” قال اصحاب موسیٰ انالمد
رکون۔قال کلا ان معی ربی سیھدین ۔۔۔۔ ثم اغرقنا الاخرین “ (۳۸)
اصحاب موسیٰ نے کہا کہ اب تو ہم گرفت میں آجائیں گے۔ موسیٰ نے کہا ہرگز
نہیں ہمارے ساتھ ہمارا پروردگار ہے وہ ہماری رہنمائی کرے گا۔۔ پھر باقی
لوگوں کو غرق کردیا۔
ایک مقام پر بطور کلی ارشاد ہوتا ہے : ” فکلا اخذ نا بذنبہ فمنھم من ارسلنا
علیہ حاصبا و منھم من اخذتہ الصیحة و منھم من خسفنا بہ الارض و منھم من
اغرقنا “(۳۹) پھر ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ میں گرفتار کرلیا کسی پر
آسمان سے پتھروں کی بارش کردی کسی کو ایک آسمانی چیخ نے پکڑ لیا اور کسی کو
زمین میں دھنسا دیا اور کسی کو پانی میں غرق کردیا۔
لیکن جب توحیدی طاقتیں خود کو طاقتور محسوس کرتیں اور دشمن پر غلبہ پانے کا
امکان ہوتا تو وہ مقاصد رسالت کی تکمیل خدا خواہوں کے راستے کو ہموار اور
ان کے سامنے سے رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے ہتھیار اٹھانے میں پس و پیش
نہیں کرتی تھیں۔ ایسے موقع پر شرک و ائمہ شرک کے وجود کو برداشت نہیں کیا
جاتا تھا، جیسا کہ طالوت و جالوت، سلیمان و ملکہ٬ سبا، موسیٰ علیہ السلام و
عما لقہ کے واقعات میں تفصیل سے موجود ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون
کے مقابلے میں ہتھیار نہیں اٹھایا وہ عالم مجبوری میں مصر سے ہجرت کے ارادے
سے اپنی قوم کو لے کر دریائے نیل کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن جب عما لقہ شام کے
مقابلے میں اپنے کو طاقتور محسوس کیا تو ان پر حملہ کرنے سے گریز نہ کیا۔
مختصر یہ کہ ایک مسلم الثبوت حقیقت ہے کہ انبیاء علیہم السلام ما سلف کی
زندگی میں جنگ و جہاد دونوں کی سنت موجود تھی ’‘وکاٴیّن من نبی قاتل معہ
ربیون کثیر۔۔۔۔۔۔۔ “ (۴۰) اور بہت سے ایسے نبی گزر چکے ہیں جن کے ساتھ بہت
سے اللہ والوں نے اس شان سے جہاد کیا ہے کہ راہ خدا میں پڑنے والی مصیبتوں
سے نہ کمزور ہوئے اور نہ بزدلی کا اظہار کیا اور نہ دشمن کے سامنے ذلت کا
مظاہرہ کیا ۔ |