شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے
ہيں:
جہاد واجب اور اس وقت فرض عين ہو جاتا ہے جب كوئى انسان قتال ميں حاضر ہو
جائے، يہ فرض عين ہونے كى پہلى جگہ ہے جہاں جہاد فرض عين ہوتا ہے، كيونكہ
اللہ سبحانہ وتعالىٰ كا فرمان ہے:
﴿ اے ايمان والو جب تم كفار كے مد مقابل ہو جاؤ اور دو بدو ہو جاؤ تو ان سے
پشت مت پھيرنا، اور جو شخص ان سے اس موقع پر اپنى پشت پھيرے گا مگر ہاں جو
لڑائى كے ليے پينترا بدلتا ہو، يا جو ( اپنى ) جماعت كى طرف پناہ لينے آتا
ہو وہ مستثنى ہے، باقى اور كوئى جو ايسا كريگا وہ اللہ كے غضب ميں آ جائيگا
اور اس كا ٹھكانہ دوزخ ميں ہوگا، اور بہت ہى برى ہے وہ جگہ ﴾الانفال ( 15 -
16 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم نے بتايا ہے كہ لڑائى والے لڑائى ميں
سے پيٹھ پھير كر بھاگنا سات تباہ كن اشياء ميں سے ايك ہے، فرمان نبوى ہے:
" سات تباہ كن اشياء سے بچ كر رہو: اور اس ميں لڑائى والے دين لڑائى سے
پيٹھ پھير كر بھاگنا بھى ذكر كيا " متفق عليہ.
ليكن اللہ سبحانہ وتعالىٰ نے اسے دو حالتوں ميں استثنى كيا ہے:
پہلى حالت:
وہ شخص لڑائى كا پينترا بدلنے كے ليے وہاں سے بھاگے، يعنى دوسرے معنوں ميں
اس طرح كہ وہ اس سے بھى زيادہ قوت و طاقت كے ساتھ آنا چاہتا ہو.
دوسرى حالت:
وہ اپنى جماعت كے ساتھ ملنا اور پناہ حاصل كرنا چاہتا ہو، وہ اس طرح كہ اسے
بتايا جائے كہ دوسرى طرف سے مسلمانوں كى ايك جماعت اور لشكر شكست كھانے كے
حالت ميں ہے، تو وہ ان كى تقويت اور كے ليے ان كے ساتھ ملنے كے ليے جائے،
اور اس حالت ميں شرط يہ ہے كہ وہ اس گروہ اور لشكر كا خوف نہ ركھے جس ميں
رہ كر وہ خود لڑ رہا ہے، اور اگر اس جماعت كا خدشہ ركھتا ہو جس ميں وہ خود
ہے تو پھر اس كا وہاں سے نكل كر دوسرى جماعت ميں جانا جائز نہيں، تو اس
حالت ميں اس پر فرض عين ہوگا اور اس كے وہاں سے جانا جائز نہيں.
دوم:
جب اس كے علاقے اور ملك كو دشمن گھير لے تو اس شخص پر اپنے وطن كے دفاع كے
ليے لڑائى اور قتال فرض عين ہو جاتا ہے، اور يہ اس شخص كے مشابہ ہے جو
لڑائى كى صف ميں موجود ہو؛ كيونكہ جب دشمن ملك اور علاقے كا محاصرہ كر لے
تو اس كا دفاع كرنا ضرورى ہے؛ كيونكہ دشمن اس علاقے ميں جانے اور وہاں سے
باہر نكلنے سے روك دے گا، اور اس طرح ان كے ليے غلہ وغيرہ بھى نہيں آ سكے
گا، اور اس كے علاوہ جو كچھ معروف ہے اس پر بھى پابندى لگ جائيگى، تو اس
حالت ميں اس علاقے كے لوگوں پر اپنے ملك كے دفاع كے ليے لڑنا فرض عين ہے.
سوم:
جب امام اور حكمران لڑنے كا حكم دے، امام وہ ہے جو ملك كا حكمران اور
سربراہ ہو، اور اس ميں امام المسلمين ہونے كى شرط نہيں؛ كيونكہ يہ عمومى
امامت بہت زمانے سے ختم ہو چكى ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم
كا فرمان ہے:
" اگر تم پر حبشى غلام بھى امير اور حكمران بنا ديا جائے تو اس كى سمع و
اطاعت اور فرمانبردارى كرو "
تو جب كوئى انسان كسى بھى جہت ميں امير بن گيا تو وہ امام عام كى طرح ہى ہے
اور اس كا قول نافذ ہوگا اور اس كا حكم مانا جائيگا. ديكھيں: الشرح الممتع
( 8 / 10 ).
واللہ اعلم . |