ڈیزاسٹر ایک ایسا لفظ ہے
جو 2005ء کے زلزلہ کے بعد سامنے آیا۔ جب زلزلہ زدگان کی بحالی کے لئے پی ڈی
ایم اے اوراین ڈی ایم اے کے ادارے قائم کیے گئے۔ ڈیزاسٹر ایک وسیع لفظ ہے۔
اس کی تشریح کرنے لگ جائیں تو یہ تحریر اسی پر ہی ختم کرنی پڑے گی۔ پالیسی
ادارہ برائے دیہی ترقی ایک آرگنائزیشن ہے۔ اس نے پلان انٹرنیشنل کے اشتراک
اور تعاون سے مقامی سماجی تنظیم کے کانفرنس ہال میں ڈیزاسٹررپورٹنگ پر
میڈیا سے وابستہ افرادکی دوروزہ تربیت کا اہتمام کیا۔ اس میں راقم الحروف
سمیت ضلع بھر سے صحافیوں نے شرکت کی۔ اسلام آبادسے انگریزی اخباردی نیشن کے
نمائندے راؤ شاہدنے بھی اس میں شرکت کی اورصحافیوں کو ڈیزاسڑرپورٹنگ کی
ٹریننگ کی۔ صابرعطاء نے ایک خوبصورت بات کی کہ اس تربیتی نشست کا اہتما م
اخباری مالکان کو کرناچاہیے تھا۔
ڈیزاسٹر کو ہم دوبڑے حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔ ان میں سے ایک قدرتی
ڈیزاسٹرہے اوردوسراحصہ مصنوعی ڈیزاسٹرہے۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ ڈیزاسٹر
کیا ہے۔ تاہم یہ بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ ڈیزاسٹرکی اقسام بھی ہوتی ہیں۔
جو لوگ ڈیزاسٹرکے بارے میں جانتے ہیں۔ ان میں سے اکثریہ سمجھتے ہیں کہ
ڈیزاسٹر صرف اورصرف قدرتی ہی ہوتا ہے ۔ ہم نے اس کوقدرتی اورمصنوعی
ڈیزاسٹرمیں تقسیم کردیا ہے۔ تاکہ ہم اس تحریر میں جو باتیں لکھنے جارہے
ہیں۔ وہ ہمارے قارئین کو آسانی سے سمجھ آجائے۔ قدرتی ڈیزاسٹرزلزلہ ، سیلاب،
سونامی، طوفان، وبائی امراض اورحادثات ہیں۔ ہمیں ان ڈیزاسٹرسے واسطہ
پڑتارہتاہے۔ پاکستان میں یہ سب ڈیزاسٹرہوچکے ہیں۔ سونامی نہیں ہوا۔ تاہم جو
تین سال پہلے سیلاب آیا تھا وہ کسی سونامی سے کم نہیں تھا۔ زلزلہ ہو ،
سیلاب ہو، طوفان ہو، سونامی ہو، آگ لگ جائے یا حادثہ ہوجائے۔ یہ انسان کے
بس کی بات نہیں کہ اس سے بچ سکے۔ اس کو آنے سے روک سکے۔ یہ حفاظتی تدابیر
تو کرسکتاہے۔ تاہم یہ کوئی انسان نہیں کہہ سکتا کہ وہ قدرتی آفات سے مکمل
محفوظ ہے۔ کچھ ڈیزاسٹرکی تو اس کے واقع ہونے سے پہلے اطلاع مل جاتی ہے۔ کہ
کیاہونے والا ہے۔ اورکچھ ڈیزاسٹرایسے ہیں جن کے بارے میں پیشگی کسی انسان
کو معلوم نہیں ہوتا۔جن ڈیزاسٹرکا علم پیشگی ہوجائے اس سے تو ممکنہ طور
پربچاجا سکتاہے اور جس ڈیزاسٹرکے بارے میں پیشگی علم نہ ہوسکے اس سے بچنا
اﷲ کے کرم کے علاوہ بہت مشکل ہوتا ہے۔ سائنس اورٹیکنالوجی نے بہت ترقی کرلی
ہے۔ تاہم اس قابل ہوئی ہے نہ ہوگی جو دنیا میں ہونے جارہا ہے وہ سب کچھ بتا
دے۔ ٹیکنالوجی انسان کو بتاسکتی ہے کہ موسم سردرہے گا یا گرم رہے گا۔ ہوا
میں نمی کس وقت کتنی رہے گی۔ مطلع صاف رہے گا یا ابرآلودرہے گا۔ ہوا معمول
کے مطابق چلے گی یا تیز چلے گی۔ بارش آئے گی یا نہیں۔ آئے گی تو کس نوعیت
کی ہوگی اورکہاں کہاں آئے گی۔ بارشیں کب سے شروع ہوکر کب تک برستی رہیں گی۔
سیلاب آئے گایا نہیں آئے گا۔ آئے گا تو کس نوعیت کا آئے گا۔ کب آئے گا۔
کہاں کہاں آئے گا۔ یہ وہ تمام ڈیزاسٹر ہیں۔ جن کا پیشگی علم ہوجاتا ہے۔ اس
سے انسان ممکنہ طورپر بچنے کی کوشش کرسکتاہے۔ احتیاطی تدابیر
اختیارکرسکتاہے۔ جس کی وجہ سے نقصان کا خدشہ بھی کم ہوتا ہے۔ اورنقصان ہوتا
بھی کم سے کم ہی ہے۔ تاہم ابھی تک ایساکوئی نظام نہیں آیا۔ ایسی کوئی
ٹیکنالوجی دریافت نہیں ہوئی جو یہ بتا سکے کہ زلزلہ آرہا ہے۔ سمندری طوفان
آرہا ہے یا سونامی آرہا ہے۔ یہ تو سب مانتے ہیں کہ ایساکوئی نظام یا
ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ڈیزاسٹرایسے ہیں۔جن کے بارے میں
پیشگی معلوم نہیں ہوسکتا اوروہ روزانہ ہورہے ہیں۔ ان کو ہم حادثات کا نام
دیتے ہیں۔ آپ ریل میں سفرکررہے ہیں۔ ٹرانسپورٹ میں جارہے ہیں۔ اپنی ہی
کار،موٹرسائیکل چلا رہے ہیں۔ یا ہوائی سفر میں ہیں۔ یہ تو سب کے علم میں ہے
کہ یہ سب انسان کی بنائی ہوئی مشینریاں ہیں۔ ان میں کسی بھی وقت خرابی
پیداہوسکتی ہے اوریہ حادثہ کا شکارہوسکتی ہیں۔ ان گاڑیوں کے آپس میں
ٹکرانے، الٹ جانے، ٹائر پھٹنے، سی این جی سلنڈرپھٹنے اور گاڑیوں کو آگ لگنے
کے خدشات تو ہروقت موجود رہتے ہیں۔ ایکسیڈینٹ ہونے کے خطرات بھی ہمہ وقت
موجودرہتے ہیں۔ تاہم یہ کسی کے علم میں نہیں ہوتا۔ اورنہ ہی کوئی ایسا نظام
آیا ہے جو یہ بتاسکے اور نہ ہی کوئی ایسی ٹیکنالوجی آئی ہے۔ جو یہ بتا سکے
کہ جس گاڑی میں آپ جارہے ہیں۔ راستہ میں اس کا ایکسڈینٹ ہوجائے گا۔ دنیا کی
کوئی ٹیکنالوجی کسی کو نہیں بتا سکتی کہ جس گاڑی میں آپ سفر کررہے ہیں یہ
راستے میں کسی اورگاڑی سے ٹکرا جائے گی۔ یہ بات بھی کوئی نہیں جانتا کہ جس
گاڑی میں جارہے ہیں ا س کے ڈرائیورکو نیند آجائے گی۔ اورگاڑی کسی دیوارسے
ٹکراجائے گی۔ کوئی ٹیکنالوجی نہیں بتا سکتی کہ جس گاڑی میں سفر کرنے لگے
ہیں اس کا سی این جی کا سلنڈر راستے میں ہی پھٹ جائے گا۔ جس سے گاڑی کو آگ
لگ جائے گی۔ کوئی نہیں جان سکتا کہ گھر مکان یا دفتر کو آگ لگ جائے گی۔
کوئی نہیں جانتا کہ جس گاڑی میں اپنی منزل کی جانب جارہے ہیں یہ نہر ، دریا
یا کھائی میں جاگرے گی۔ وبائی امراض کے حملہ کرنے سے پہلے بھی کوئی
ٹیکنالوجی یانظام اس سے آگاہ نہیں کرتا۔ برڈ فلو آیا ۔ اس سے لاکھوں مرغیاں
متاثر ہوئی تھیں۔ اس کے حملہ کرنے سے پہلے دنیا کی کسی ٹیکنالوجی نے نہیں
بتایا تھا کہ برڈ فلو آنے والا ہے ۔ اس لیے الرٹ ہوجاؤ۔ اس کے بعد ڈینگی
آیا ۔ اس کے آنے سے پہلے بھی کسی ٹیکنالوجی نے نہیں بتایا کہ ڈینگی حملہ
کرنے والا ہے۔ اپنا بچاؤ کرلو۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ انسان ان تمام
ڈیزاسٹرز سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار تو کرسکتا ہے ۔ ان کو روک
نہیں سکتا۔ کہ بارش آنے والی ہے ۔ اس کو روک دیا جائے۔ یا اس کا برسنے کا
وقت تبدیل کردیاجائے۔ طوفان آنے کاخدشہ ہے ۔ اس کوآنے سے روک دیا جائے یا
اس کی تبدیل کرلیا جائے۔ جس طرح انسان ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر کچھ
ڈیزاسٹرکا پیشگی پتہ لگا لیتاہے ۔ اس کو واقع ہونے سے روک نہیں سکتا۔ اور
نہ ہی اس کا وقت اوردورانیہ اس کے وقوع ہونے کا مقام تبدیل کرسکتا ہے۔ اور
یہ کوئی حتمی آگاہی بھی نہیں ہوتی کہ بارش کی پشین گوئی ہوئی ہے یہ ضرورہی
برسے گی۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ محکمہ موسمیات خشک موسم کی پشین گوئی کرتا ہے
جبکہ بارش ہوجاتی ہے۔ وہ بارش کی پشین گوئی کرتاہے ۔ مطلع صاف رہتاہے۔ بارش
تو کیا بادل بھی نہیں ہوتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ محکمہ موسمیات نے پشین
گوئی کی تھی کہ آج موسم خشک رہے گا۔ اس دن لیہ میں تاریخی طوفان آیا۔ سارا
نظام درہم برہم ہوگیا۔ چھ دن تک بجلی معطل رہی۔ ٹیلیفون کا نظام بھی درہم
برہم ہوگیاتھا۔ اس طوفان کو روکنا انسان کے بس میں ہوتا تو وہ ضرور روک
لیتا۔ روکنا تو درکنار اسے تو یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ طوفان آنے والا ہے
۔ محکمہ موسمیات نے بھی خشک موسم کی پشین گوئی کی تھی۔
یہ توقدرتی ڈیزاسٹرتھے۔ ہم نے ڈیزاسٹرکو دوحصوں میں تقسیم کیا تھا۔ اس کو
تین حصوں میں بھی تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک حصہ قدرتی ہے۔ دوسراحصہ قدرتی
بھی ہے اورمصنوعی بھی ہے۔تیسرا حصہ مصنوعی ہے۔ قدرتی ڈیزاسٹر پر بات ہوچکی۔
اب اس ڈیزاسٹرپر بات کرتے ہیں جو قدرتی بھی ہے اور مصنوعی بھی۔ اس کو ہم
سیلاب کہتے ہیں جوعام طورپر ہر سال تباہی مچاتاہے۔ تاہم ہر پانچ سے چھ سال
کے بعد تباہی مچاکے رکھ دیتا ہے۔ یہ قدرتی اس طرح ہے کہ بارشوں اورپہاڑوں
پربرف پگھلنے سے آتا ہے۔جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں کہ انسان بارش نہ روک
سکتاہے نہ اس کا وقت دورانیہ اورایریا تبدیل کرسکتاہے۔ اورنہ ہی انسان برف
کو پگھلنے سے روک سکتا ہے۔ مصنوعی اس طرح ہے کہ اس ڈیم بنا کراس میں یہ
پہاڑوں سے برف پگھلنے اوربارش برسنے کاپانی اس میں سٹورکرسکتا ہے۔ ڈینگی
بھی ایک وباء ہے۔ اس کو پہلے تو نہیں روکا جاسکتا تھا ۔ لیکن اب احتیاطی
تدابیر اختیارکرکے اس کے اثرات کو کم ضرورکیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح خسرہ کے
اثرات کو بھی کم کیا جاسکتاہے۔ اب آتے ہیں ڈیزاسٹرزکے اس حصہ کی طرف جو
مصنوعی ہے۔ اوریہ سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ قدرتی ڈیزاسٹر، اورقدرتی
اورمصنوعی ڈیزاسٹرکے لیے تو کام کیا جارہا ہے۔ تربیت دی جارہی ہے۔
رضاکارتیار کیے جارہے ہیں۔ ریسکیوٹیمیں کام کررہی ہیں۔ تاہم ان مصنوعی
ڈیزاسٹرز کے لیے کوئی کام نہیں کررہا ہے۔ نہ رسیکیوٹیمیں نہ سماجی تنظیمیں،
نہ سرکاری ادارے اورنہ میڈیا۔ قدرتی اورقدرتی اورمصنوعی ڈیزاسٹرزکی تباہی
اوراثرات بھی کچھ کم نہیں ہوتے ۔تاہم مصنوعی ڈیزاسٹرز کے اثرات اس سے بھی
زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ قدرتی ڈیزاسٹرز کے اثرات کا ہمیں ادراک ہے۔ مصنوعی
ڈیزاسٹرزکے اثرات کا کسی کوادراک نہیں ہے۔ قدرتی ڈیزاسٹرز کی تباہی ایک ہی
وقت میں تباہی مچاتے ہیں۔ جب وہ آتے ہیں۔ سیلاب جب آئے گا تو تباہی مچائے
گا۔ سیلاب ختم ہوتے ہی اس کی مزید تباہی رک جائے گی۔ پھر اس وقت سیلاب
تباہی مچائے گا جب پھر سیلاب آئے گا۔ زلزلہ جب آئے گا تباہی مچائے گا۔ جب
کہ مصنوعی ڈیزاسٹرزسے تباہی ایک بار نہیں مسلسل جاری رہتی ہے۔ قدرتی
ڈیزاسٹرز سے انسانیت کی جان ، مال اوراملاک کو خطرہ ہوتاہے۔ مصنوعی
ڈیزاسٹرزہمارے سماج، اخلاق، فکر، خاندان، شعور، کردار، تہذیب اورثقافت کے
لیے خطرناک ہیں۔ قدرتی ڈیزاسٹرز سے ہونے والے کچھ نقصان کی تلافی قدرت کی
طرف سے ہوجاتی ہے۔ مصنوعی ڈیزاسٹرز سے ہونے والی تباہی کی تلافی نہیں ہوتی۔
اس کی سزاملتی ہے۔ قدرتی ڈیزاسٹرزکے اثرات کچھ ہی عرصہ کے بعد ختم ہوجاتے
ہیں۔ مصنوعی ڈیزاسٹرزکے اثرات ختم ہونے میں ہی نہیں آتے۔ اب ہم ان مصنوعی
ڈیزاسٹرزکی مثالیں لکھنے جارہے ہیں۔ اب خودہی فیصلہ کرتے رہیے گاکہ ان میں
سے کون سا ڈیزاسٹرفکری ہے، کون ساشعوری ہے، خاندانی ڈیزاسٹرکون کون ساہے۔
اورکس کس ڈیزاسٹرز سے ہماری تہذیب اورثقافت کو خطرہ ہے۔ ہم اپنے شہر کی ایک
مٹھائی کی دکان پر گئے تو وہاں ایک نو ،دس سال کا ایک بچہ مٹھائی خرید رہا
تھا ۔ دکاندارسے اس نے پوچھا کہ اس مٹھائی کے کتنے پیسے ہیں۔ اس نے کہا
70روپے یہ سن کر اس بچے نے کہا کہ انکل مجھے ایسے پتہ نہیں چلتا مجھے انگلش
میں بتاؤ۔ اس دکاندار نے انگلش میں بتایا تو اس بچے نے پیسے جیب سے نکال کر
دے دیے۔ شادی کے دوہفتوں کے بعد دلہن دلہا سے کہنے لگی کہ میری یہ شرائط
ہیں کہ اگر منظورہیں تو میں تیرے ساتھ رہوں گی۔ ورنہ چلی جاؤں گی۔ اس کی
شرائط یہ تھیں۔ میرے سامنے والدین کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گا۔ اورمیں
تجھے ان کے ساتھ نہ دیکھوں۔ میرے ساتھ رہنا ہے تو والدین کوخیربادکہنا پڑے
گا۔ والدین کو اب تک بہت کچھ کما کردیا ہے۔آج کے بعد جوبھی کماؤ مجھے دو۔
گھر کے اخرجات میں کروں گی۔آپ کو ضروت ہوں تو مجھ سے مانگنا میری مرضی میں
دوں یا نہ دوں۔ مجھ سے ان کا حساب کتاب بھی نہیں پوچھو گے کہ میں نے کیا
اورکہاں خرچ کیا۔ جو میں کہوں گی وہ کرنا ہوگا۔ میں جہاں جاؤں جب جاؤں مجھے
نہیں روکوگے۔ ایک پچیس سالہ جوان ایک دکان میں کام کرتا تھا ۔ وہ صبح چھ
بجے دکان پرآتااوررات بارہ بجے دکان سے گھر جاتا۔ اس دوران وہ دکان پر ہی
کام کرتا رہتا نہ چھٹی نہ وقفہ۔ گرمیوں میں سونے کے لئے دو گھنٹے ملے وہ
بھی دکان پر تاکہ گاہک آئے تو جگادے۔ دکان کے کام میں خلل نہ آئے۔ ایک دن
اس کا بھائی اس دکان پر گیاتواس دکاندارنے کہا کہ بھائی سے کہو کہ دکان
پرکچھ وقت دیا کرے۔ ابھی کچھ دن پہلے لیہ میں ٹرین کی ٹکر سے دولڑکے جاں
بحق ہوگئے۔ عینی شاہدنے بتایا کہ ان کی موٹرسائیکل ریل کی پٹڑی میں پھنس
گئی تھی۔ وہ موٹرسائیکل نکالتے رہے۔ انہیں لوگ کہتے رہے کہ اسے چھوڑکر ایک
طرف ہوجاؤ ٹرین آرہی ہے۔ وہ ہر صورت موٹرسائیکل بچانا چاہتے تھے۔ عینی شاہد
نے کہا کہ لڑکے گھرسے مارپڑنے کے ڈرسے موٹرسائیکل بچاتے بچاتے خود موت کا
شکارہوگئے۔ ایک کالم نگار کا ایک اخبارمیں کالم شائع ہوا۔ اس اخبار کا ایک
نیا نمائندہ اس کالم نگار سے کہنے لگا کہ تم کالم کہاں سے بھیجتے ہو۔ کالم
نگارنے کہا کہ میں خودبھیجتا ہوں۔ اس پرنمائندہ نے کہا کہ اب تک جو کالم
شائع ہوچکے ہیں۔ سوہوچکے ہیں۔اب آئندہ شائع نہیں ہوں گے۔ نمائندے ہم ہیں
تحریر آپ کی ایسے ہی شائع ہوجائے گی؟ میں آج ہی منع کردیتا ہوں۔ ہماری
اجازت کے بغیر کوئی تحریر شائع نہیں ہوسکتی۔ اس کی باتوں اورلہجہ سے لگ
رہاتھا کہ اس اخبار کے ایڈیٹر کو فارغ کرنے کا اختیاربھی اسی کے پاستؤ تھا۔
ایک اخبار کے چیف ایڈیٹرنے اپنے اخبارمیں کام کرنے والے آفس اسسٹنٹ کی اس
لیے چھٹی کرادی کہ اس نے موبائل پر ایس ایم ایس کرکے دوماہ کی تنخواہ مانگی
تھی۔ کوٹ سلطان میں ایک شخص نے اپنے والد سے کچھ پیسے مانگے۔ اس نے بر
ابھلا کہا تو اس ناخلف بیٹے نے باپ پر فائر کردیا جس سے وہ زخمی ہوکر
ہسپتال پہنچ گیا۔ ایک لطیفہ جو آپ اپنے ہاں پائے جانے والے اسی نظام پر
لاگو کرسکتے ہیں جس نظام سے متعلق یہ لطیفہ ہےْ کہ کسی سکول میں ایک آفیسر
وہاں کا تعلیمی معیاراساتذہ اورطلبہ کی کاکردگی چیک کرنے آیا ۔ اس نے ایک
کلاس میں سے ایک بچے کو کھڑاکرکے پوچھا کہ سومنات کا مندر کس نے توڑا ۔ وہ
بچہ رونے لگا اورکہنے لگا کہ اﷲ کی قسم میں نے نہیں توڑا۔ آفیسرنے اس کلاس
کے استاد محترم سے کہا کہ یہ آپ کی کلاس کی کاکردگی ہے ۔ میں نے پوچھا ہے
کہ سومنات کا مندرکس نے توڑا۔ یہ کہتا ہے اﷲ کی قسم میں نے نہیں توڑا۔
استاد محترم نے کہا کہ یہ بڑا شرارتی ہے اسی نے ہی توڑاہوگا۔ وہ آفیسر اس
سکول کے ہیڈماسٹر کے پاس چلے گئے۔ اس کو کلاس کی روداد سناکر کہا کہ یہ آپ
کے سکول کی کارکردگی ہے۔ ہیڈ ماسٹر کا جواب سنہری حروف میں لکھے جانے کے
قابل ہے۔ اس نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں ۔ حکومت کا ہی نقصان ہو اہے۔ جس نے
بھی توڑاہے میں اس کی قیمت اس کلاس کے استاد کی تنخواہ سے کاٹ لوں گا۔ ایک
اورلطیفہ جو وہ بھی ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتاہے۔ ایک شخص کسی کے گھر گیا
اس نے دروازہ پر دستک دی۔ تو اندرسے اس گھر میں رہنے والے نے اپنے بچے سے
کہا دروازے پرجاؤ۔ وہ میراپوچھے تو کہنا ابو گھرمیں نہیں ہیں۔ بچہ دروازے
پر گیا۔ آنے والے شخص نے پوچھا تیراباپ کہاں ہے۔ تو بچے نے جواب دیا کہ ابو
کہہ رہے ہیں کہ میں گھر میں نہیں ہوں۔ ایک گھر میں کمپیوٹررکھا ہواتھا ۔ اس
میں جب بھی کوئی خرابی آتی۔ تو پڑوس میں رہنے والے ایک نوجوان کو بلالاتے ۔
وہ اسے درست کردیتا ۔پھر جب کبھی وہ مزدوری مانگتا تو اس گھروالے کہتے۔
فلاں تواتنی مزدوری لیتا ہے۔ اورتواتنی زیادہ مانگ رہا ہے۔ وہ مزدوری بھی
قسطوں میں دیتے تھے۔ اسی طرح ایک دن ان کا کمپیوٹرخراب ہوا۔ اس نوجوان کو
بلایا تو ا س نے وہ نقص تو ٹھیک کردیا جو پہلے سے تھا ۔ دوسرانقص خودہی
کردیا۔ اس سے اگلے دن وہ پھر آگئے۔ اس نے کہا کہ اس کے میں دوسوروپے لوں
گا۔ وہ کہنے لگے کہ ہمیں تو فلاں کاریگر ایک سوروپے میں مرمت کرکے دیتا ہے۔
اس نے کہا اسی کے پاس چلے جاؤ۔ وہ کمپیوٹرلے کر مارکیٹ میں گئے۔ مرمت کراکے
واپس آگئے۔ اس کے بعد ایک دن ان سے اس نوجوان نے پوچھا کہ کمپیوٹرمرمت
کرانے کی کتنی مزدوری دی تھی ۔ اس نے سرجھکاتے ہوئے بے توجہی سے کہا کہ چھ
سو روپے۔ بیٹا گھر سے جانے لگا تو باپ نے پوچھا کہاں جارہے ہو۔ تو اس نے
جواب دیا کہ شہر کے بڑے ہوٹل میں این جی او کا جلسہ ہے۔ اس میں انہوں نے ان
لوگوں کے خلاف باتیں کرنی ہیں جو خواتین پر تشدد کرتے ہیں۔ وہ عوام کو
سمجھائیں گے کہ خواتین پر تشدد نہ کریں۔ تو اس کے باپ نے کہا کہ کیا کوئی
ایسی این جی اوبھی ہے جو خواتین کو سمجھائے کہ وہ ایسا کام ہی نہ کریں جس
سے انہیں تشدد برداشت کرنا پڑے۔ ہم ایک دکان میں گئے ۔ اس دکاندار سے ہماری
جان پہچان تھی۔ اوراسی کا کہنا تھا کہ کبھی کبھی آجایاکرو۔ وہاں
دکاندارخودتو نہیں تھا اس کا شاگردبیٹھا ہواتھا ۔ ہم نے پوچھا کہ آپ کے
استادصاحب کہاں گئے ہیں۔ اس نے کہا کہ دس منٹ میں آرہے ہیں۔ تیس منٹ کے بعد
ایک اورشخص نے اس شاگردسے استاد صاحب کا پوچھا تو اس نے کہا کہ دس منٹ میں
آرہے ہیں۔ بیس منٹ کے بعد ایک اورشخص آگیا تو اس کو بھی وہی جواب دیا کہ دس
منٹ میں آرہے ہیں۔ اسی طرح جو بھی آتا اس کو یہی جواب ملتا کہ دس منٹ میں
آرہے ہیں۔ وہ دکانداردوگھنٹے کے بعد آئے۔ ایک فروٹ ریڑھی والے کے پاس ایک
شخص گیا اس سے فروٹوں کا ریٹ پوچھا تو اس نے کہا کہ میں ایک سوبیس روپے فی
کلو کے حساب سے لایا ہوں۔ اب آپ جو مناسب سمجھیں مجھے منافع دے دیں۔ اس شخص
نے کہا کہ ایک سو روپے لے لو اورایک کلوگرام وزن کرکے دے دو۔ محفل میلادختم
ہونے کے بعدایک شخص کہہ رہا تھا کہ محفل جلد ختم کردیا کرو۔ کیونکہ لوگوں
نے صبح کو اٹھ کر نماز فجر بھی ادا کرنی ہوتی ہے۔ دیر سے سوئیں گے تو
نمازادا نہیں کرسکیں گے۔ باہر روڈ پر آئے تو وہی شخص جو میلاد جلد ختم کرنے
کی تاکید کررہا تھاایک ہوٹل میں بیٹھ کر میچ بڑی توجہ اور سکون کے ساتھ
بیٹھا ہوا دیکھ رہاتھا ۔یہ ہمارے معمولات ہیں۔ اس طرح کی اورکئی مثالیں ہیں
جو دی جاسکتی ہیں۔ تاہم اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اس کے اثرات کیا ہورہے
ہیں اورکیا ہوں گے۔ اس کا مشاہدہ کریں۔ ایسے ڈیزاسٹرہر جگہ پائے جاتے ہیں۔
کیا آپ کے بس میں ہے کہ ان کو روک سکیں۔ ایسا ہے تو ابھی سے اپناکردارشروع
کردیں۔ |