وہ بمشکل دس سال کی تھی اس کی
گردن میں ٹوکری تھی جس میں وہ پلاسٹک کے مختلف چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں
ٹافیاں ببل اور مختلف کھانے کی چیزیں پڑی ہوئی تھی وہ میرے سامنے آکر کھڑی
ہوگئی اور ڈرتے ڈرتے مجھ سے کہا کہ ٹافیاں لو گے میں نے اس معصوم کو دیکھا
ایک لحظے کیلئے میری اپنی بیٹی اپنی معصوم نگاہوں کو لیکر میرے سامنے آگئی
اور میں نے ہاں کردی اس سے ٹافیوں کا پیکٹ لیا اور کچھ اضافی پیسے دیکر اسے
کہا کہ ٹھیک ہے وہ تو خوش ہو کر روانہ ہوگئی لیکن ساتھ میں وہ دروازے کو
دیکھ رہی تھی جہاں پر کھانا مہمانوں کو پیش کیا جارہا تھا اس دوران میرے
پیچھے کھڑے مہمان نے اسے کہا کہ چلی جاو اور دوبارہ یہاں مت آنا وہ وہ
معصوم سی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے چلی گئی جس شخص نے اسے غصے سے کہا تھا
کہ چلی جائو اس نے اپنی بیٹی کو اٹھایا اور اندر چلا گیا- میں اپنے دوست کی
بہن کی شادی میں شرکت کیلئے آیا تھا اور اس معصوم کو جاتے دیکھ کر مجھے
سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کہوں وہ معصوم لڑکی بھوکی بھی لگ رہی تھی
لیکن اس کی بھوک شائد کسی اور نظر نہیں آرہی تھی اور اس فکر نے مجھے ذہنی
تنائو کا شکار کردیا -
چند ہی لمحے گزر گئے اوراسی دوران ایک آٹھ سال کا بچہ ہاتھ میں چپل اٹھائے
آیا اور مجھے کہا کہ پالش کروانی ہے اسے دیکھ کر مجھے مزید ذہنی تنائو ہونے
لگا اتنے معصوم ہااتھوں میں پالش کی ڈبیاں اور برش دیکھ کر عجیب سے خیالات
ذہن میں آرہے تھے یہ ہمارے کل کا مستقبل ہیں اس معصوم کو دیکھ کر بھی وہاں
پر کھڑے لوگوں نے اسے ڈانٹا اور وہاں سے نکال دیا کہ یہ گندے کپڑوں میں
پھرنے والا بچہ لمبی گاڑیوں قیمتی کپڑوں میں ملبوس لوگوں میں عجیب لگ رہا
تھا وہ بچہ بھی اپنے بھوک یا اپنے گھر والوں کی بھوک مٹانے کیلئے گھر سے
نکلا تھا یہ الگ بات کہ اس عمل میں شائد اس کے گھر والوں کی غلطی تھی کہ
اتنے معصوم بچوں کو مزدور ی کرنے کیلئے نکال دیا لیکن ان دونوں بچوں کیساتھ
روا رکھے جانیوالے روئیے نے بتا دیا کہ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں کلمہ ضرور
پڑھتے ہیں پانچ مرتبہ سجدے بھی ضرور کرتے ہیں لیکن اس کا اثر نہیں ہوتا
ہمارے اپنے بچوں کیلئے رویہ الگ ہوتا ہے اور دوسروں کے بچوں کیلئے رویہ الگ
ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جیسے ہم وہیں ویسے ہی حکمران ہم پر مسلط ہیں-
کیا اس ملک میں وسائل کی کمی ہے افرادی قوت کی کمی ہے تکنیکی ماہرین کی کمی
ہے یا پھر صورتحال ایسی ہے کہ ان سب چیزوں کے ہوتے ہوئے خلوص دل سے لوگوں
کے مسائل حل کرنے والے لیڈروں کی کمی ہے ہر کوئی یہی جواب دے گا کہ سب کچھ
ہے لیکن خلوص نیت کی کمی ہے اور ایسے مخلص لیڈروں کی کمی ہے جو لوگوں کو
مواقع فراہم کرے لیکن اپنی حد تک ہر کوئی اس معاملے میں کتنا مخلص ہے کوئی
بھی نہیں کیونکہ ہر ایک شخص ایک حد تک لیڈر ہے کوئی اپنے گھر میں کوئی دفتر
میں کوئی کام میں ہماری کوشش ہے کہ دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھائیں
چھوٹے دکاندار سے لیکر بڑے تاجر تک پولیس کے کانسٹیبل سے لیکر بڑے آفیسر تک
کنڈیکٹر سے ڈرائیور تک صحافی سے اخبار یا ٹی وی کے مالک تک فوج سے لیکر
طالبان تک الف سے لیکر ی تک زندگی کے تمام شعبوں کے لوگ اپنی ڈفلی بجاتے
ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسئلے سے مسائل بن گئے ہیں لیکن صورتحال بہتر ہونے
کے بجائے بدتر ہوتی جارہی ہے حکمران بد سے بدتر مل رہے ہیں پہلے والے اگر
چور تھے تو نئے والے ڈکیت ہیں ایسے میں بہتری کی امید کون رکھے-
کیا ہم اپنی گریبان میں جھانکنے کی ہمت رکھتے ہیں کیا ہم میں قربانی کا
جذبہ موجود ہے نہیں ہم اپنے ارد گرد چلنے والے معصوم بچوں کو کھانا نہیں
کھلا سکتے ان کے ساتھ دو لفظ پیار کے نہیں بول سکتے انہیں حوصلہ نہیں دے
سکتے تو پھر تبدیلی کس طرح ممکن ہے دوسروں سے تبدیلی کی توقع رکھنے والے
اگر آج اپنے آپ سے تبدیلی کا آغاز کریں تو شائد کچھ ہو بھی جائے لیکن – یہ
کب ہوگا خدا ہی جانے-
|