ابوالقاسم الزہراوی کاعہد
مسلمانوں کے عروج کی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے، زہراوی نے قرطبہ کے علمی
ماحول میں اکتساب فضل وکمال کیا، اس شہر کے تمد نی حا لا ت کا اسی سے
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُس وقت قرطبہ میں تین ہزار آٹھ سو مساجد ،
ساٹھ ہزار بلند وبالا عمارتیں، عام لوگوں کے دو لاکھ مکانات، آٹھ ہزار
دکانیں اور سات سو حمام تھے۔قرطبہ میں دس لاکھ افراد رہائش پذیر تھے جن کے
لئے حکومت کی جانب سے پچاس شفا خانے بنائے گئے تھے، قرطبہ کی شاہی لائبریری
دولاکھ کے قریب علمی اور فنی کتابوں سے بھری ہوئی تھی۔ قرطبہ کی یونیورسیٹی
اس زمانہ میں مغرب کی عظیم ترین یونیورسیٹی تھی۔ یہاں مختلف مضامین کے عالی
مرتبت علما اور ما ہرین درس وتدریس اور تحقیق وتالیف میں مشغو ل رہتے
تھے۔یوں قرطبہ اور الزھرا کو ملا کر ایک ایسا عظیم علمی شہر جنم لیتا ہے،
جس کی مثال یورپ میں کہیں نہیں ملتی، زہراوی کو ایسا علمی ماحول میسر آیا
تھاانہوں نے مکمل طور پر اس سے استفادہ کیا ان کا خاص موضوع طب تھا، اس کی
تعلیم مکمل کرکے وہ قرطبہ کے شاہی شفا خانے سے منسلک ہوگئے۔ یہاں انہوں نے
عملی تحقیق کا آغاز کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں علم جراحت کے بانی اور اپنے
دور کے سب سے بڑ ے جراح بن گئے۔ان کی مایہ ناز تصنیف ’’کتاب التصریف‘‘
سرجری کی دنیا میں ماخذ اور مرجع کی حیثیت رکھتی ہے اور کمال یہ ہے کہ اس
زمانہ سے آج تک اس کے اعتبار اور مرکزیت میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔
انہوں نے فن طبابت کے اعلی اخلاقی معیارات کو بھی قائم رکھنے کی سفارش کی
ہے، وہ کہتے ہیں کہ بیماری سے صحتیابی کے لئے ہمیں خدا کی طرف رجوع کرنا
چاہئے اور اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے ۔ اس سے ان کے ایمان و عقیدہ کی پختگی
کا اندا زہ ہو تا ہے زہراوی قرون وسطی کے اسلامی دور کے ممتاز ترین جراح ہی
نہیں تھے بلکہ وہ ایک عظیم معلم اور معالج نفسیات بھی تھے، ا نہوں نے اپنی
کتاب ’’التصریف‘‘ میں ایک خاص حصہ بچوں کی تعلیم اور اخلاق، آداب طعام،
مدارس کا نصاب تعلیم اور علمی تخصیص کے لئے مختص کیا ہے، وہ طبی تعلیم کی
حوصلہ افزائی کرتے ، اور طلبہ کو زبان، مذہب، قواعد، شاعری، ریاضی،
فلکیات،منطق اور فلسفہ میں ابتدائی تعلیم کی تکمیل پر انعامات دیا کرتے تھے،
وہ انسان کے عرصۂ حیات کو چار ادوار میں تقسیم کرتے ہیں، پہلا دور اوائل
عمری کا ، جو بیس سال کی عمر تک ہوتا ہے، دوسرا دور نوعمری کا ، جو چالیس
سال کی عمر تک قائم رہتا ہے، تیسرا دور پختگی یا ادھیڑ عمری کا ، جو ساٹھ
سال تک کا ہے اور چوتھا وآخری دور بوڑھاپے کا ، جو ساٹھ سال سے شروع ہوتا
ہے اور موت تک قائم رہتا ہے۔
اس سے اندا زہ ہو تا ہے کہ نہ صر ف طب میں بلکہ درس تدریس اور بچوں کی
نفسیا ت پر بھی ان کی گہری نظر تھی ۔ اسطرح کی شخصیا ت اور ان کے علمی کا ر
نا مو ں سے ہما را نا وا قف رہنا بے حد افسو سنا ک ہے ۔
مسلما نو ں کا ما ضی رو شن ،تا بنا ک اور لا ئق ستا ئش رہا ہے، مختلف شعبہ
حیا ت میں مسلم سا ئنس دا نوں نے گراں قدر خد ما ت انجا م دی ہیں ، مغرب نے
سا ئنسی علو م اور صنعت و ٹکنا لو جی کے میدا ن میں جو ترقی کی ہے وہ در
حقیقت خو د مسلما نوں کے چھو ڑے ہوئے تر کہ کی اسا س پر قا ئم ہے، یو رپ نے
اس میدا ن میں اس قدر ترقی کی ہے کہ اب و ہ بھو ل گئے ہیں کہ وہ کن کے شا
گر د رہے ہیں ،وہ اپنے کو استا د سمجھنے لگے اور مسلما نو ں کا شما ر اب شا
گردوں کی صف سے بھی مفقو د ہے۔
نشا ن را ہ دکھا تے تھے جو ستا روں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد را ہ د اں کے لئے
آ ج ہمیں خیا ل آ یا ہے کہ اپنی عظمت رفتہ کی تا ریخ پر ایک نگا ہ ڈا لی جا
ئے چنا نچہ ایک ہزا ر سا ل قبل کی ایک نا مور، نا بغہ رو ز گا ر شخصیت ابو
القا سم الز ھرا وی کی حیا ت و خد ما ت کو معلو م کر نے کی خو ا ہش ہو ئی
ہے اس علم وآ گہی سے ہما ری معلو ما ت میں اضا فہ بھی ہو گا اور اپنی میرا
ث کی حفا ظت کی فکر بھی لا حق ہو گی ۔
ہم اپنی مجر ما نہ غفلت کے اعترا ف کے با و جو د اپنی میرا ث سے دست بر دار
ہو نے کو تیا ر نہیں ہیں اور اپنی عظمت رفتہ کی با ز یا بی کی خوا ہش رکھتے
ہیں ۔ زہرا وی کی یا د ہمیں اسی احسا س کے پیش نظر آ تی ہے ۔ ہم اپنی غیر ت
و حمیت کو اور نو جوانا ن ملت کو کہنے لگے ہیں ۔
زما نہ ما نگ رہا ہے دعا ء ترقی کی
مگر تجھے تیرا عہد کہن ہی را س آ ئے
خرا ج تحسین کے مستحق میں ڈا کٹر محمد منظو ر عا لم چیر مین انسی ٹیو ٹ آ ف
ابجکٹواسٹڈیز نئی دہلی اور ا ن کی پو ری ٹیم، جنہو ں نے علا مہ زہرا وی
جنکا انتقا ل 1013میں ہوا ،آ ج 13-12-2013سے سہ رو زہ یا د گا ر پر و گر ا
م ، ہزا ر سا لہ الزہرا وی انٹر نیشنل کا نفرنس انڈیا اسلا می کلچرل سنٹر
دہلی میں منعقد کیا ہے ۔ جس میں ملک و بیرو ن مما لک کے ممتا ز اسکا لر س
حصہ لے رہے ہیں ۔ اس عا لمی کا نفر نس میں شر کت کر تے ہو ئے مجھے مسرت
محسو س ہو رہی ہے اس سے اپنی عظمت رفتہ کی با ز یا بی کا احسا س بھی پیدا
ہو گا ۔ |