بیت الحکمت، بغداد:
اسلامی تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے مسلمانوں نے شروع ہی سے
علم کی شمع روشن کر کے رکھی اوراس کی آواز مشرق سےمغرب تک پہنچ گئی ۔بغدا
جو کہ علم کا سمند رتھا یہاں دوسرے ممالک کے لوگ علم کی شمع بجھانےآتے تھے-
خلیفہ المنصور نے(۷۵۰ء میں)جب بغداد شہر کی بنیاد رکھی تو ساتھ ہی ایک
دارلترجمہ بھی قائم کیا جس کا مقصد قدیم ایرانی، عبرانی، مصری اور شامی
زبانوں کے مسودات کو عربی زبان میں منتقل کرنا تھا.
ھارون الرشید (٨٠٩-٧٨٦) کے دور میں اس ادارے کو مزید فروغ دیا گیا اور
ہندوستانی، یونانی اور رومی زبانوں کے مسودات کے تراجم کا نیا سلسلہ شروع
ہوا،
لیکن یہ خلیفہ المامون (۸۳۳-۸۱۳) تھا جس نے اس ادارے کو یہاں تک ترقی دی کہ
اس نے بنی نوح انسان کی تاریخ کو بدل ڈالا، المامون نے اس ادارے کی معاشی
مراعات میں کئی گنا اضافہ کیا، ایک بہت بڑی عمارت اس مقصد کے لیۓ تعمیر کی
گئی، مورخین کا کہنا ہے کہ یہ عمارت بزات خود فن تعمیر کا ایک نادر شاہکار
تھی، اس کو قیمتی قالینوں، دبیز ریشمی پردوں اور رات کے وقت کام کے لیۓ
فانوسوں اور قندیلوں سے مزین کیا گیا.
اپنی نویت کے لحاظ سے یہ دنیا کا پہلا ایسا علمی منصوبہ تھا جس کو مکمل
سرکاری سرپرستی حاصل تھی،اس کی ضروریات کی تکمیل کے لیۓ خطیر رقم مختص تھی،
انتہائی قابل افراد کو اس ادارے کے لیۓ منتخب کیا جاتا، اور قابلیت کے
سامنے مذہب اور عقیدے کی قید نہ تھی، عیسائی، ہندو، اور پارسی ارکان نے اس
ادارے کے لیۓ گراں بہا خدمات سر انجام دیں، جن کو بغداد کے کثیر تہزیبی
ماحول میں خصوصی مرتبہ دیا جاتا.
المامون کے دور میں اس کو مختلف شعبوں میں تقسیم کیا گیا تھا، جس میں رصد
گاہ، ہسپتال اور طبی تحقیق کا شعبہ،ریاضیات،کیمیا، جغرافیہ اور فلکیات کا
شعبہ اور سائنس اور فلسفے کی تربیت گاہ جس میں دنیا بھر سے آۓ طالب علموں
کی تعلیم و تربیت کا انتظام تھا، دنیا بھر سے ماہرین کو یہاں یکجا کیا گیا
تھا،اور جز وقتی امور کے لیۓ بھی ماہرین کو مدوع کیا جاتا، اطراف عالم کو
مختلف وفود روانہ کیے جاتے جو قیمتی اور نایاب مسودات ڈھونڈ کر لا تے جن کو
دارلترجمہ میں عربی زبان میں منتقل کیا جاتا.
اگر یہ ادارہ نہ ہوتا تو آج ہم قدیم یونانی،ایرانی، اور مصری علوم سے واقف
نہ ہوتے، آج ہم زیادہ سے زیادہ ارسطو، افلاطون، اور ارشمیدس کے ناموں سے ہی
واقف ہوتے کیونکہ اسی ادارے میں ان یونانی علماء کی تخلیقات کا ترجمہ کیا
گیا اور آج بھی ارسطو اور افلا طون کی تخلیقات کا ماخذ یہی ترجمہ شدہ
مسودات ہیں.
لیکن یہ کام صرف ترجمے تک محدود نہ تھا بلکہ یہ قدیم علوم کا تفسیری اور
تنقیدی احیاء تھا، غلط نظریات کو نئی تحقیقات کی روشنی میں رد کیا جاتا اور
جدید نظریات کی تشکیل ہوتی،
مختلف شعبہ جات سے اپنے وقت کی نابغہ روزگار اور عہد ساز شخصیات وابستہ
رہیں، الخوارزمی نے اسی ادارے میں بیٹھ کر الجبرا اور لوگرتھم کے فن کی
بنیاد رکھی اور ریاضی میں "صفر "کے عدد کا تصور پیش کیا جس کا ماخذ قدیم
ہندوستانی علوم کے عربی تراجم تھے ، ابن الہثم نے روشنی پر اپنے نظریات اور
تجربات یہیں مکمل کیے،سب سے پہلی تقویم جو عباسی سلطنت میں رائج کی گئی اور
دنیا کا سب سے جامع اور مفصل ترین نقشہ یہیں بنا، بنو موسی برادرز نے یہیں
علم مکینیات پر ایک کتاب لکھی جس میں سو مشینوں کا نقشہ اور کام باتصویر
دکھایا گیا جس سے فن تعمیر میں انقلابی تبدیلیاں آئیں،
مستشرقین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بیت الحکمت اپنے وقت میں دنیا کی سب سے
بڑی لائبریری سب سے بڑا ریسرچ سنٹر سب سے جدید رصد گاہ اور پہلی بین
الاقوامی یونیورسٹی تھی، اور اس طرح یہ آٹھویں صدی سے تیرھویں صدی تک دنیا
کا سب سے بڑا تعلیمی، تحقیقی، اور تہزیبی مرکز تھا.
یہاں کتنے بڑے پیمانے پر کام کیا گیا اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ
جب ہلاکو خاں کی فوج نے (۱۲۵۸ءمیں) بغداد کو تاراج کیا تو نصیرالدین طوسی
چار لاکھ مسودات کو بچا کر لے جانے میں کامیاب ہوا لیکن یہ کل مسودات کا
ایک فیصد بھی نہ تھا.
مستشرق مورخ لین پول کا یہ جملہ کربناک بھی ہے اور عبرت ناک بھی" دریائے
دجلہ کا پانی پہلے انسانی خون سے سرخ ہوا اور پھر ان مسودات کی سیاہی سے
سیاہ ہو گیا جو وحشی تاتاریوں نے اس میں پھینکے
کتابیات
١۔تاریخ اسلام جلد سوم شاہ معین الدین ندوی،
٢۔تاریخ ابن کثیر اردو ،عماالدین ابن کثیر
٣۔تاریخ تہذیب وتمدن ،خالد اسماعیل۔
٤۔تاریخ طبری ،ابن جریر طبری
٥۔تاریخِ اسلام،امتیاز پراچہ۔ |