پاکستان میں فیشن شو کی دوڑ

آج کل پاکستان میں فیشن شو کی دوڑ ہے،ان فیشن شوز میں پاکستانی فیشن ڈیزائنرز سب سے آگے ہیں۔ پاکستانی فیشن انڈسٹری نے جس تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔ان کی باز گشت اب ملک ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں سنائی دیتی ہے۔ پاکستان فیشن انڈسٹری ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ کئی ممالک کے فیشن ڈیزائنرز اور ماڈلز بھی اِن کے ساتھ کام کرنے کے خواہشمند ہیں۔ کئی ایک پاکستان کے ماڈلز اور ڈیزائنرز بھارت، عرب ممالک، امریکا اور یورپین ممالک میں فیشن شوز کرچکے ہیں۔ جس سے گارمنٹس اورفیشن انڈسٹری کو بے پناہ ترقی ملی ہے۔ پاکستان میں فیشن کی مقبولیت گزشتہ دس برسوں میں دو چند ہوئی ہے۔ یہ فیشن لوئرمڈل کلاس سے اپر کلاس تک سب کے لیے ڈیزائن تیا ر کئے جا تے ہیں۔ کئی کالجز اور یونیورسٹیسز میں فیشن کی ڈگری جاری کی جارہی ہے اس وجہ سے ہر سال ڈیزائنرز ماڈلز اور بیوٹیشن کی ایک بڑی تعداد فیشن انڈسٹری میں داخل ہوتی ہے۔اس کے علاوہ بے شمار ملٹی نیشنل اداروں کی آمدنے بھی فیشن انڈسٹری کی ترقی کو چار چاند لگادیے ہیں کپڑوں کی ڈیزائننگ سے لے کر جوتوں جیولری اور عینکوں تک سب کچھ ڈیزائن کیا جارہا ہے۔ ان تمام اشیاء کو بہتر کوالٹی کی بدولت نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک میں بھی برآمد کیا جارہا ہے۔ جس سے کثیر زرمبادلہ حاصل ہورہا ہے۔ پاکستان کی فیشن انڈسٹری میں کراچی کے بعد لاہور اور اسلام آباد کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ان شہروں میں لاتعداد آؤٹ لیٹس اور مسلسل ہونے والے فیشن شوز، انڈسٹری کی ترقی کو ظاہر کرتے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کے نامور اور صف ِ اول کے ڈیزائنرز، ماڈلز اور میک اپ آرٹسٹ گل زیب آصف کے ملٹی ڈیزائنرز سٹور کی افتتاحی تقریب دبئی میں منعقد ہوئی جس میں پاکستان، بھارت اور عرب ممالک کے ڈیزائنرز کے ملبوسات ایک ساتھ رکھے گئے ہیں تاکہ صارفین کو ایک ہی جگہ تمام سہولیات میسر ہوں۔پاکستان کی سب سے بڑی پی آر کمپنیSavvy Prand Events نے اس فنکشن کو آرگنائز کیا ،جس میں ماڈلز نے ان تمام ڈیزائنرز کے موسم گرما کے ملبوسات کی نمائش بھی کی۔ جن ڈیزائنرز کے ملبوسات اس سٹور میں رکھے گئے ہیں ان میں آصفہ اینڈ نبیل، فراز منان، عاصم جفا، گل زیب، خلودبن عرب، نجوہ عمران،Ennz Jewellery، sonar، وردا ، سعد یہ مرزا،Paislay and Tunics by Jazz کے علاوہ یمنی منصور، حاجرہ حیات، شعیب شفیع شامل تھے۔تقریب کے مہمان خصوصی بالی وڈ فلم ’وکی ڈونر ‘کے پشمان کھرانہ تھے اس کے علاوہ پاکستان سپر ماڈل’’ایان‘‘ ٹی وی آرٹسٹ اعجاز اسلم، عدنان صدیقی اور مہوش حیات کی شرکت نے بھی تقریب کو رونق بخشی۔ پاکستانی مصنوعات خصوصاً فیشن ویئر پوری دنیا میں مقبول ہو رہی ہیں۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے مابین یہ طے پایا تھا کہ برطانیہ پاکستان کیساتھ 2.5 بلین پونڈ کی تجارت کرے گا جبکہ اس وقت بھی ایک اعشاریہ چھ 1.6 بلین پونڈ کی تجارت شروع ہے۔اگلے سال جنوری سے پاکستان کو جی ایس پی پلس ڈیوٹی فری ایکسزز مل جائے گا ۔ جس سے برطانیہ یورپ میں پاکستانی مصنوعات کی مقبولیت بھی بڑھے گی اورہمارے وطن پاکستان کا نام بھی روشن ہوگا۔پاکستان فیشن اینڈ)فیشن ڈیزائنر اور ماڈل محمد معاذ کا کہنا ہے کہ ماڈلنگ میرا شوق ہے جبکہ فیشن ڈیزائننگ مستقبل میں میرا پروفیشن ہوگا۔ موجود دور میں پاکستان فیشن ڈیزائننگ میں بڑی ترقی ہوئی ہے۔ اور اس فیلڈ میں بڑا اچھاکام ہو رہا ہے۔ اب پاکستانی فیشن ڈیزائنر کی دنیا بھر میں مانگ بڑھ رہی ہے اور ان کا کام پسند کیا جاتاہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ خوش آئند امرہے کہ نامساعد حالات کے باوجود فیشن انڈسٹری نے ترقی کی ہے اور اس فیلڈ میں لوگ سرمایہ لگا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں خود کو پرفیکٹ ماڈل نہیں سمجھتا یہ اور بات ہے کہ لوگ فیشن شوز میں میری کیٹ واک کو پسند کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ جب اس فیلڈ میں آتے ہوئے لڑکے لڑکیاں گھبراتے تھے اور ماڈل بننے کو براسمجھا جاتا تھا مگراب ٹرینڈ بدل گیا ہے پڑھے لکھے لوگ اس شعبے میں آرہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پیرس میں پاکستانی سفارت خانے کی طرف فیشن شوکا انعقاد ہوا تھا ،فیشن شو میں لاہوراورکراچی کے اعلی ڈیزائنرز کے تیار کردہ ملبوسات شرکا کیلئے پیش کئے گئے، جس میں شرکا نے منفرد اوردلکش ملبوسات میں خوب دلچسپی کا اظہار کیا،فرانس کے دارالحکومت پیرس میں پاکستانی سفارت خانے میں لاہوراورکراچی کے اعلیٰ ملبوسات ڈیزائنرز نے اپنے تیار کردہ ملبوسات فیشن شومیں رکھے، فیشن ڈیزائنگ سے تعلق رکھنے والوں نے فیشن شو میں منفرد اور دلکش ملبوسات میں بھر پور دلچسپی سے حصہ لیا، شرکاء پاکستانی ڈیزائنروں کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اب پاکستانی ڈیزائنرز کے ملبوسات کی مصنوعات کا دیگرممالک کی مصنوعات سے موازانہ کرکے خریداری کی جاتی ہے کہ کس کی کوالٹی اورمعیاربہترہے ۔ پاکستانی فیشن گارمنٹس بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ماڈل واداکارہ عمائمہ ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان فیشن انڈسٹری نے دنیا بھر میں اپنا مقام اپنے کام سے بنایا ہے مجھے فخرہے کہ میں مختلف نجی کمپنیزکی برانڈ ایمبسیڈرہونے کی وجہ سے پاکستان کی متعددملکوں میں نمائندگی کرچکی ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہمارے ہاں جن چیزوں کا فقدان تھا خوشی ہے کہ ہم اب ان کا خلاپرکرچکے ہیں ایک سوال کے جواب میں عمائمہ ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنے ڈرامے کوماضی کے مقابلے میں بہت بہترکیاہے ہمارے فنکارمعیاری کام کررہے ہیں میں سمجھتی ہوں کہ نئے فنکاروں کوبھی اگرمواقع فراہم کیے جائیں توہم مزیدبہتری کی طرف جائینگے۔ انسان کوکسی بھی مقام پرخودکومکمل نہیں سمجھناچاہیے ہرلمحہ کچھ نیاسیکھنے کے لیے ہوتا ہے انھوں نے مزیدکہا کہ ڈرامہ رائٹراگرروایتی کہانیوں سے نکل کراپنے اندازمیں تبدیلی لائیں اورکچھ نیاپیش کرنے کی کوشش کریں ہم اب ساس بہوپرڈرامے کاآغازکرکے اس کااختتام نہیں کرسکتے۔ ہمارے یہاں اب فیشن کے اسکول اور انسٹی ٹیوٹ کھل رہے ہیں اور ان میں کام ہورہا ہے۔ ایسا ہی ایک ادارہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف فیشن اینڈ ڈیزائن (Pakistan Institute of Fashion and Design) ایک ڈیزائن ادارہ ہے جو ڈیزائن کی تعلیم کے لیے مخصوص ہے۔ اس کے علاوہ کئی اسکولز بھی کھل گئے ہیں جہاں فیشن ڈیزائن کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان میں پاکستان اسکول آف فیشن ڈیزائن، پاکستان اسکول آف فیشن مارکیٹنگ اینڈ پروموشنز، پاکستان اسکول آف ٹیکسٹائل ڈیزائن، پاکستان اسکول آف ایکسیسریز اینڈ پروڈکٹ کے نام قابل ذکر ہیں۔معروف فیشن ڈیزائنر ریحانہ نثار نے کلفٹن میں واقع ایمرالڈٹاور میں ایر این فیشن کے نئے اسٹور کی افتتاحی تقریب اور فیشن شو میں حصہ لیا۔ اس فیشن شو میں پاکستانی کی اسٹار ماڈلز نے شرکت کی جن میں متیرا سمیت فوزیہ امان، ثنا خان، صائمہ ہارون، ابیر عدیل ، فلک شیخ اور دیگر شامل تھیں۔ اس تقریب میں سی اے ایس 360کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر فرحان احمدنے کہا کہ آر این فیشن جدید ملبوسات کی دنیا میں ایک بہترین نام ہے جس میں ہر موسم کے ملبوسات تیار کئے جاتے ہیں۔ پاکستان اوربھارت کے معروف ڈیزائنرز کے موسم سرما کی مناسبت سے تیارکردہ ملبوسات پر مبنی ’’فیشن پریڈ‘‘ لندن میں ہوئی ۔ جس میں ماہین خان، نومی انصاری، ثانیہ ماسکاٹیا، لیلیٰ چتور، مشعال معظم، سارہ روحیل اصغر، نازنین طارق،مریم نجمی جب کہ بھارت سے ترن تیلانی اور منیشن اروڑا سمیت دیگرشامل ہوئے ۔ ’’فیشن پریڈ‘‘ میں پاکستان اور بھارت کے معرورف ڈیزائنرز کے علاوہ لندن میں کام کرنیوالے معروف فیشن ہاؤسز نے بھی اپنے ملبوسات کو ریمپ پرمتعارف کروایا۔ شو کے منتظمین انسائیکلومیڈیا کی روح رواں عمارہ حکمت اور مستنگ پروڈکشنز کی مینجنگ ڈائریکٹر سعدیہ صدیق نے کا کہنا تھا کہ اس شو کے ذریعے ہماری کوشش ہے کہ پاکستان اوربھارت کے معروف ڈیزائنرز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے، اور دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر کرنے میں بھی خاصی مدد ملے گی۔ ایک نیا فیشن یہ بھی ہوا ہے کہ پاکستانی فیشن ڈیزائنرز اپنے ڈیزائن بھارتی فنکاروں کے ذریعے متعارف کرا رہے ہیں۔ حال ہی میں فیشن فرازمنان کے ڈیزائن کردہ ڈیجیٹل پرنٹس کو کرشمہ کپور نے زیب تن کرکے ان ملبوسات کی ماڈلنگ کی ہے۔فیشن ڈیزائنر فراز کا کہنا ہے کہ پاکستانی فیبرکس کو دنیا بھر میں متعارف کرانے کیلئے ہم نے بین الاقوامی شہرت یافتہ فنکارہ کرشمہ کپور کو اپنا برانڈ ایمبیسڈر بنایا ہے،اس سے دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی و تجارتی تعلقات خوشگوار ہونگے۔ ان ملبوسات کی ڈیمانڈ بنگلہ دیش ، بھارت ، برطانیہ ، دبئی اور پاکستان بھر کے شہروں میں ہوچکی ہے۔ بھارتی اداکارہ کرشمہ کپور نے پاکستانیوں کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ فلم انڈسٹری سے دور ہونے کے بعد بھی پاکستانیوں کے دلوں میں میری محبت جان کر بہت مسرت ہورہی ہے، حالانکہ اس وقت تو میری بہن کرینہ کپورکی مقبولیت کی دھوم ہے، پاکستان کی مٹی میں جو چاہت و انسیت ہمارے خاندان کیلئے پنہاں ہے ،اس کی وجہ میرے دادا راج کپور ہیں ، جن کا جنم بھی پاکستان کے شہر پشاور میں ہوا تھا۔وہ اپنی جنم بھومی کے حوالے سے بہت جذباتی ہوجاتے تھے۔ میرے والد رندھیر کپور ، چاچا رشی کپور پاکستان کے دورے کی حسین یادوں کا اکثر ذکر کرتے رہتے ہیں، میری بھی خواہش ہے کہ دادا کی جنم بھومی کو دیکھوں ،کاش دونوں ممالک کے درمیان نفرتوں کے بجائے محبتیں پروان پاجائیں۔ذرائع نے بتایا ہے کہ اس تشہیری مہم کیلئے کرشمہ کپور کو پرکشش معاوضہ دیا گیا ہے۔ پاکستان کے دیگر فیشن ڈیزائنر ز بھی بھارتی اداکاراؤں اور اداکاروں سے بھی رابطے میں ہیں، خواتین کیساتھ ساتھ مردوں کیلئے بھی خصوصی ڈیزائن کردہ ملبوسات کی ماڈلنگ کیلئے برانڈ ایمبیسڈر ز بنانے کیلئے سرگرم ہیں۔ ان میں سے اکثر فیشن ڈیزائنر ممبئی اور دبئی میں ان کے شوٹ کرانے کراتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی برانڈ میں بھارتی فنکاروں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی سے پاکستانی ماڈلز میں پریشانی کی لہر ڈور گئی ہے، ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی پروڈکٹس کی تشہیر ی مہم کیلئے بھارتی فنکاروں کا انتخاب کسی المیہ سے کم نہیں۔ پاکستانی فیشن انڈسٹری کو معاشی بحران سے دوچار کرنیکی سازش کی جارہی ہے۔چند لوگ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ممبئی جاکر ان فنکاروں کی ناز برداریاں کرتے ہیں، اس سے پاکستان کا امیج بھی خراب ہورہا ہے۔فیشن انڈسٹری کی بقا و فروغ کیلئے ایک پالیسی بنانی ہوگی تاکہ پاکستانی ماڈلز اور فیشن ڈیزائنرز کا بھی تحفظ ہوسکے ۔ ان دنوں پاکستانی فیشن ڈیزائن کونسل کے زیر اہتمام لاہور میں برائیڈل فیشن ویک جاری ہے،جس میں ڈیزائنر نے اپنی عروسی کولیکشنز کی نمائش کی۔برائیڈل فیشن ویک میں ماڈلز نے عروسی ملبوسات زیب تن کرکے ریمپ پر کیٹ واک کے جلوے بکھیر ے۔ ڈیزائنر فہد حسین کی کولیکشن میں برصغیر کی تہذیب کی جھلک نمایاں تھی جسے شائقین نے بہت پسند کیا۔ ڈیزائنرمشا لاکھانی کی کولیکشن بھی شرکا کی دلچسپی کا مرکزبنی رہی۔برائیڈل ویک میں زیورات اور ماڈلز کے میک اپ پر بھی خصوصی توجہ دی گئی تھی۔ فیشن شو کی وبا اب ملک کے دیگر شہروں میں بھی پھیل گئی ہے۔ کچھ دن پہلے ملتان کے نجی ہوٹل میں ہونے والے فیشن شو میں مقامی ڈریس ڈیزائنرز نے اپنی خوبصورت کلیکشن پیش کی۔ مشرقی اور عروسی ملبوسات زیب تن کیے ماڈلزنے ریمپ پر دھنک رنگ بکھیر دیے۔ خوبصورت میک اپ ، دیدہ زیب ملبوسات اور ماڈلز کی اداؤں نے شام کومزید حسین بنادیا۔ اس موقع پر مردانہ کلیکشن کو بھی حاضرین نے بہت پسند کیا۔ فیشن شو میں اداکارہ میرا کی شرکت نے چارچاند لگادیے۔ سرخ عروسی جوڑے میں ملبوس میرا نے مخصوص ادا سے سلام کیا تو حاضرین داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔ پورے شو میں میرا شائقین کی توجہ کا مرکز بنی رہیں۔ایک طرف یہ رجحان بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف ماہرین یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ فیشن انڈسڑی کو حکومتی سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی ٹیکسٹائل کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔ فیشن کے رنگوں نے تمام عمر کے لوگوں کواپنا متوالا بنارکھا ہے۔آئے دن معروف ڈیزائنرزاپنی خداداد صلاحیتوں کے بل پرایسے ملبوسات تیارکررہے ہیں جولوگوں کی شخصیت کو پرکشش بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اس سلسلہ میں پاکستان فیشن انڈسٹری سے وابستہ معروف ڈیزائنر بھی پاک وطن کو دنیا بھر میں متعارف کرانے کیلئے کوشاں ہیں۔ موجودہ دور میں فیشن انڈسٹری بہت سے سنگ میل پارکرتی ہوئی اب مغربی دنیا تک پہنچ رہی ہے۔ ہمارے کلچر کی عکاسی کرتے ملبوسات مغربی ممالک میں بسنے والوں کی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں۔ ایک طرف تو خوبصورت رنگوں میں تیار کردہ ملبوسات ہیں اور پھر ان کو جس مہارت کے ساتھ سجایا، سنوارا جاتا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ڈیزائنرز کے تیار کردہ ملبوسات اب لندن میں بسنے والی خواتین بھی استعمال کرنے لگی ہیں۔بلکہ دیارغیر میں بسنے والی پاکستانی کمیونٹی تو شادی بیاہ اور اسی طرح کی دیگر رسومات پر پاکستانی ڈیزائنرز کے تیار کردہ ملبوسات کو ہی ترجیح دیتی ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔برطانیہ کے شہرلندن میں ہونیوالی ’’فیشن پریڈ‘‘ میں پاکستان سے معروف ڈریس ڈیزائنرماہین خان، نومی انصاری، ثانیہ مسکاٹیا، مشعال معظم، لیلیٰ چتر، سارہ روحیل اصغر اور نازنین طارق کے ملبوسات تھے جبکہ بھارت سے ستیاپال اورترن تیلانی نے بھی شومیں اپنے ڈریسز متعارف کروائے۔ شومیں برطانیہ کی ٹاپ ماڈلز ریمپ پرجلوہ گرہوئیں جنہوں نے ملبوسات کے ساتھ جیولری، ہیئر سٹائلنگ اور دیگر اشیاء کو متعارف کروایا۔ ریمپ پر چلتی معروف ماڈلز فیشن کی جدت اورپاکستانی ثقافت کی عکاسی کررہی تھیں جبکہ بھارتی ڈیزائنرز کے ملبوسات میں مغرب کی جھلک نمایاں تھیں۔ اس طرح سے ’’فیشن پریڈ‘‘ مشرق اور مغرب کا خوبصورت ’ فیوڑن ‘ محسوس ہورہی تھی۔ عمارہ حکمت جو ایسے شوز کو ڈیزائن کرتی ہیں کہتی ہیں کہ دیارغیر میں پاکستانی کلچر کی عکاسی کرنے کا تجربہ بہت کامیاب رہا۔ ہمارے ملک کے معروف ڈیزائنرز کے تیار کردہ ملبوسات کو بہت پسند کیا گیا۔ خاص طور پر نوجوان لڑکیاں جن کی پرورش برطانیہ میں ہوئی ہے اور وہ زیادہ تر اپنے پہناوے میں ترجیح جینز، ٹی شرٹس کو دیتی ہیں، وہ بھی ہمارے ملبوسات کو پسند کررہی تھیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ مغرب اور مشرق کے کلچر کی عکاسی کرتے ملبوسات بھی تیار کریں جس کا اچھا رسپانس ملتا ہے۔ ’’ فیشن پریڈ‘‘ میں لندن میں بسنے والی اہم شخصیات کے ساتھ معروف فیشن ہاؤسز کے لوگوں کی کثیر تعداد بھی موجود تھی، جنہوں نے شو میں ہمارے ملبوسات دیکھ کر مستقبل میں مل کرکام کرنے کی پیشکش کی۔ ’مستنگ پروڈکشنز‘ کی چیف ایگزیکٹوسعدیہ صدیقی کہتی ہیں کہ پاکستانی ڈیزائنرز بہت تیزی کے ساتھ فیشن ورلڈ میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ پاکستان میں فیشن کے بدلتے رجحانات کی پسندیدگی اور پڑھے لکھے نوجوانوں کا فیشن انڈسٹری میں آنا ہے۔ فرانس ، اٹلی اوردیگریورپی ممالک میں پاکستانی ڈیزائنرز کے ملبوسات کوبہت پسند کیا جاتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ وہ وقت دور نہیں ہے جب یورپ کے معروف فیشن ہاؤسز میں پاکستانی ڈیزائنرز کے تیارکردہ ملبوسات بھی موجود ہونگے۔ پاکستان میں ٹیلینٹ کی کوئی کمی نہیں ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی سرپرستی کی جائے۔

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387918 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More