بچے کا ایمان مضبوط کرنے کے لئے ماں کو چاہیئے کہ کوشش
کرتی رہے ۔بچہ بڑا ہو گیا اور اس کو کوئی ڈرانے کی بات آئے تو کبھی کتا،
بلی یا جن بھوت سے نہ ڈرائیں ، بلکہ جب بھی کوئی بات ہوتو بچے کے ذہن میں
اﷲ کا تصور ڈالیں ۔ ـ" بیٹاــــ! اگر تم ایسا کرو گے تو اﷲ ناراض ہو جائیں
گے " ۔ جب ماں بچے کو پیار سے سمجھائے گی تو بچہ پوچھے گا کہ "اﷲ کون ہے" ؟
۔ اس طرح ایک ماں کو اﷲ رب العزت کا تعارف کروانے کا موقع مل جائے گا۔ لہذٰ
آپ تعارف کروائیں کہ اﷲ رب العزت وہ ہیں جس نے آپ کو دودھ عطا کیا۔ اﷲ
تعالیٰ وہ ہے جس نے آپ کو سماعت و بصارت دی ، جس نے آپ کو عقل عطا کی ، جس
نے مجھے بھی پیدا کیا اور آپ کو بھی پیدا کیا۔ ہم سب اﷲ کے بندے ہیں ۔ جب
آپ اﷲ کی ایسی تعریفیں کریں گی اور اس کے انعامات کا تذکرہ کریں گی تو بچپن
ہی سے بچے کے اندر اﷲ رب العزت کی محبت اور جنت میں جانے کا شوق پیدا ہو
جائے گا کہ ہم جنت میں کب جائیں گے؟لہذٰ ہر ماں کو چاہیئے کہ اپنے بچے کے
اندر نیکی کے اثرات ڈالے اور اس کے دل میں اﷲ تعالیٰ کا ایمان مضبوط کرے
اور صبر سے کام لے۔
بچے کی ذرا سی غلطی پر ڈانٹ ڈپٹ کرنا اچھی ماؤں کی عادت نہیں ہوتی ۔ بچے کو
عزت کے ساتھ سمجھائیں ، اگر آپ نے عزت کے ساتھ ڈیل کیا تو بچے کے اندر اچھی
شخصیت پیدا ہو گی اور اگر بات پر ڈانٹنا شروع کر دیا تو بچے کی صفات کھل
نہیں سکیں گی، اس کی شخصیت میں کبھی قائدانہ صفات نہیں پیدا ہوں گی ، اس
لئے بچے کی اولین تربیت کرنا ماں کی اولین ذمہ داری ہے ۔ اگر بچے سے کوئی
غلطی ہو جائے یا نقصان وہ جائے تو اسے پیار سے سمجھائیں اور صبر و ضبط سے
کام لیں ۔ اس طرح بچے آپ کو اپنا نگہبان سمجھیں گے، سرکا سایہ سمجھیں گے کہ
میری مان میرے عیبوں کو چھپاتی اور میرا ساتھ دیتی ہے۔بچپن میں جب ماں اپنے
بچوں کی ہمدردو غمگسار بنے گی تو بڑے ہو کر یہی بچے آپ کا دکھ بانٹیں گے
اور آپ کی خدمت میں پوری زندگی گزار دیں گے۔اس طرح اپنے بچے کے اندر شخصیت
کی عظمت پیدا کریں اور ان کے دل میں اﷲ رب العزت کی محبت پیدا کریں ۔ اسی
طرح جب بچوں کی توجہ اﷲ کی نعمتوں کی طرف دلائیں گی تو بے اختیار ان کے دل
میں ایمان مضبوط ہوگا۔ یعنی اچھی ماؤں کی یہی صفات ہوتیں ہیں کہ وہ ہر بات
میں نکتے نکال کر بچوں کی توجہ اﷲ تعالیٰ کی ذات اور نیکی کی طرف مائل کرتی
ہیں۔اسی کا نام اچھی تربیت ہے ۔
جب بچے کے قریب بیٹھیں تو انہیں قرآن پاک کی چھوٹی چھوٹی آیات اور سورتیں
یاد کروائیں ، جن کو چھوٹے بچے آسانی سے یاد کر لیتے ہیں ۔ اب یہ ماں پر
منحصر ہے کہ چھوٹی عمر میں ہی بچے کے سامنے دین کی باتیں کرنے لگیں ۔ ماں
بننا آسان ہے مگر ماں بن کر بچے کی اچھی تربیت کرنا مشکل کام ہے ۔آج کل سب
سے بڑی خرابی یہ ہے کہ بچیاں جوان ہو جاتی ہیں اور شادی کے بعد مائیں بن
جاتی ہیں مگر دین کا علم نہیں ہوتا اس لئے ان کو یہ سمجھ نہیں ہوتی کہ ہمیں
اپنے بچوں کی تربیت کس طرح کرنی ہے ۔ چنانچہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو
شریعت کا حکم ہے کہ اس کو نماز پڑھانا شروع کرادیں اور جب دس برس کا ہو
جائے تو نماز کی ادائیگی کے لئے سختی کریں ۔ یہ ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ
وہ بچے کو دین سیکھائیں اور انہیں دینی تعلیم سے آراستہ کریں ۔حدیث پاک میں
ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک باپ اپنے
بیٹے کو لے کر حاضر ہوا۔ بیٹا جوانی کی عمر میں تھا مگر وہ ماں باپ کا
نافرمان تھا۔ اس شخص نے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سامنے اپنا مقدمہ
پیش کیا کہ "یہ میرا بیٹا ہے ، مگر میری کوئی بات نہیں مانتا، نافرمانی
کرتا ہے، لہذٰ آپ اسے سزا دیں یا سمجھائیں" حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے
جب باپ کی یہ بات سنی تو بیٹے کو بلا کر پوچھا بیٹے! بتاؤ کہ تم اپنے پاب
کی نافرمانی کیوں کرتے ہو؟" تو اس بیٹے نے سوال کیا"امیر المونین! کیا
والدین کے ہی اولاد پر حق ہوتے ہیں ؟ یا اولاد کا بھی ماں باپ پر کوئی حق
ہوتا ہے؟" ۔ امیر المومنین نے فرمایا"اولاد کے حق بھی ماں باپ پر ہوتے ہیں
" نوجوان نے فرمایا مگر میرے باپ نے میرا کوئی حق ادا نہیں کیا۔ سب سے پہلی
بات یہ کہ اس نے جو ماں چنی وہ ایک باندی تھی، جس کے پاس کوئی علم نہیں تھا،
نہ اس کے اخلاق ایسے ، نہ علم ایسا۔ اس نے اُس کو اپنایا اور اس کے ذریعے
میری ولادت ہوئی پھر میرے باپ نے میرا نام جعل رکھا، جس کا مطلب گندگی کا
کیڑا ہوتا ہے ۔ کیا یہ کوئی رکھنے والا نام ہے؟۔ پھر ماں کے پاس چونکہ دین
کا علم نہیں تھا، اس لئے مجھے دین کی کوئی بات نہیں سکھائی اور میں بڑا ہو
کر جوان ہو گیا۔ اب نافرمانی نہین کرونگا تو کیا کرونگا؟"۔ حضرت رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ نے جب یہ بات سنی تو آپ نے فرمایا "بیٹے سے ذیادہ تو اس کے حقوق
ماں باپ نے پامال کیا ہے ، اس طرح آپ نے اس مقدمہ کو خارج کر دیا۔
ماں باپ کو چاہیئے کہ وہ اپنی اولاد کو دین سیکھائیں ، تاکہ بچے بڑے ہو کر
اﷲ تعالیٰ اور ماں باپ کے فرماں بردار بنیں ۔ شروع سے ہی بچے کو نیکی کی
طرف مائل کرنا ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ اپنے بچوں کو اﷲ کے نیک بندوں کے
احوال اور واقعات سنائیں اور ان کا تعارف کروائیں ، اس طرح بچے کے دل میں
یہ جذبہ پیدا ہوگا کہ مجھے بھی اسی طرح بننا ہے ۔عام طور پر مائیں اپنے
بچوں کو اس قسم کے واقعات نہیں سناتیں بلکہ سناتی بھی ہیں تو مرغا، بلی اور
چڑیا کی کہانی سناتی ہیں اور یہ سوچ کر خوش ہوتی ہیں کہ میرا بچہ مرغا کی
کہانی سن کر سو جاتا ہے۔ |