ا نسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے۔اسے
دماغ دیا۔اور وہ اپنے دماغ سے بہت سی فائدہ مند اور کچھ نقصان دہ ایجادات
کا موجد ٹھہرا۔
آج کے دور میں تقریباٌ ہر ایک چیز کے لیے ـ’نمبر ۲ـ‘ کا لفظ استعمال ہوتا
ہے۔یعنی اصلی چیز کی نقل ۔یہ کام پاکستان میں خصوصاٌ تیزی سے ترقی کر رہا
ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز سے لے کر بڑے سے بڑے کاموں میں‘ نمبر ۲‘ اپنی اصل
سے زیادہ مشہور ہے۔آپ مانیں یا نہ مانیں مگر یہ حقیقت ہے۔کہ ہم نمبر ۲ کے
عادی ہو چکے ہیں، کوئی بھی اصلی چیز ہمیں موافق ہی نہیں آاتی۔ حلال کی
کمائی سے اس دور میں اول تو نبر ۱ چیز ملتی ہی نہیں۔اور اگر مل جائے۔ تو اس
کمائی میں اتنا دم نہیں کہ اسے خرید سکے، اور فرض کریں تھوڑی سی مل بھی
جائے تو ہمارے معدے اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ ۔
بات چلی تھی انسانی دماغ سے۔ انسان کا دماغ کہاں کہاں نہیں چلتا۔ اب
دیکھیئے۔ کل ہم حسب عادت فراغت کے لمحات کو ٹی ۔ وی کے ساتھ گزارنے کے لیے
چینل بدل بدل کے دیکھ رہے تھے۔ کہ ڈان نیوز چینل پر ایک پروگرام نے ہمارے
ہاتھ کو مذید حرکت دینے سے روک دیا۔ یہ تو پتا نہیں کتنا پروگرام گزر چکا
تھا۔ ہاں مگر جتناحصہ بھی دیکھنے کو ملا اسی نے ہمارے ہوش اڑا دیئے۔
لی صاحب جو پروگرام پیش کر رہے تھے۔اور ان جگہوں پر جا کر دکھا رہے تھے
جہاں جانوروں کے دانتوں کو انسانی دانتوں کی شیپ میں ڈھالا جاتا ہے۔علی
صاحب نے وہاں کام کرنے والوں سے اس کام کے بارے میں تفصیل پوچھی تو جن
حقائق سے انھوں نے پردہ اٹھایا۔وہ سن کر ہمارے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
بتایا گیا۔ کہ کئی ڈنٹسٹ یعنی دندان ساز جنہیں دانتوں کا ڈاکٹر کہتے ہیں۔وہ
ان جانوروں کے دانت خرید کر لے جاتے ہیں۔اور پھر اپنے مریضوں کے منہ میں فٹ
کر دیتے ہیں۔ یعنی چند روپوں کی خاطر وہ ا نسانی منہ میں جانوروں کے دانت
لگا کر انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔
کون کون اس ڈاکٹر کا شکار بنا۔کس کس کے منہ میں کسی جانور کے دانت ہیں ؟ ہم
میں سے کوئی نہیں جانتا۔بس ہزاروں روپے دے کر خوشی خوشی نئے دانت لگوا لیتے
ہیں۔اور یوں جوان اپنے باقی دانتوں کو محفوظ کرتے ہیں۔ اور عمر رسیدہ اپنی
جاتی ہو ئی جوانی کو کچھ دیر اور اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس
بات سے بے نیاز کہ جن دانتوں سے کھا کر ہم زندہ ہیں۔ وہ کس جانور کے
ہیں۔آیا کتے کے ہیں یا گدھے کے،لومڑی کے ہیں یا بکرے کے۔اور یہ کہ حلال
جانور کے ہیں یا حرام کے۔بس شکر ہے زندہ ہیں۔
گوشت کو تو حلال اور حرام کی بنا پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پر دانتوں کے اس
معاملے پر کیا فتویٰ لگنا چاہیے۔ سوچیے۔ (علما کو دعوت عام) ہر چیز میں
ملاوٹ کے قصے ہر روز منمیں جانوروں کے دانت لگا کر انسانیت کی خدمت کرتے
ہیں۔
کون کون اس ڈاکٹر کا شکار بنا۔کس کس کے منہ میں کسی جانور کے دانت ہیں ؟ ہم
میں سے کوئی نہیں جانتا۔بس ہزاروں روپے دے کر خوشی خوشی نئے دانت لگوا لیتے
ہیں۔اور یوں جوان اپنے باقی دانتوں کو محفظ کرتے ہیں۔ اور عمر رسیدہ اپنی
جاتی ہو ئی جوانی کوکچھ دیر اور اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس
بات سے بے نیاز کہ جن دانتوں سے کھا کر ہم زندہ ہیں۔ وہ کس جانور کے
ہیں۔آیا کتے کے ہیں یا گدھے کے،لومڑی کے ہیں یا بکرے کے۔اور یہ کہ حلال
جانور کے ہیں یا حرام کے۔بس شکر ہے زندہ ہیں۔
گوشت کو تو حلال اور حرام کی بنا پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پر دانتوں کے
حرامی پن پر کیا فتویٰ لگنا چاہیے۔ سوچیے۔ (علما کو دعوت عام) ہر چیز میں
ملاوٹ کے قصے ہر روز منظر عام پرآتے ہیں۔ مگر جانوروں کے دانتوں کی ملاوٹ
کا سن کر نہ صرف رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ بلکہ سوچ کر ہی گھن آتی ہے۔
کون اس کاذمے دار ہے؟ کس نے اس بات کا نوٹس لینا ہے ؟علی صاحب کا کہنا تھا۔
کہ ہم اس بات کے لیے ہیلتھ سکٹریری کے پاس گئے۔تو ان کے پاس ہمارے لیے ٹائم
نہیں تھا۔اب آپ بتائیے۔کس کے پاس جایا جائے؟کون اس غلیظ کام کو روکے گا؟اگر
ہیلتھ سکٹریری کے پاس ٹائم نہیں تو پھر کس کے پاس ہے ؟کیا ہم انہی دانتوں
کے ساتھ زندہ ر ہنے پر راضی ہیں؟ سوچیے گا ضرور۔ ۔ ۔ ۔
دانتوں کے بارے میں بڑے لاجواب محاورات ہیں۔ جیسے دانت کھٹے کرنا،،انگلیاں
دانتوں تلے دبانا،،ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور،،وغیرہ
وغیرہ۔۔اس خبر کے بعد انسانی دانتوں کے بارے میں یوں محاورے بن سکتے ہیں۔
انسان کے دانت اپنے اور جانور کے اور۔،یایہ منہ اور جانور کے دانت۔۔۔۔خیر
یہ تو ایک چھوٹا سا مذاق تھا۔مگر یہ بات غور طلب ہے۔ کہ اس معاملے پر ایکشن
کیوں نہیں لیا گیا۔۔کیا انسان اس قابل ہے؟۔۔ |