کچھ لوگ طبعی طور پہ انتہاء پسند ہوتے ہیں۔اپنے ہر جذبے
میں وہ انتہائی خلوص کے ساتھ لوگوں کو آسمان کی رفعتوں پہ لے جاتے ہیں اور
اسی طرح جب کوئی ان کی نظر سے گرتا ہے تو اسے بھی بذاتِ خود پاتال تک
چھوڑنے جاتے ہیں۔ہمیں اعتدال کا حکم ملا ہے ۔احتیاط اور خصوصاََ انسان کے
باب میں کہ مبادا توبہ کرلے تو بعد میں اپنی رائے پہ شرمندگی ہو۔فرشتوں کو
بھی حکم ہے کہ برائی کے ارادے پہ بندے کے اعمال میں برائی نہ لکھی جائے
تاآنکہ وہ اسے کر گذرے۔ہاں اچھائی کے ضمن میں فرشتوں کو کہا گیا کہ بندہ
نیکی کا ارادہ بھی کرے تو اسے نیکی بنا ڈالو۔انسان بہرحال انسان ہے جو اپنی
محبت اپنا پیار اپنا بغض اور اپنا کینہ رکھتا ہے۔کمال یہ کہ جو پسند ہو اس
کی برائیاں بھی بھلائیاں اور جو دل سے اتر جائے اس کی نیکیاں بھی برائیوں
میں شامل ہو جاتی ہیں۔صحافی کہتے ہیں کہ ان انتہاؤں سے بچ کے چلتا ہے۔ایک
اچھا صحافی ہمیشہ معتدل رہتا اور اپنی رائے میں توازن رکھتا ہے۔یہ جنس لیکن
کہاں مہیاء ہے اس کا پتہ کوئی نہیں بتاتا۔
پاکستان کی تاریخ عدل کے مایہ ناز جج جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری ملک کی
عدلیہ کو ایک نئی طاقتور جہت دے کے ماضی کا قصہ بن گئے۔جیف جسٹس بھی عدلیہ
کے دوسرے ججوں ہی کی طرح تھے۔موم کی ناک جیسے جس نے جیسے چاہا جہاں چاہا
موڑ لیا۔پھر وہ چیف جسٹس بن گئے۔جب آمریت کے آنے پہ ان کے دوسرے ساتھی
استعفیٰ دے کے گھر جا رہے تھے انہوں نے ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔پھر اﷲ کریم نے
انہیں ایک موقع عطا کیا۔شاید ان کی توبہ قبول ہوئی۔مشرف نے انہیں بلایا اور
استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔انہیں دھمکیاں دی گئیں۔فائلیں دکھائی گئیں۔ریفرنس کی
دھمکیاں دی گئیں۔قسمت کی دیوی مہربان ہو تو غلطیاں بھی اچھائیاں بن جاتی
ہیں۔جیسے آج کچھ دانشور ہمیں ڈرا رہے ہیں کہ امریکہ ناراض ہو گیا تو ہم
بھوکے مر جائے گے۔ایسے ہی چیف جسٹس کو بھی موت سامنے دکھائی گئی لیکن اس سب
کے جواب میں ایک انکار تھا جو چیخ کی صورت برآمد ہوا۔جیسے کوئی شخص اپنی
توہین پہ جان پہ کھیلنے کا سوچ لے۔جب انسان جان لٹانے کا تہیہ کر لے تو اسے
شکست دینا ناممکن ہوتا ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی یہ چیخ بے بسی کی پکار تھی۔ہمارے ملک کا
رواج ہے یہاں بے بس کی کوئی نہیں سنتا۔لوگوں کو جب تک یقین نہیں ہو گیا کہ
یہ کمزور دکھائی دینے والا آدمی مشرف کو بہا لے جائے گا اس وقت تک نہ کوئی
بڑا صحافی مدد کو آیا نہ وکیل۔ہاں جب لگا کہ یہ شخص عنقریب پاکستان کی
تاریخ بدل کے رکھ دے گا تو کیمرے بھی آ گئے اور ڈرائیور بھی۔نفرتیں بغض
کینے اور قرینے سب اکٹھے ہوئے اور ایک حرف انکار نے ملک کی سمت ہی بدل
ڈالی۔آمر اس تحریک کے نتیجے میں قصہ ماضی بنا اور آزادانہ انتخاب میں ہما
پیپلز پارٹی کے سر پہ بیٹھ گیا۔یہ پرندہ جس کسی کے سر پہ بیٹھے اس کے دماغ
میں خناس سما جاتا ہے۔پاکستان میں حکمرانی عوام نہیں خواص کرتے ہیں اور
خواص کی سوچ ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔حکمران بدلے تو جج جو اپنے بچوں کے ساتھ
قید تھے،رہائی تو پا گئے لیکن ان کا انصاف حکمرانوں کو بھی وارا نہیں کھاتا
تھا۔اس لئے مشرف کے جج ہی اس وقت تک منصب عدل پہ متمکن رہے جب تک عوام نے
انہیں نفرت کا نشان نہیں بنا دیا۔
عوام اٹھ کھڑے ہو تو سمجھ دار اشرافیہ ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں
ایک لمحہ نہیں لگاتی۔
اس تحریک کے لئے لوگ نواز شریف کے ساتھ نہیں نکلے تھے نواز شریف لوگوں کے
ساتھ نکلے تھے۔گورنر راج کی رکاوٹیں توڑتے لوگ ابھی گوجرانوالہ بھی نہیں
پہنچے تھے کہ اسلام آباد کے ایوان کانپنے لگے اور یوں حق دار کو اس کا حق
مل گیا۔
ہم جیسوں کے لئے جیف جسٹس کی اپنے ساتھی ججوں کے ساتھ بحالی ایسے ہی تھی
جیسے کسی تنِ مردہ میں جان پڑ جائے۔مایوسیوں کے اتھاہ اندھیروں میں روشنی
کی کرن۔بحالی کے بعد چیف جسٹس نے ایک بالکل نیا نظامِ عدل متعارف
کروایا۔عوام کو احساس ہونا شروع ہوا کہ اب اس ملک میں کوئی ایسا ہے جو
اشرافیہ کے گریبان پہ بھی ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ان سے بھی سوال کر سکتا ہے۔ان
کی غلطیوں پہ بھی بھلے سیکنڈز کی ہی سہی سزا دے سکتا ہے۔عوام جم کے اپنے
چیف کے ساتھ کھڑے رہے اور چیف جسٹس نے بھی انہیں مایوس نہیں کیا۔عوام خوش
ہیں کہ بھلے چیف صاحب کے دور میں مفادِ عامہ کے بڑے فیصلے نہ ہوئے ہوں ،لوٹی
ہوئی دولت باوجود کوشش کے واپس نہ آسکی ہو لیکن لٹیروں کے آگے بند ضرور
باندھ دیا گیا ہے۔ایک کلچر ضرور بن گیا ہے کہ اس ملک میں کوئی پوچھنے والا
ہے۔اب تو زور آور بھی میڈیکل سرٹیفکیٹ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں کہ
صاف انکار عوام کے غیض وغضب کا باعث بن سکتا ہے۔
بڑے آدمیوں کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں اور سزائیں بھی۔اولاد کو یونہی تو
قرآن نے آزمائش نہیں کہا۔اس ہیرے جیسے شخص کو اولاد کے ہاتھوں وہ زک اٹھانا
پڑی کہ اس حادثے کے بغیر مؤرخ جو تاریخ لکھتا تو اس جج کو انسان نہیں فرشتہ
لکھتا جو پاکستانی عوام کی تائید ونصرت کو آسمان سے اتارا گیا تھا لیکن
انسان تو انسان ہی ہوتا ہے۔بھلے اس کا سبب کچھ بھی ہو ارسلان کیس میں انصاف
یوں نہیں ہوا جیسے یوسف رضا کے بیٹوں کے باب میں ہوتا نظر آتا تھا۔انسان
اپنی جان اپنے اصولوں پہ قربان کرنے کا حوصلہ کر سکتا ہے اولاد لیکن مجبور
کر دیتی ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ ہر انسان کی ایک قیمت ضرور ہوتی ہے۔
غلطیاں انسان ہی سے ہوتی ہیں ۔توبہ غلطیوں کو مٹا دیتی ہے۔ارسلان کیس ایک
بار پھر اٹھے گا ضرور کہ کچھ لوگوں نے اپنے بدلے اس کی آڑ میں چکانے ہیں
لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان کے غریب اور مظلوم لوگوں کی آواز کو
توانائی بخشنے والے اس با کمال آدمی کی یہ غلطی بھی اسی طرح معاف کر دی
جائے جس طرح کسی زمانے میں ان کے پی سی او پہ حلف اٹھانے کو لوگوں نے معاف
کر دیا تھا۔قوم کو جنرل کیانی کے بعد دوسرا کم متنازعہ آدمی مبارک ہو۔ |