میری ناچیز بدعا

کچھ ہی دن ہوئے‘ میری ادھ گھروالی ایم بی بی ایس یعنی میاں بیوی بچوں سمیت ہمارے ہاں پدھاریں۔ میں اپنی بیگم کی ٹی سی کرنے کے لیے بڑے ہی خوشگوار انداز میں اس کے کرسی قریب بڑے ہی فصیح و بلیغ طور سے‘ ٹی سی کر رہا تھا۔ بیگم صاحب نے تھوڑی دیر میری لایعنی بکواس برداشت کی۔ پھر کچن میں جا کر آواز دی۔ ڈاکٹر صاحب ذرا بات سننا۔ میں فورا سے پہلے حاضر ہو گیا۔ دو ہی باتیں ہو سکتی تھیں۔ شک نے لپیٹ لیا ہو۔ اس بڑھاپے میں کیسا شک۔ برتن دھونے کا حکم نہ صادر کر دے۔ پھر میں نے سوچا جو ہو گا دیکھا جائے گا‘ الله مالک ہے۔

وہاں ان میں سے کوئ بات درست نہ نکلی۔ فرمانے لگیں کتنی بار کہہ چکی ہوں کہ جا کر دوا لے آؤ‘ پر تم نے کہنا نہ ماننے کی قسم کھا رکھی ہے۔ کہاں کہاں کھرک رہے تھے اس کی تمہیں ہوش ہی نہ تھی۔ اس کی بات میں خم سمیت دم تھا لیکن سوال یہ تھا کہ مہمانہ مرد کے کس کہاں سے واقف نہ تھی۔ خیر یہ غلطی نہیں کھلی گستاخی تھی۔ میں نے حسب معمول اور حسب روایت سوری کی اور دوا لینے کے لیے چل دیا۔

میں آج تک بیگمی حکم عدولی کا سزاوار نہیں ہوا۔ یہ واحد حکم تھا جسے آج تا کل ٹالتا آ رہا تھا۔ میں وچلی بات کسی سے شئیر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ آپ بر مجھے بھروسہ ہے کہ آپ میری بات ہر کان تک نہیں پہنچائیں گے۔ شدہ ہوں اور ہر شدہ‘ شدہ حضرات کی دہلیز کے اندر کی سے خوب آگاہ ہوتا ہے۔ میں بوڑھا ضرور ہوں‘ بدذوق نہیں۔ جو احباب کھرک کی لذت سے آگاہ ہیں وہ میری بات کی تاءد کریں۔ دنیا میں شاید ہی کوئ بیماری ہو گی جو اتنی لذت انگیز ہو گی۔

ذندگی بےلذت اور بے ذائقہ ہو گئ ہے۔ دکھ درد مصیبت جھڑکیاں وغیرہ اس کا نصیبہ ٹھہرا ہے۔ ایک یہ لذت کا ذریعہ تھی جو بیگم حضور کو گوارہ نہ ہوئ۔ مانتا ہوں ہر بار خارش کا انجام بڑا تلخ ہوتا ہے۔ زندگی میں پہلے ہی کیا تلخی کم ہے۔ تلخی کا آغاز اور انجام تلخی ہوتا ہے۔ تلخی کے آخر میں لذت مل جاءے تو آدمی بردشت بھی کر لے۔ خارش ہی وہ تلخی اور آزار ہے جو آغاز میں تادیر چسکا و سواد فراہم کرتی ہے۔ مجھ سے عارضی اور لمحاتی آسودگی چھینی جا رہی تھی۔

زمانے کا چلن ہے کہ وہ کسی کو لمحوں کے لیے سہی‘ آسودہ اور خوش نہیں یکھ سکتا۔ مجھے اصل افسوس یہ ہے کہ میری سرزنش کر ڈالی لیکن بہن کو بلا کر کچھ نہیں کہا جو جوابا طرح طرح کی جگہوں پر مزے لے لے کر کھرک فرما رہی تھی۔ بہن تھی نا وہ اسے لذت سے مرحوم نہں کرنا چاہتی تھی۔ بہن تھی نا۔ اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ میرا کیا ہے بیگانہ پتر ہوں میری خوشی اور لمحاتی آسودگی اسے کیونکر خوش آ سکتی تھی۔

پاکستان سو نہیں ہزاروں طرح کی قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا۔ ابتدا سے لے آج تک کھرک زدہ دفتر شاہی سے گزارہ کر رہا ہے۔ واپڈا ہو کہ اکاؤنٹ آفس‘ ٹیلی فون والے ہوں کہ پوسٹ آفس والے‘ اعلی شکشا منشی کا دفتر ہو کہ پنجاب سرونٹس فاؤنڈیشن والے غرض کوئ بھی محکمہ لے لیں مسلسل اور متواتر طرح طرح کی جگہوں پر کھرکے جا رہے ہیں پوچھنے والے خود اس عظیم نعمت ارضی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ کچھ ہی ریٹائرمنٹ کے بعد رشوثی کھرک کی تلخی دیکھتے ہیں ورنہ معاملہ اگلے جہاں تک التوا میں رہتا ہے۔ گھر میں فرد واحد کی کھرک اس سے برداشت نہ ہو سکی۔ میری بدعا ہے الله اسے اس نعمت بےمول سے تامرگ محروم رکھے اور اس کے لیے ترستی قبریں سدھارے۔ وہ اس لذت کے لیے دعا بھی کرے تو دعا قبولیت کے قریب بھی نہ پھٹکے۔ سب کہو آمین

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190867 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.