Allah Almighty says: And do not consume one anothers
wealth unjustly or send it to the rulers in order that they might aid
you to consume a portion of the wealth of the people in sin, while you
know it is unlawful.
ترجمہ :اور آپس میں ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس
ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگو ں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھا لو جان
بوجھ کر:
رشوت معاشرے کیلئے ایک ایسا ناسور ہے جو کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور
اس کا شکار لقمہ جہنم بن جاتا ہے۔ کسی معاشرے میں جب رشوت عام ہوجاتی ہے تو
عدل وانصاف کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے نتیجہ معاشرے کا امن وسکون برباد
ہوجاتا ہے۔اختلاف، انتشار، خلفشار جیسے عوامل عام ہو جاتے ہیں افراد میں
اخوات ومحبت،ہمدردی و بھائی چارہ ، اتحادو یگانگت ناپید ہو جاتے ہیں۔بغض
وعناد، نفرت،عداوت وشکاوت کا آتش فشاں ابل پڑتا ہے اور امن وآشتی ،اعتمادو
اعتقاد کو جلا کر خاک کردیتا ہے۔ جب رشوت کے بل بوتے ایک مستحق کو اس کے حق
سے محروم کردیا جاتا ہے تو معاشرے کا ہر فرد ایک دوسرے پر جبر و استبداد کو
اپنا شعار بنا لیتا ہے۔اور معاشرہ بدنظمی اور بدعملی کی تصویر بن جاتا ہے ۔رشوت
ایک sin grave majorہے۔جس سے اخلاقی اقدار کا ستیا ناس ہوجاتا ہے اچھے برے
کی تمیز ختم ہوجاتی ہے۔نفسانی خواہشات کا غلبہ ہوجاتا ہے حق وباطل ،حرام
وحلال،جائز و ناجائز کا فرق مٹ جاتا ہے اور رشوت ستانی اس معاشرے کا خاصہ
بن جاتی ہے۔ اس حوالے سے کوئی دورائے نہیں ہیں کہ رشوت لینے والا اور دینے
والا دونوں جہنم کا یندھن بننے والے ہیں۔
ہمارے ملک کا کوئی بھی شعبہ اور طبقہ ایسا نہیں جہاں یہ ناسور رائج العام
نہ ہو ۔ججز سے لیکر منشی تک ،سیکرٹری سے لیکر کلرک تک، آئی جی سے لیکر
کانسٹیبل تک ،تقرری سے لیکر ریٹائرمنٹ تک ،صنعتکار سے لیکر مزدور تک ہر ہر
قدم پر رشوت کا بازار گرم دکھائی دیتا ہے۔ جہاں رشوت ستانی نے اخلاقیات کا
جنازہ نکال دیا ہے وہیں پر انسانی جسم وجان کیلئے بھی ایک خطرہ ہے۔پل ،
بلڈنگز، پلازہ، روڈز،ڈیمزکی تعمیرات میں رشوت استعمال کرکے غیرمعیاری اور
ناقص میٹریل کے استعمال کے مذکورہ بالا تعمیرات زمین بوس ہو جاتی ہیں جس سے
سرکاری خزانے کو نقصان کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کے ضیاع کا بھی سو فیصد
امکان و احتمال موجود ہوتا ہے۔اسی طرح صحت کے شعبے میں غیر معیاری ادویات
کے استعمال سے مریض کی جان بچنے کی بجائے جان لے لی جاتی ہے ۔ کوئی بھی
اتھارٹی یا بااختیار شخص مختلف کمپنیوں کو انسانوں کو مارنے یا ان کی صحت
سے کھیلنے کا لائسنس جاری کردیتا ہے ۔کوئی پرسان حال نہیں۔ بااثر شخص کے
خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ۔ وہ اس معاشرے میں دندناتے پھرتے رہتے
ہیں۔معاشرے میں رشوت ستانی کے جو نقصانات واثرات مرتب ہوتے ہیں او ر جس سے
معاشرہ بد نظمی و بدعملی کا شکار ہوجاتا ہے تو اسکی اصل ذمہ داری حکومت وقت
اور صاحب اقتدار وارباب اختیار پر ہوتی ہے۔اگر حکمران عادل ہوں گے انصاف
پسند،ایمان دار ،خدا ترس اور نیک ہوں گے تو اس معاشرے میں برائیوں کی مقدار
بہت کم ہوگی۔رشوت اور بدعنوانی جیسے مکروہ اور گھناؤنے افعال اپنی موت آپ
مرجائیں گے اور اگر معاملہ الٹ ہوگا یعنی حکمران وافسران ،راشی،کاہل،
خودغرض اور نااہل ہوں گے تو معاشرے میں ظلم کا دورہ ہوگا ۔Black marketing,
Favouratism, undue favour,Napotism, Corruption, Bribery۔جسے عوامل معاشرے
کا دیوالیہ نکال دیں گے۔آجکل ایک نیا ٹرینڈ کہ رشوت کو بطور تحفہ دیا اور
لیا جاتا ہے یہ حقیقت ہے کہ رشوت اور تحفہ میں مشابہت ہے لیکن یہ بھی حقیقت
ہے رشوت میں جھوٹ اور سوچ میں کمینہ پن شامل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد
صرف اور صرف ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح افسر یا با اختیار شخص کی توجہ ،
خوشنودی اور تعاون حاصل ہوجائے ۔جب کہ تحفہ خالصتا خلوص اور بے لوث جذبے کا
نام ہے ۔علماء کرام کے نزدیک حاکم وقت ،گورنر یا کسی بھی افسر کو تحفہ دینا
جائز نہیں ہے یہ رشوت کی ایک قسم ہے۔
کسی دفتر کے افسر سے مجھے کچھ کام لینا تھا
کہا میں نے کہ فدوی ہوں ذرا نظر عنایت ہو
جواباْ یہ کہا اس نے کہ رشوت سے تو تائب ہوں
اگر چاہو تو تحفے میں ایک کمپیوٹر بھجوادو
اس لیے حکمران ،افسران اور ارباب اختیار کو میں سمجھتا ہوں کہ مندرجہ ذیل
باتوں کا خیال رکھنا چائیے۔
(1)مقدمات کے فیصلے بلا امتیاز وتفریق کیے جائیں۔کیونکہ آپﷺ نے فرمایا
فیصلہ کرنے کے سلسلے میں رشوت لینے اور دینے والے پر اﷲ نے لعنت فرمائی۔
(2)حاجت مندوں کو ناحق اپنے دفاتر اور دروازوں پر انتظار نہ کرایا جائے۔
(3)حکمران وافسران قناعت پسندی کو اپنا شعار بنائیں۔
(4)فنڈز کا استعمال جائز اور ضرورت کے تحت کریں۔
(5)رشوت لینے اور دینے والوں کو بلا تمیز نشان عبرت بنایا جائے۔
(6)اپنے فرائض منصبی ایمانداری سے سر انجام دئیے جائیں
(7)نا اہل اور سفارشی لوگوں کو قطعی appointنہ کیا جائے ۔مستحق اور اہل کو
ذمہ داری دی جائے کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بقول شاعر
سوئی میں دھاگہ ڈالنے والی نوکری پہ
انہہ ایک سلیکٹ ہوا ہے انہے واہ
(8)خود بھی اور اپنے اہل وعیال کو رزق حرام سے بچائیں۔
(9)ڈیوٹی کے اوقات میں آفسز میں اپنے آپ کو پابند کیا جائے اور اسے احسن
طریقے سے نبھایا اور پورا کیا جائے ۔کیونکہ رزق حلال عین عبادت ہے۔اس ڈیوٹی
کے حوالے ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔
ایک سرکاری ملازم کے گھریلو حالات بہت دگرگوں تھے قرض بھی سر چڑھا ہوا تھا
ایک بزرگ کے پاس گیا اور اپنی تنگ دستی اور معاشی حالات بیان کیے اور اپنے
سرکاری فرائض کی ادائیگی کے بارے میں بھی بتایا تو بزرگ نے کہا کہ ان مسائل
پر قابو پانے کا ایک ہی طریقہ ہے لیکن اس پر عمل کرنا مشکل ہے سرکاری ملازم
نے کہا کہ آپ بتائیں میں یہ عمل کروں گا ۔بزرگ نے کہا کہ اپنی تنخواہ میں
سے 500روپے لینا کم کردو۔سرکاری ملازم یہ بات سن کر ہکا بکا رہ گیا کہ یہاں
تو پیسوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں قرض چڑھا ہوا ہے تنگد ستی نے ڈیرے ڈل رکھے
ہیں۔بجائے اضافہ کے کم رقم (تنخواہ) لینے کی بات کررہے ہیں۔ لیکن وہ کچھ
کہتے کہتے خاموش رہ گیا اور چلا گیا ۔تقریباٌ چار چھ ماہ بعد دوبارہ حاضر
خدمت ہوا اور بتایا کہ میں نے آپ کی بات پر عمل کیا اور صورت حال یہ ہے کہ
تنگدستی ختم ہوگئی۔لیکن بچت اور قرض باقی ہے۔بزرگ نے فرمایا کہ مزید
500روپے اور کم کردو۔ یہ نصیحت لے کر وہ پھر چلا گیا کچھ عرصہ بعد دوبارہ
آیا تو بہت خوش تھا کہ قرض بھی اتر گیاہے۔تنگدستی بھی ختم ہوگئی ہے بچت
نہیں ہوتی۔بزرگ نے مزید 500روپے کم کرنے کا کہہ دیا ۔اگلی مرتبہ جب حاضری
دی تو سرکاری ملازم نے بتایا کہ محترم گھرمیں خوشحالی ہے ،قرض اتر چکا ہے
اور اب کچھ پس انداز بھی ہوجاتا ہے لیکن یہ معمہ میر ی سمجھ میں نہیں آیا
کہ کم تنخواہ لینے پر یہ سارے معاملات درست ہوگئے حالانکہ میر ی ضرورت
زیادہ تھی ۔بزرگ نے فرمایا میر ے دوست آپ اپنے آفس میں جتنی ڈیوٹی انجام
دیتے ہو تو یہ 1500روپے اس سے زائد وصول کرتے تھے جس کی وجہ سے برکت اٹھ
چکی تھی ۔جب اجرت سے زیادہ لینا بند کیا تو برکت ہوئی اور آپ کے تمام مسائل
دور ہوگئے ۔
تو محترم قارئین یہ بھی کرپشن کی ہی ایک قسم ہے کہ اپنی ڈیوٹی کے اوقات میں
فرائض منصبی ادا نہ کرنا،یا پھر احسن طریقے سے ادا نہ کرنا ۔ہمارے ہا ں
اکثر دیکھا گیا ہے کہ آفیسرز دیر سے دفتر آتے ہیں۔اخبار کا مطالعہ کرتے ہیں
چند دوستوں سے ملاقات کرتے ہیں اور وقت سے پہلے ہی گھر کو سدھار جاتے ہیں
اور جب کبھی کا م کیا تو تحفہ (رشوت) بھی لیتے ہیں تو ان کے گھر میں
پریشانی ،مسائل،بیماریاں مستقل ڈیرہ ڈال لیتی ہیں اور تنگدستی کارونا ان کا
معمول ہوجاتا ہے۔وزیر اعلی پنجاب نے یہ اقدام اٹھاکر اس ناسور کو ختم کرنے
کی ایک سعی کی ہے مگر یہ کاوش اس وقت بارآور ہوگی جب تقریبات کی بجائے اس
کو عملی طورپر نافذ کیا جائیگا اوراس بات کا خیال رکھاجائے گا کہ کوئی انہہ
انہے واہ سلیکیٹ نہ ہوجائے ۔لہذا ہمیں چاہیے کہ جہنم کا ایندھن بننے کی
بجائے جنت کا کوئی درخت ،پودا بن کرزندگی گزارنا معمول بنالیں ۔ خود بھی
خوش رہیں اور خلق خدا کو بھی سکون فرحت بخشیں۔ |