جس طرح تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں
عناصر کے دو اثرات ہوتے ہیں عمل کے دو نتائج ہوتے ہیں اسی طرح ایک شخصیت کے
بھی دو پہلو ہوتے ہیں اور جس شخص میں بیک وقت دو طرح کی کیفیات محسوس کر لی
جائیں اسی کو دوہری شخصیت کے نام سے موسوم کیا جانے لگتا ہے حالانکہ دیکھا
جائے تو ہر انسان خواہ عورت ہو یا مرد دوہری شخصیت کا مالک ہوتا ہے بلکہ
بعض اوقات تو ایک انسان میں بیک وقت بہت سی شخصیات پوشیدہ ہوتی ہیں
بات یہ ہے کچھ لوگوں میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے باطنی
پہلوؤں کو اپنی ظاہری شخصیت کے لبادے میں کچھ اس طرح پوشیدہ رکھتے ہیں کہ
کوئی دوسرا انسان انکی دوہری شخصیت سے لاعلم رہتا ہے نہ صرف دوسرے بلکہ وہ
خود بھی اپنی شخصیت کے ہمہ تن پہلوؤں سے ناآشنا رہتے ہیں کہ لاعلمی بھی بڑی
نعمت ہے (لیکن چند صورتوں میں) بعض اوقات لاعلمی انسان کو نقصان بھی پہنچا
سکتی ہے
خیر بات ہو رہی تھی دوہری شخصیت کی تو آج ہم بھی ایسی ہی ایک دوہری شخصیت
کا ذکر کریں گے جنہیں ہماری رفاقت میسر ہے اور شاید انہیں دنیا میں ہم سے
زیادہ کوئی اور نہیں جانتا موصوف بیک وقت اپنی طرف سے تو شاعر بھی ہیں اور
نثر نگار بھی لیکن دوسروں کی نظر میں کیا ہیں خود بھی نہیں جانتے اور نہ ہی
انہیں اس بات کی کوئی پروا ہے کہ کوئی کیا کہتا ہے کیا نہیں کہتا بس اپنی
دھن میں مگن جب دل میں جو کچھ آیا کہہ ڈالا جو محسوس کیا لکھ ڈالا پھر نہ
کوئی سوچ بچار نہ کسی کا صلاح مشورہ نہ کوئی ترتیب و ترمیم بس اپنی رو میں
بہتے ہوئے کہتے اور لکھتے چلے جانا اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ جب موصوف
نثر لکھتے ہیں تو کسی معلم سے کم نہیں لگتے اپنی ذات کے دائرے میں رہتے ہیں
لیکن تحریر سے یوں لگتا ہے بقول شاعر ‘سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘
خود سے بےخود اپنی ذات سے بےپروا دوسروں کی فکر میں خود کو گھلائے جاتے ہیں
دوسروں پر کسی بات کا اثر ہو نہ ہو بس اپنی بات سنائے چلے جاتے ہیں اور جب
ان کے اندر کا شاعر بیدار ہوتا ہے تو دنیا و مافیہ سے بے خبر جیسے ان کے
علاوہ دنیا میں کوئی اور ہے ہی نہیں نرم مزاج دوسروں سے محبت کرنے والے
اپنے علاوہ سب کا خیال رکھنے والے خاص طور پر بچوں کے لئے ہر دلعزیز شخصیت
جب اپنی دنیا میں غرق ہو کر جو کچھ تخلیق کرتے ہیں ان کی نثر سے کسی طور
مطابقت نہیں رکھتا روایتی شاعروں کی طرح کے پکے عاشق لگتے ہیں کہ جکی زندگی
محض دشت حسن و عشق کی سیاحی میں گزری ہے اور ہجر و فراق کے صدموں سے نڈھال
دل کو دلاسہ دینے کی تدبیریں کرتے ہیں یا پھر اپنے طلسماتی محبوب کے درشن
کے انتظار میں سرراہ کسی دیئے کی مانند دل کو جلائے پلکوں کو بچھائے بیٹھے
ہیں
کہتے ہیں کہ کوئی بھی تخلیق تخلیق کار کی شخصیت کا عکس ہوتی ہے جبکہ موصوف
کی ہر دو متضاد تخلیقات جو نظم اور نثر کی صورت میں راقم کے سامنے آئی ہیں
اسی سے اندازہ ہوا کہ راقم کے یہ ساتھی ایک نہیں دو شخصیات کے مالک ہیں اور
ان کی دوہری شخصیت نے راقم کو اس موضوع پر آمادہء تحریر کیا ہے
موصوف کی شاعری اور نثر میں انتہائی تضاد پایا جاتا ہے نثر میں کوئی اور
شخصیت جھلکتی ہے اور شاعری میں اس کے برعکس روپ دھار کر سامنے آتے ہیں راقم
نے اپنے دوست کی دوہری شخصیت کو دیکھتے ہوئے محسوس کیا ہے کہ شاید ہر انسان
میں دو شخصیات موجود ہوتی ہیں جو کہ حالات و واقعات اور انسان کی کیفیات کے
مطابق پوشیدہ و ظاہر ہوتی رہتی ہیں کہ کوئی بھی انسان ہمیشہ ایک سی کیفیت
میں نہیں رہتا بلکہ ہر انسان بیک وقت دو طرح کی زندگی گزارتا ہے ایک اپنی
اور ایک دوسروں کی باالفاظ دیگر ایک زندگی اپنے لئے گزارتا ہے اور ایک
زندگی دوسروں کے لئے
جہاں انسان کا دوسرے انسانوں پر حق ہے اسی طرح انسان کا اپنی ذات پر بھی
پورا پورا حق ہے جب انسان دوسروں کے لئے اپنی زندگی کا دھارا موڑ سکتا ہے
تو پھر وہ اپنے لئے اپنی زندگی اپنی طرز پر گزارنے کا حق بھی رکھتا ہے
بشرطیکہ اسکی ذات سے کسی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو
انسان کی شخصیت داخلی و خارجی دو طرح کے اثرات کے زیر اثر تکمیل پاتی ہے سو
انسان کی شخصیت انہیں اثرات کے یعنی داخلیت و خارجیت کے زیر اثر خود بخود
دوہری شخصیت میں ڈھلتی چلی جاتی ہے
انسان چاہے کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو کسی جنس سے تعلق رکھتا ہو سب سے پہلے
وہ انسان ہے اور بحیثیت انسان کے انسان کی فطرت انسان سے کچھ اور تقاضا
کرتی ہے ہر انسان کی اپنی ذہنی وجسمانی اور روحانی ضرویات ہیں کہ جنہیں
پورا نہ کیا جائے تو انسان کی خارجی و روحانی شخصیت برباد ہو کر رہ جاتی جو
کسی بھی انسان کی روحانی موت ہے جبکہ روح ہی خاکی انسان کی حیات حقیقی ہے
اس لئے انسان کو اپنے داخلی رجحانات کو پروان چڑھنے کا موقعہ میسر آنا
چاہیے بشرطیکہ یہ رجحانات مثبت نوعیت کے ہوں
جبکہ دیگر مذہبی و معاشرتی پابندیاں اور قواعد و ضوابط کے زیر اث انسان کو
اپنی سوچ اور عمل کا دائرہ تبدیل کرتے ہوئے خود کو داخلیت کے زیر اثر بھی
ڈھالنا پڑتا ہے کہ انسان اپنے بغیر بھی نہیں رہ سکتا اور اکیلا بھی نہیں رہ
سکتا انہی معاشرتی اصولوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ انسان کو اپنے احساسات و
جذبات اور روھانی ضروریات کا بیک وقت خیال رکھنا ہی کسی انسان کو دوہری
شخصیت کا مالک بناتی ہے
دوہری شخصیت کے مالک ہونا کوئی بری بات نہیں ہے اگر انسان کی شخصیت کے
دونوں پہلوں مثبت نوعیت کے حامل ہوں اور انسان کی شخصیت کے کسی بھی پہلو سے
کسی دوسرے کی حق تلفی نہ ہو کسی کو کسی بھی اعتبار سے کسی بھی قسم کا کوئی
نقصان نہ پہنچے تو دوہری شخصیت ہونے میں کوئی حرج نہیں بلکہ بعض اوقات
دوہری شخصیت کے مالک افراد کی شخصیت کے دونوں پہلوؤں سے انسانوں اور
انسانیت کی بھلائی کے بہت سے کام لئے جا سکتے ہیں |