بستی میں شام کے سائے مقدر کی سیاہی کے
مانند گہرے ہو رہے تھے ۔ ِاس بستی میں ایک پُر اسرار ضعیفہ جس کا نام صابرہ
تھا گُز شتہ نصف صدی سے نہایت خا موشی سے زندگی کے دن پورے کر رہی تھی ۔
کوئی بھی اس کے دل ِشکستہ کاحال پو چھنے والانہ تھا ۔کسی کو اس کرچیوں میں
بٹی غم زدہ دُکھیا کے بارے میں جاننے کی فکر ہی نہ تھی ۔اُدھر اِس پُر
اسرار بُڑھیانے اپنے لب اظہار پراِس طرح تالے لگا رکھے تھے کہ اُس کے دل
دریا سے جو سمندر سے بھی گہر ا تھا کبھی کوئی راز کا موتی بر آمد نہ کر سکا
۔تقسیم ہند کے وقت جب مسلمان مہاجرین کے قافلے بھارت کے شہروں سے ارض
پاکستان کی جانب عازم سفر ہوئے تو وہ اپنی دنیا کو وہیں چھوڑ کو ایک نئی
دنیا بسانے کی موہوم تمنا دل میں لیے دامن جھاڑ کر گھر سے نکلے ۔صابرہ اپنے
شو ہر ساس ،ماں باپ ،بہن بھائیوں کے ہم راہ اپنے خوابوں کی سر زمیں کی جانب
چل پڑے ۔یہ سفر صابرہ کے پورے خاندان کے لیے بہت جان لیوا اور صبر آزما
ثابت ہوا ۔امرتسر کے قریب بلوائیوں نے پورے خاندان کو ابدی نیند سلا دیا
اور ان نہتے مہاجرین کی سب جمع پو نجی لوٹ کر بھاگ گئے ۔صابرہ اس وقت اپنے
دو کم سن بچوں کے ہم راہ نزدیکی کماد کے کھیت میں رفع حاجت کے لیے گئی تھی
۔جب وہ واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کی امیدوں کی فصل کو غارت کر کے خون
میں نہلا دیا گیا تھا۔اس نے اپنے خاندان کے ان بے گور و کفن لاشوں کو بے
بسی اور حسرت کے عالم میں دیکھا اور تنہا ارض پاکستان کی جانب قدم بڑھا ئے
۔ایک سال کا بیٹا سلیم اس کی گود میں تھا اور چار سال کی بیٹی جانم پیدل چل
رہی تھی ۔بیس سال کی عمر میں بیوگی کی چادر اوڑھے صابرہ نے اپنے دو بچوں کے
روشن مستقبل کے خواب دیکھے اور اپنے خوابوں کی سر زمیں کی جانب تنہا زندگی
کے ایک انتھائی کٹھن ،مشقت طلب اور صبر آزما سفر پر چل نکلی ۔وہ یہ نہیں
جانتی تھی کہ یہ سفر تو افتاں و خیزاں کٹ ہی جائے گا مگر اس پر خار راہ پر
چلتے ہوئے اس کی روح زخم زخم ہو جائے گی ،پورا وجود منہدم ہو جائے گا اور
دل کرچیوں میں بٹ جائے گا۔
ارض ِپاکستان پر پہلا قدم رکھتے ہی اسے راحت و اطمینان کے ساتھ ساتھ یہ
احساس بھی ہوا کہ اس نے سب سے پہلے اس پاک سر زمین پر اپنی پیشانی کیوں نہ
رکھی ۔ واہگہ سے گزر کر عذاب در بہ دری سہتے سہتے اور پناہ گزینوں کے عارضی
کیمپوں میں چند ہفتے گزارنے کے بعدوہ ہیر کی سر زمین جھنگ پہنچی ۔ہیر کی
داستان محبت اس نے سن رکھی تھی اور اس کی زندگی اور پیمان وفا سے اسے گہری
دلچسپی تھی ۔جھنگ پہنچ کر اس نے کرائے کے ایک مکان میں قیام کیا اور قالین
بافی کی تربیت حاصل کی ۔متمول گھرانوں میں کام کر کے اس نے اپنے اور اپنے
بچوں کے لیے رزق حلال کا انتظام کر لیا ۔اسے اس بات کا قلق تھا کہ مفاد
پرست استحصالی عناصر نے اپنے مکر کی چالوں سے بے بس انسانیت کی زندگی کی
تمام رتوں کو بے ثمر کر دیا ہے۔بیس سال کی عمر میں بیوہ ہو جانے کے بعد
صابرہ نے اپنی تنہائیوں اور دکھوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا اور اپنے دو بچوں
کے سہارے زندگی کا سفر طے کرنے کی ٹھان لی ۔ شام ہوتے ہی وہ اپنے بیٹے کو
اپنی آغوش میں لے کر درد بھری آواز اور پُر نم آنکھوں سے روزانہ یہ لوری
دیتی ،جسے سن کر پڑویوں کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں ۔اس کی پر درد اور پُر
سوز آواز میں یہ لوری سن کر خواتین دل تھا م لیتیں :
راج دلارے !تو ہے دل میں بساؤں ،توہے گیت سناؤں
گیت سناؤں او!میری اکھیوں کے تارے میں توواری واری جاؤں
صابرہ کا بیٹا سلیم ایک خوب صورت بچہ تھا ۔صابرہ کی دن بھر کی مصروفیت اور
برقی کھڈیوں میں رات کی محنت مزدوری کے باعث کے باعث بچوں کی تعلیم و تربیت
پر اس کی توجہ نہ رہی ۔اس کے باوجود وہ اپنے بیٹے سے ٹوٹ کر محبت کرتی
۔گرمیوں کی راتوں میں وہ اپنے کمرے کی چھت پر سوتی اور اپنے بچے کو تھپکی
دے کر اسے سلانے کی کوشش کرتے ہوئے اسے کہتی :
سارے جہان پر پھیلی ہے چاندنی تیرے مُکھڑے کے آگے میلی ہے چاندنی
تاروں کا روپ تو پہلے ہی ماند ہے چندا کو میں کیا جانوں تُو میرا چاند ہے
اپنے چاند سے بچوں کا مستقبل سنوانے کے لیے اس نے اپنا حال داؤ پر لگا دیا
۔وہ کسی کو اپنے دل کا حال نہ سناتی اور دل ہی دل میں حالات کی سفاکی اور
معاشرتی زندگی کی شقاوت آمیز نا انصافیوں پر کڑھتی رہتی۔اپنے آنسو اپنی سد
ا بہار مسکراہٹ کے دامنوں میں چھپا کر وہ زندگی کے دن پورے کررہی تھی۔
آبادی کی تقسیم کا انقلاب آتے ہی حالات کی کایا پلٹ گئی الاٹوں پلاٹوں کی
بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر چھوٹے لوگ بڑے بن بیٹھے منزل پر ان ابن الوقت
عناصر نے غاصبانہ قبضہ کر لیا جو سرے سے شریک سفر ہی نہ تھے ۔اس کا نتیجہ
یہ نکلا کہ اجالا داغ داغ اور سحر شب گزیدہ ہو کر رہ گئی۔ صابرہ نے برقی
کھڈیوں کے بیم میں دھاگہ بھرنے میں مہارت حاصل کی اور اس طرح قالین بافی
،بیم بھرنے اور گھروں میں کام کرنے سے اسے معقول آمدنی ہو جاتی ۔1950تک اس
نے اپنا پیٹ کاٹ کر اتنی رقم جمع کر لی کہ شہر کے مضافات میں ایک کچی آبادی
میں دس مرلے کا ایک رہائشی پلاٹ خرید لیا اور اس میں سر چھپانے کا جھونپڑا
تعمیر کر کے یہیں آ بسی۔اس نے پلاٹ دو حصوں میں بانٹ دیا آدھا بیٹی کے نام
اور باقی آدھا اپنے بیٹے کے نام کر دیا ۔اس زمانے میں یہاں زمین کا بھاؤ
ایک سو روپے مرلہ تھا اور معمار کی مزدوری دو روپے یومیہ تھی جب کہ دن بھر
خون پسینہ ایک کرنے کے بعد مزدور کو ایک روپیہ دیکھنا نصیب ہوتا تھا ۔اب
2013 میں اس مقام پر دو لاکھ روپے فی مرلہ میں بھی رہائشی پلاٹ دستیاب نہیں
۔ایک مرتبہ صابرہ سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے بتایا :
’’پرانا زمانہ اچھا تھا ۔اتنی مہنگائی نہ تھی بجلی کے بل کی رقم پانچ روپے
ماہانہ سے زیادہ نہ تھی ،ایندھن دو روپے من ،آٹا پندرہ ر وپے من ،چینی دو
روپے فی کلو اور جھنگ شہر سے نئے شہر تک کرایہ تانگے والا دو آنے وصول کرتا
تھا ۔اب تو تانگے نہیں رہے رکشا والا جھنگ شہر سے سول ہسپتال تک فی سواری
تیس روپے لیتا ہے ۔آٹا پچاس روپے فی کلو تک جا پہنچا ہے ۔اب میرے گھر کی
بجلی خراب ہے ایک بلب بھی نہیں مگر بل پھر بھی ایک سو روپے آجاتا ہے ۔‘‘
پرِ زمانہ تو پرواز نُور سے کہیں زیادہ تیز ہے ۔وقت گزرتا رہا اور صابرہ کے
دونوں بچے اب جوانی کی حدود میں قدم رکھ چکے تھے ۔اگرچہ وہ تعلیم تو حاصل
نہ کر سکے لیکن وہ ہنر سیکھ چکے تھے ۔سلیم نے برقی کھڈیاں چلانے میں مہارت
حاصل کی اور وہ یومیہ تیس روپے کما لیتا تھا ،جانم نے ماں کی طرح قالین
بافی اور برقی کھڈیوں کے بیم بھرنے کا فن سیکھا اور اس طرح وہ بھی اپنی
محنت سے یومیہ بیس روپے کما لیتی ۔صابرہ کے دونوں بچے بڑے نیک ،سعادت مند
اور محنتی تھے۔۔1965میں اس نے اپنے دونوں بچوں کی شادی کر دی ۔یہ وٹے سٹے
کی شادی تھی،جانم کے شو ہر کی بہن شباہت جو سلیم کی بیوی بنی بڑی سبز قدم
ثابت ہوئی ۔اس کے آتے ہی صابرہ کے گھر کے در و دیوار پر حسرت و یاس ،ذلت و
تخریب ،نحوست و بے برکتی ،بے ضمیری اور بے غیرتی ،فحاشی اور بد معاشی
،اخلاق باختگی اور جسم فروشی کے کتبے بد نصیبی کی صورت میں آویزاں ہو گئے ۔
دن کو بھی اس مکاں میں شب کی سیاہی کا سماں ہوتا ۔شباہت ایک جسم فروش رذیل
طوائف تھی ،اس نے عقل و خرد اور شرم و حیا کو گھر سے بارہ پتھر کر دیا ۔اس
کی بے راہ روی ،جنسی جنوں اور اخلاق باختگی کا یہ عالم تھا کہ وہ نہایت
ڈھٹائی سے سر عام راہ گیر نو جوانوں کو دعوت گناہ دیتی اور ان سے دولت
ہتھیا کر جی بھر کر عیاشی کرتی ۔رفتہ رفتہ اس نے اپنے شو ہرکو بھی اپنے رنگ
میں رنگ لیا اور اسے منشیات کا عادی بنا دیا ۔ منحوس شباہت کی بد اعمالیوں
کے باعث صا برہ کا گھر عقوبت خانے ،قحبہ خانے اور چنڈو خانے کا منظر پیش
کرتا تھا ۔ ہر شام سلیم کے گھر محفل ناؤ نوش کا اہتمام ہوتا اور سب مست بند
قبا سے بے نیاز شب بھر داد عیش دیتے۔ اب تو صابرہ کے صبر کا پیمانہ بھی
لبریز ہو گیا اور اہلیان علاقہ بھی اس ڈھڈو کُٹنی،رذیل جسم فروش طوائف
شباہت کے قبیح کردار سے عاجز آ گئے ۔صابرہ نے اپنی بہو کو راہ راست پر لانے
کے بہت جتن کیے مگر شباہت ٹس سے مس نہ ہوئی ۔شباہت کی شادی کو پانچ سال بیت
گئے مگر اس نے اپنے گھر کے آنگن میں کوئی پھول کھلنے ہی نہ دیا ۔دوسری طرف
جانم اپنے تین کم سن بچوں کے ہم راہ اپنے سسرال میں ہنسی خوشی زندگی گزار
رہی تھی ۔جب بھی طلوع صبح بہاراں کی کوئی امید پیدا ہوتی بد اندیش حرافہ
شباہت سب کچھ ملیا میٹ کر کے تلف کر دیتی اور بڑھیا صابرہ کی شاخ تمنا کے
ہری ہونے کا امکانات معدوم ہو جاتے ۔صابرہ اس انہونی پر خاصی دل گرفتہ اور
دل برداشتہ تھی ۔اب تو اس کا بیٹا سلیم بھی اپنی بیوی کا ہم نوا بن گیا تھا
۔بڑھیا کی پے در پے روک ٹوک اور پند و نصائح شباہت کی عیش پسند طبیعت پر
ناگوار گزرے ۔ایک شام اس نے گھر کے سارے زیور اور رقم سمیٹی اور اپنے
دیرینہ آشناؤں رنگو اور آسو کے ہم راہ اپنے میکے جا پہنچی ۔
اگلے دن جانم بھی اپنی ماں کے گھر چلی آئی ۔بیٹی کااچانک روٹھ کر میکے
آجانا صابرہ کو سخت ناگوار گزرا۔اس نے اپنی بیٹی سے مخاطب ہو کر کہا : ’’تم
کس لیے اپنے تین بچوں کو چھوڑ کر یہاں آ گئی ہو ؟‘‘
’’میں روٹھ کر آئی ہوں ۔‘‘جانم نے روتے ہوئے کہا’’جب میرے وٹے والی شباہت
میرے بھائی کا گھر آباد نہیں کرتی تو میں بھی اس کے بھائی کے گھر کو آبا د
نہیں کروں گی ۔‘‘
’’لڑکی !تمھار دماغ تو نہیں چل گیا؟‘‘صابرہ نے غیظ و غضب کے عالم میں اپنی
بیٹی سے کہا’’تم میں اور شباہت میں زمین اور آسمان کا فرق ہے ۔اب زندگی بھر
کبھی اپنا گھر اجاڑ کر ادھر آنے کی کوشش نہ کرنا ۔تمھارے حصے کے پانچ مرلے
بیچ کرمیں نے تمھاری شادی کی ہے اب باقی کے پانچ مرلے سلیم کے ہیں ۔‘‘
جانم زارو قطار رونے لگی اور بولی ’’میں کچھ لینے نہیں آئی ،اب اس ضعیفی کے
عالم میں تمھاری خدمت کرنے والا کوئی نہیں ۔‘‘
’’ ہمارا اﷲ حافظ ہے ‘‘ صابرہ نے کہا’’ابھی اپنے بچوں کے پاس چلی جاؤ اور
اس کے بعد بچوں کو چھوڑ کر کبھی گھر سے باہر قدم نہ رکھنا۔میں ہر عید اور
قربانی کے مو قع پر خود تم سے ملنے تمھارے گھر پہنچ جاؤں گی۔رہ گیا سلیم تو
اگر اس نے بُری صحبت اور منشیات سے جان چُھڑا لی تو اس کا گھر بھی بس جائے
گا ۔‘‘
شباہت نے عدالت سے خلع حاصل کرنے کے بعد پسند کی شادی کر لی اور اس کے بچے
بھی ہو گئے ۔اس کے باوجود صابرہ نے اپنی بیٹی جانم کو اپنے سسرال میں خوش
رہنے کی نصیحت کی۔
سلیم کو ناگن شباہت نے ڈس کر نیم جاں کر دیاتھا ۔شباہت کے خلع حاصل کرنے کے
بعد سلیم سنبھل نہ سکا اور وہ مکمل طور پر منہدم ہو کر رہ گیا۔اگر چہ وہ
بُری صحبت اور منشیات سے تائب ہو چکا تھا لیکن شباہت نے مسلسل پانچ برس اسے
جس ڈگر پر چلایا اس کے مسموم اثرات سے سلیم کا وجود کرچیوں میں بٹ گیا ۔ا س
کے پھیپھڑے اور گُردے کثرت مے نوشی سے شدید متا ثر ہوئے اور وہ مستقل طور
پر بستر سے لگ گیا ۔صابرہ اپنے نوجوان بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر خون کے
آنسو روتی ۔اب تو وہ چلنے پھرنے سے بھی معذور تھا ۔اسے اس حال میں دیکھ کر
روتے روتے صابرہ کی ہچکی بندھ جاتی اور وہ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق
گردانی کرتے ہوئے گلو گیر لہجے میں اپنے اکلوتے بیٹے سلیم کے گھر کے اُجڑنے
اور زندگی برباد ہونے پر دل گرفتہ رہتی مگر اپنے غم کا بھید کبھی کھلنے نہ
دیتی ۔اس سانحے نے اس ضعیفہ کو زندہ در گو ر کر دیا تھا۔اب و ہ سانس گن گن
کر زندگی کے دن پورے کر رہی تھی ۔ جس طرح دیمک لگ جانے سے ایک نخل تناور
اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے اور بالآخر زمین بوس ہو جاتا ہے اس کی شاخیں
ایندھن کے لیے کٹ جاتی ہیں۔ بالکل اسی طرح جب کسی انسان کے دل میں غم و
اندہ کا مستقل بسیرا ہو جاتا ہے تو یہ رنج اس کی جان لے کر ہی نکلتا ہے
۔سلیم کی زندگی ،گھر ،صحت اور امیدوں کو بھی ڈائن شباہت نے ویران کر دیا
۔1972کی ایک شام سلیم زینہء ہستی سے اتر گیا اور صابرہ اب اس بھری دنیا میں
تنہا رہ گئی ۔سلیم کا جنازہ تیار تھا بستی کے سب لوگ گریہ و زاری میں مصروف
تھے ۔نوجوان سلیم کے چاروں طرف گلاب کے پھول ہی پھول تھے ۔ایسا محسوس ہوتا
تھا کہ قسمت سے محروم یہ نوجوان پھلوں کی سیج پر آرام کر رہا ہے ۔ صابرہ
اپنے بیٹے کوبچپن میں اکثر یہ لوری دیتی تھی:
پھولوں کی سیج پہ تجھ کو سلاؤں میں کرنوں کا تاج تیرے سر پہ سجاؤں میں
امی کے باغ کا تو البیلا پھول ہے کلیوں کا روپ تیرے قدموں کی دُھول ہے
صابرہ نے اس عالم پیری میں بھی مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ۔وہ
محنت مزدوری کر کے اپنے لیے رزق حلال کماتی ۔2013کا نومبر کا مہینہ تھا ،
جمعہ کا دن تھا میں گلی سے گزرا تو عورتوں کے رونے کی آواز آ رہی تھی ۔سب
لوگ زارو قطار رو رہے تھے ،معلوم ہوا کہ صابرہ بی بی نے اس دھوپ بھری دنیا
سے منہ موڑ کر عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا ہے ۔جانم اور اس کے
سسرالی رشتے دار پہنچ چکے تھے ۔شباہت کے ساتھ رنگو اور آسو بھی مگر مچھ کے
آنسو بہا رہے تھے ۔پاس ہی کھڑے سیالوی صاحب نے روتے ہوئے کہا:
’’ صا برہ تو اسی روز فوت ہو گئی تھی جب جب سلیم کو لحد میں اتارا گیا تھا
۔سلیم اور صابرہ کو شباہت ، رنگو اور آسو نے موت کے دہانے تک پہنچا دیا تھا
۔چیرہ دستوں کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ فطرت کی تعزیریں نہایت
سخت ہیں ۔سو برس کے سامان کے باوجود کسی کو پل کی خبر نہیں ۔‘‘
صابرہ کا پڑوسی یامین ایک عبادت گزار ،خدا ترس ،پارسا اور نیک پڑوسن کی
وفات پر شدید صدمے کے عالم میں تھا ۔اس نے شباہت ، رنگو اور آسو کو اس
خاندان کی بربادی کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا:
ہم تو چُپ ہیں کہ ہمیں مارنے والے تم ہو خیر مانگو کہ زمانے کے حوالے تم ہو
|