
حد تک سچ ہے سیاست دان اپنے اپنے لیڈرو کی تعریف کرتے کرتے پوجا کی حد تک
چلے جاتے ہیں۔کوئی بھی سیاست دان ایسا نہیں جس نے چار چار پانچ پانچ سیاسی
جماعتیں نہ بدلی ہوں ایک دن وہ اسی منہ سے،اسی زبان سے گالیاں دے رہا ہوتا
ہے اور دوسرے دن وہ اسی زبان اور منہ سے اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیتا
ہے،یہ کونسا فلسفہ ہے عوام کی سمجھ سے باہر ہے۔سیاسی جماعتیں جب یہ دیکھتی
ہیں کہ ان کی مقبولیت کم ہوتی جا رہی ہے تو وہ اہنونی باتوں کا ایشو بنائے
گی اس پر سالوں بحث ہو گی اس کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا، آج جب ملک کے
علما اور دانشوروں پر نظر پڑتی ہے تو سلطنت عثمانیہ کا دور یاد آجاتا ہے آج
بھی کوا، حلال ہے یا حرام پر بحث ہوتے ہوئے نظر آتی ہے ۔عوامی مسائل حل
کرنے کے لئے باتیں نہیں عمل کیاجاتا ہے جب کہ ہمارے ہاں پیسٹھ سال ہو گئے
باتیں ہی ہورہی ہیں عمل نام کی کوئی چیز نہیں اپنے اپنے سیاسی،اور زاتی
مفاد کے لئے ملکی مفاد کو داؤ پر لگا کر اپنا کام پورہ کر کے پھر اپنا
بوریا بسترہ اٹھاتے ہیں اور دوسرے ممالک میں چلے جاتے ہیں۔جب تک عوام کے
اندر حق اور سچ کا شعور نہیں پیدا ہوتا،شخصیت پسندی جب تک ختم نہیں ہوتی اس
وقت تک ملک میں تبدیلی نہیں آسکتی اور نہ ہی ملک ترقی کر سکتا ہے،ایک ارب
کی آبادی والا ملک بھارت جو بیس سال پہلے تک پاکستان کے نام سے ڈرتا تھا آج
اس کے ساتھ بات کرنا پسند نہیں کرتا کیوں؟اس نے اپنی پالیسیوں ،اپنے قوانین
،ملکی ترقی کو ترجیح دی۔ اپنا وقت عوام ،ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں
لگایا نہ کہ گزرے ہوئے سانپ کی لکیر پیٹتا رہا۔اصل میں ہمارے سیاسی رہنماء
خود اپنی سوچ ، اپنی ذات کے غلام ہیں ۔جب رہنماؤں کے پاس کوئی وژن نہ ہو تو
عوام،ملک و قوم کا حال یہی ہوتا ہے جو اس وقت ہمارا اور ہمارے ملک کا
ہے۔عوام کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ ،اپنے ووٹ سے لیڈروں کو بدلیں قوم کی
تقدیر خود بدل جائے گی۔۔۔ |