سفر نامہ

محمد جاوید خان غوری
نقاش کا سفر

وہ لوگ جو مستقبل پرایمان رکھتے ہیں نئی نسل سے خوفزدہ نہیںہوتے ۔ نئی نسل تو اس مستقبل کی تعمیرکا وعدہ ہوتی ہے جس میں ان کے خوابوں اور آرزوئوں کی نقش گری کا امکان ہوتا ہے ۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ آرزو ‘ حوصلہ تعمیر‘ مستقبل کی نقش گری یہ سب سعادتیں ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی ہیں یہ زندگی کا سفر ہے اور اپنے اسی ایقان کے تحت میںنے اپنے طالبعلموں سے ہمیشہ یہی کہا ہے:
جو ہوسکے ہمیں پامال کرکے آگے بڑھ
نہ ہوسکے تو ہمارا جواب پیدا کر

اور نئی نسل نے کبھی کبھی اس چیلنج کو قبول کیاہے مگر گزشتہ بیس پچیس سال میں ہمارا ’ جواب‘ بننے والوں کی تعداد کچھ ایسی نہیں جو ہماری تشنہ لبی کا جواب بن سکے نقاش ہمارے چیلنج کا ایک جواب ہیں!
نقاش کاظمی ‘ چاندنی اور سمندر‘ کے ذریعہ تجدید سفر کررہے ہیں نقاش نے جامعہ کراچی میں ۱۹۶۸ء میں داخلہ لیا اور ۱۹۷۰ء میں میرے جاپان جانے تک وہ شعبہ ٔ اردو کے طالب علم تھے ۔ جامعہ کے دوسرے شعبوں کے استاد شاید طلبا کے Responceکے بغیر بھی سلیقے سے پڑھا لیتے ہوں مگر ادب کے استاد کے لیے یہ ممکن نہیں ۔ ادب کا استاد جب اپنی کیفیت سے ابھرتا ہے تو چہروں پر میر صاحب‘ غالب‘ اقبال اور خود اپنے خوابوں کا تاثر اور سایہ تلاش کرتا ہے ۔ کوئی سوچنے والا چہرہ ‘ کوئی خواب دیکھنے والی آنکھ ‘ زندگی کے حسن پر کوئی مسکرانے والا لب… یہی اس کا انعام ہے ان دنوں جماعت میں پڑھاتے پڑھاتے میں نے نقاش کو دریافت کیاتھا اور پھر… نقاش کی شاعری سے تعارف ہوا۔

نقاش کا زیر نظر مجموعہ چاندنی اور سمندر جامعہ کراچی کے جشنِ سیمیں کے موقع پر جامعہ کے حضور ان کا نذرانہ ہے‘ شاید ہی کسی جامعہ کو اس کے بیٹے نے ایسا نذرانہ پیش کیا ہو اردو کی حد تک میرے خیال میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا مجموعہ ہے یوں جامعہ کراچی کا ذہنی رشتہ ایک نئے عنوان سے مسلم یونیورسٹی سے استوار ہوا ہے ( جامعہ کراچی کو میں پاکستان میں مسلم یونیورسٹی کا عکس نو سمجھتا ہوں اس وقت تفصیل کی گنجائش نہیں ۔)

اس مجموعے کی تمام تر شاعری ۱۹۶۸ء سے ۷۱/۱۹۷۰ء کے دور سے تعلق رکھتی ہے ۔ کئی نظمیں جامعہ کراچی اور کراچی میں طلبا کی جدوجہد سے متعلق ہیں مثلاً نذر جامعہ‘ استقبال‘ گام گام مقتل ‘ شکست حوصلۂ شب۔

اس تیز تر جہان نو میں دس سال کی مدت میں سائنس کے نظریہ ہی نہیں بلکہ شاعری کے وقتی لہجے بھی پرانے ہوجاتے ہیں میں نے نقاش کی یہ نظمیںاور غزلیں پڑھیں اور مجھے اس بات پر فخر کا احساس ہوا کہ اس کی شاعری میں بہار کی ہوا کی تازہ سامانی پوری طرح موجود ہے ۔ نقاش کے ہاں مجاز ‘ سردار جعفری اور مصطفی زیدی کا فنی احساس ‘ اس کی اپنی انفرادیت اور نئی نسل کی نئی حسیت کے ساتھ یوںہم آہنگ ہوگیا ہے کہ خود اس کا اپنا ایک لہجہ ابھر آیا ہے۔ اسے ابھی اس لہجے کی پرورش کرنا ہے بقول فراق آواز کو مرمر کے پالنا پڑتا ہے۔

ایک بات اور کہتا چلوں پچھلے دنوں سردار جعفری آئے ان کے تازہ کلام کا ایک بڑا حصہ سن کر یہ محسوس ہوا کہ وقت کافاصلہ کتنی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ گیا ہے نقاش کو وقت کی اس رفتار کا احساس ہے وقت پر اپنی کھری ذات اور آواز کے ذریعے ہی فتح پائی جاسکتی ہے۔ خُدا کرے یہ ہتھیار ہمیشہ نقاش کے ہاتھ میں اوراس کے ساتھ رہیں۔

چاندنی اور سمندر اس مجموعے کے نام ہی سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ واضح جانبداری اور کمٹمنٹ کا شاعر ہونے کے باوجود نقاش ادبی اصطلاحوں ‘رویے اور اشاروں کی اہمیت کو پوری طرح سمجھتا ہے ۔ چاندنی علم کا اشارہ ہے اور سمندر زندگی کا یہ چاندنی اپنی ذات کے جہاز میں سوارمسافروں کے لیے زندگی کے سمندر میںسمت نما بھی ہے ۔ ایک واضح نظریہ کے اس شاعر کو ا س کے حقیقی شاعرانہ مزاج نے بیانیہ شاعری کے عذاب سے بچا لیا ہے۔ غزل سے اس کے حقیقی لگائو نے اس کی نظموں میں ارتکاز کا حسن اور قوت پیدا کردی ہے:
’ جامعہ‘ میں تجھے نسلوں کا مقدّر لکھوں‘‘ ( نذر جامعہ)
’چلے گا حلقہ یاراں میں پھر سے دور نصاب‘ ( استقبال)

اس ایک مصرع میں کسی اعلیٰ تعلیمی ادارے کی تمام تعلیمی زندگی اور سرگرمیاں سمٹ آئی ہیں یہاں علم کتابوں کا بوجھ نہیں ہے بلکہ پیار کا کاروبار ہے یہ دور ِسراب ہے۔ اور یہ علم تنہائی کی مہجوری اور زندگی سے دوری نہیں بلکہ ساتھیوںکی ہم عنائی و ہم رکابی میں معرفت حقائق کا نام ہے۔

نقاش نے اس تمہید کے لیے دو صفحات کی قید لگائی ہے ۔

۱۹۷۰ء میں جاپان جاتے ہوئے نقاش نے ایک غزل سنائی تھی اس غزل کا یہ شعر اتنے برسوںتک میری زندگی میںنقاش کی قائم مقامی کرتارہا ہے:
غمِ فراق میں آنکھیں توریزہ ریزہ ہوائیں
جو آنسو شیشہ بنے‘ ٹوٹ کر بکھر نہ سکے

آج آٹھ نو سال بعد میں نے دوبارہ یہ غزل پڑھی اور میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جدید غزل کے کسی انتخاب میں بھی یہ غزل آبرومندانہ مقام کی مستحق ہے ۔

خدا کرے نقاش کا یہ سفر جاری رہے۔

محمد جاوید خان غوری
About the Author: محمد جاوید خان غوری Read More Articles by محمد جاوید خان غوری: 8 Articles with 7221 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.