کفار و منافقین کے خلاف جہاد کے مراتب - جہاد حصہ ١٥

تو مملكت سعودى عرب، (بحیثیت مال و دولت اللہ کی طرف سے عطا ہونے کے ناطے ) اور افريقہ اور مغرب (جہاں کفار کا غلبہ ہے اور جہاں کے لوگ معصوم نہیں بن سکتے کہ مغرب میں رہ کر پیسا اور مزے کرنے کی باری ہو تو اپنا حصہ ڈالیں اور اگر کافر ظلم و ستم کریں تو دوسرے مسلمانوں کی طرف دیکھیں کہ ان میں سے کوئی جہاد کرنے کو آئے کیوں نہیں امریکہ یورپ مغرب میں رہنے والے اپنا حصہ جہاد میں ڈالتے کیا سارا جہاد غریب ممالک پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان اور ایسے ہی دوسروں کے لیے رہ گیا ہے ) وغيرہ ميں بسنے والے مسلمانوں كو اپنى طاقت صرف كرنى چاہيے ، اور زيادہ قريب والا شخص زيادہ حصہ ڈالے۔

سوم:

كفار كے خلاف ہاتھ سے جہاد كرنا فرض كفايہ ہے:

ابن قدامہ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

قال: ( اور جہاد فرض كفايہ ہے، جب قوم كے كچھ افراد جہاد كر رہے ہوں تو باقى افراد سے ساقط ہو جاتا ہے ).

فرض كفايہ كا معنى يہ ہے كہ:

وہ فرض چيز اگر اتنے لوگ اس كى ادائيگى نہ كريں جو كافى ہوں تو سب لوگ گنہگار ہونگے، اور اگر اتنے لوگ ادا كر ليں جو كافى ہوں تو باقى سب لوگوں سے ساقط ہو جاتا ہے.

ابتدا ميں خطاب سب كو شامل ہے، مثلاً فرض كفايہ، اور پھر اس ميں مختلف ہے كہ فرض كفايہ بعض كے ادا كرنے سے باقى افراد سے ساقط ہو جاتا ہے، اور فرض عين كسى دوسرے كے كرنے سے كسى سے بھى ساقط نہيں ہوتا، عام اہل علم كے قول كے مطابق جہاد فرض كفايہ ميں شامل ہوتا ہے .

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 163 ).

اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

يہ پہلے بھى گزر چكا ہے كہ ہم پہلے كئى بار بيان كر چكے ہيں كہ جہاد فرض كفايہ ہے نہ كہ فرض عين، اور سب مسلمانوں پر ضرورى ہے كہ وہ اپنے بھائيوں كى اپنے نفس اور اپنے مال اور اسلحہ اور دعوت اور مشورہ كے ساتھ معاونت ضرور كريں، تو جب جہاد كے ليے اتنے لوگ نكل جائيں جو كافى ہوں باقى افراد گنہگار ہونے سے بچ جائينگے، اور جب سب لوگ ہى جہاد ترك كر ديں تو سب گنہگار ہونگے.

تو مملكت سعودى عرب، اور افريقہ اور مغرب وغيرہ ميں بسنے والے مسلمانوں كو اپنى طاقت صرف كرنى چاہيے، اور زيادہ قريب والا شخص زيادہ حصہ ڈالے، تو جب ايك يا دو يا تين يا اس سے زيادہ ملكوں ميں سے افراد كافى ہو جائيں تو باقى مسلمانوں سے ساقط ہو جائيگا.

اور وہ نصرت و مدد اور تائيد كے مستحق ہيں ان كى مدد كى جائے، ان كے دشمن كے خلاف ان مسلمانوں كى مدد كرنا فرض ہے؛ كيونكہ وہ مظلوم ہيں، اور اللہ سبحانہ وتعالىٰ نے سب كو جہاد كا حكم ديا ہے، انہيں چاہيے كہ وہ اللہ كے دشمنوں كے خلاف جہاد كر كے اپنے بھائيوں كى مدد كريں، اور اگر وہ ايسا نہيں كرتے تو گنہگار ہونگے، اور جب اتنے افراد جہاد كرنے لگيں جو كافى ہوں تو باقى سے گناہ ساقط ہو جائيگا .

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 7 / 335 ).

چہارم:

كفار كے خلاف جہاد چار حالتوں ميں فرض ہو جاتا ہے:

1 - جب مسلمان شخص جہاد ميں حاضر ہو جائے.

2 - جب دشمن آ جائے اور علاقے اور ملك كا محاصرہ كر لے.

3 - جب امام المسلمين اور حكمران رعايا كو جہاد كى طرف بلائے تو رعايا پر جہاد كے ليے نكلنا فرض ہو جاتا ہے.

4 - جب اس شخص كى ضرورت ہو اور اس كے بغير كوئى اور اس ضرورت كو پورا نہ كر سكتا ہو.
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 532958 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.