علامہ ارشد القادری اور تعلیمی خدمات

قائد اہل سنت علامہ ارشد ا لقادری مصباحی ملت کے سچے درد مند رہنما تھے: تنظیم ابنائے اشرفیہ
19دسمبر 2013بروز جمعرا ت ’’عرس قائد اہل سنت‘‘ کے موقع پرخصوصی تحریر

قائد اہل سنت علامہ ارشد ا لقادری مصباحی رحم ربہ القوی ( ولادت 5مارچ /1925 وصال 29 اپریل 2002ء) عمدہ ادیب ،ممتاز عالم دین ، بلند پایہ مفکر ، عظیم مصنف ، مخلص داعی ، بے مثال مناظر، متعدد مساجد و مدارس کے بانی اور کئی تحریکوں اور تنظیموں کے سرپرست و سربراہ ہونے کی و جہ سے عالمی شہرت کے حامل ہیں ۔آپ کی دینی ،ملی دعوتی ، تبلیغی، تعلیمی اور تعمیری خدمات کا دائرۂ کار صرف بر صغیر ہندو پاک نہیں بلکہ یورپ اور افریقہ کی سنگلاخ وادیوں تک پھیلا ہوا ہو ا ہے۔ ذیل میں ہم قائد اہل سنت کے مورخہ 19دسمبر 2013بروز جمعرا ت عرس قائد اہل سنت کے موقع پر آپ کی صرف تعلیمی اور تنظیمی سرگرمیوں کا قدر ذکر کرہے ہیں ۔

آپ نے بر صغیر کی شہرۂ آفاق درسگاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپورمیں جلالۃ ا لعلم حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد ا لعزیز محدث مرادآ بادی علیہ ا لرحمہ کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہ کرنے کے بعد اپنی پوری زندگی قوم مسلم کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کردی تھی۔ا ٓپ قوم وملت کے سچے بہی خواہ اوردرد مند تھے ہمہ وقت قوم مسلم کی فلاح و بہبود کے لئے کوشاں رہتے ان کی ترقی کے لئے ہمہ د م جد و جہد کرتے اگرامت مسلمہ پر کوئی پریشانی آتی تو آپ پریشان ہوجاتے ۔ ان کا ہر قدم ملت کی فلاح کے لئے اٹھتا اور ہرلمحہ ملت کی بہبود کے لئے سوئے منزل رواں دواں رہتا ۔آپ امت مسلمہ کو باہم متحد و متفق دیکھنا چاہتے تھے کیوں کہ انہیں اپنے استاذ حضور حافظ ملت کی بارگاہ سے علم حکمت کے ساتھیہ انمول موتی بھی ملی تھی کہ ’’اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت ہے ‘‘ یہی وجہ تھی کہ امت مرحومہ کے اتحاد اتفاق کی دیوار میں نقب زنی کرنے والوں سے ہمیشہ بر سر پیکار رہے اور جماعت اہل سنت کو باہم متحد رکھنے کے لئے ہمیشہ جد و جہد کرتے رہے ۔اور اس سلسلے میں جو بھی زد میں آیا علامہ موصوف نے بھرپورتنقید کی۔

جیسا کہ اپنے معاصرخطیب مشرق علامہ مشتاق احمد نظامی کو ان کی کوتاہیوں کا احساس دلاتے ہوئے ادبی پیرائے میں اپنے خط کے ذریعے رقم طراز ہیں ’’زحمت نہ ہو تو شہرت و برتری کے عرش سے نیچے اترآئے تاکہ ہم خاکساران گوشہء گمنامی آپ سے کچھ باتیں کرسکیں ۔خوشگوار لب و لہجہ میں جناب سے التماس کررہاہوں کہ ’’مسلم متحدہ محاذ ‘‘جو ہماری ہمت اور عزم کا آخری پیمان ہے اس کی طرف غفلت و سرد مہری ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے ۔یاتو اس قدم پر آپ کو حق رفاقت کی ادائیگی سے اپنی دست برداری کا اعلان کر دینا چاہئے تھا۔یا اب آپ بیچ مجدھار میں چھوڑ کر ساحل کا لطف اٹھا رہے ہیں حلیفوں کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنا مرگ ننگ سے کم نہیں ہے میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ آپ کی صلاحیتوں سے ہماری توقعات وابستہ تھیں انہیں انتہائی بے دردی کے ساتھ آپ نے کچل دیا بے چارگی کے عالم میں مبادا ہماری ہمتوں نے دم توڑ دیا توآپ منھ چھپانے کے لئے نا مرادیوں کا کوئی مدفن تلاش کرلیجئے گا ۔

آپ کی مصلحت انگیز فراست پر کیا حرف رکھ سکتا ہوں آپ کی بارگاہ بہت اونچی ہے مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ انفرادی اعزازکی قیمت پر جماعت کی آبرو کو بھینٹ چڑھا دینا کسی طرح بھی قرین مصلحت نہیں ہے۔ کاش! میرے قلم سے آتش سیال کے قطرے ٹپکتے اور میں آپ کے حریم ناز تک اپنے دل رفتہ وار کی تپش پہونچا سکتا ۔میرے پیارے !مرگ انبوہ جشنے دارد ۔ وقت آگیا ہے ایک ساتھ اٹھیں اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایمان و اعتقاد کی ہلاکتوں پر فتح پانے کی کوشش کریں۔ میں اپنی اس تلخ تاب تحریر پر آپ سے کوئی معذرت نہیں کرتا کہ اگر صور اسرافیل مجھے مستعار ملی ہوتی توآپ کی بیداری کے لئے ہنگامہء محشر برپا کردیتا‘‘ ۔( خط بنام مولانا مشتاق احمد نظامی محررہ 28نومبر1986ء بحوالہ جام نور کا رئیس ا لقلم نمبر ص 72 )

علامہ ارشد ا لقادری اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کے خوابیدہ قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور دینی و ملی شیرازہ بندی کے لئے تنظیم و تحریک کی اہمیت وافادیت نا گزیر ہے کیوں کہ جو قوم جتنی منظم اور مربوط ہوگی تعمیرو ترقی کے میدان میں وہ اسی قدر ترقیاں کرکے مضبوط ومستحکم ہوگی جیسا کہ آج سیکڑوں باطل نظریات کی حامل تنظیمیں اور تحریکیں ترقی کی شاہ راہ پر گامزن ہیں اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے نظام عمل میں کسی قسم کی کوتاہی کو دخیل نہیں ہونے دیتی جب کہ ’’جماعت اہل سنت کے درمیان تنظیمی لا مرکزیت اور دستوری قیادت کے فقدان کا ماتم ایک عرصۂ دراز سے کیا جارہا ہے یہاں تک کہ اب ہماری سنجیدہ محفلوں کا موضوع سخن بن گیا ہے جہاں تک جماعتی شیرازہ بندی کے لئے کوشش کا تعلق ہے ہمارے اکابر نے متعدد بار اس کے لئے کوشش فرمائی ملک کے طول و عرض سے جماعت کے ذمہ دار رہنما بھی جمع ہوئے ہیں پرجوش امنگوں کے سائے میں کل ہند سطح پر جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے بھی تیار کئے گئے لیکن ساری جد و جہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ یکے بعد دیگرے کل ہند سطح پر کئی تنظیمیں ہمارے یہاں معرض و جود میں آئیں اور کوئی بھی تنظیم بھی اپنے لیٹر پیڈ ، اپنے سائن بورڈ اور اپنے مخصوص حلقے سے آگے نہ بڑھ سکی ( ماہنامہ پاسبان الہ آبادستمبر 1979ء)

تنظیمی ڈھانچے کے مضبوط نہ ہونے کا نقصان بتا کر اس کو منظم کرنے کی تر غیب دلاتے ہوئے فرماتے ہیں’’ سچ پوچھئے تو اغیار کی بنسبت ہمارے لئے جماعتی تنظیم کا کام بہت آسان ہے کیوں کہ کروڑوں اکائیوں میں ہمارے افراد پہلے سے ہی موجود ہیں صٓرف انہیں ایک رشتے میں منسلک کرنا ہے ۔ تنظیم نہ ہونے کی باعث ہم اجتماعی زندگی کے مسائل سے فرار کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ہم قوم سے دن بدن دور ہوتے جارہے ہیں ‘‘ ( ماہنامہ پاسبان الہ آبادستمبر 1979ء)

اس لئے مضبوط و مستحکم تنظیم کی بنا قائد اہل سنت علماء و مشائخ اہل سنت کے ساتھ خصوصاً مبلغ اسلام علامہ شاہ احمد نورانی اور پیر طریقت معروف نوشاہی سے تباد لہ خیال کے بعد مکۃ ا لمکرمہ میں ایک عالمی تنظیم ’’الدعوۃ ا لاسلامیۃ ا لعالمیۃ‘‘ کی1972ء میں بنا ڈالی جس کی ہیڈ آفس متعدد سہولتوں کے پیش نظر انگلستان کا مشہور شہر بریڈ فورڈ نام زد کیا گیا جو ’’ورلڈ اسلامک مشن لندن ‘‘ کے نام سے دنیا کے ایک درجن سے زائد ممالک میں اسلام کی نمائندگی کرتی رہی ہے اور فی ا لوقت اس تنظیم کے جنرل سکریٹری علامہ قمر ا لزماں اعظمی مصباحی ہیں جو عالمی سطح پر دعوت و تبلیغ کا مقدس فریضہ انجام دے رہے ہیں ماضی میں ر بہت سے بین ا لاقوامی مسائل کے حل اور امت مسلمہ کی فلاح و بہبود کے لئے دنیا کے مختلف ملکوں میں بھی اس مشن کے وفود نے علامہ ارشد ا لقادری کی قیادت میں تبلیغی اسفار کئے چنانچہ 28دسمبر 1982میں سرزمین ایران پر بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی اوریہاں پر اقلیت میں موجود سنی مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لیا توان کی پریشانیوں کو دیکھ کر آپ تڑپ اٹھے اور عالم اسلام تک ان کی پریشانیوں کے ازالے کے لئے پیغام پہونچایا ’’اس وقت ایران میں مذہب اہل سنت جس نزع کے عالم میں ہے اگر فوری طور پر اس کی رگوں میں خون فراہم نہیں کیا گیا تو اندیشہ ہے کہ دس پندرہ سال میں سنی مذہب ایران سے ختم ہوجائے گا۔ تہران جہان پانچ لاکھ سنی مسلمان آبادہے انہیں آج تک اپنی مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ملی جب کہ وہاں عیسائیوں کے بارہ گرجے ،ہندوں کے دو مندر ،سکھوں کے تین گرودوارے ،یہودیوں کے دو عبادت خانہ اور مجوسیوں کے دو آتش کدہ ہیں لیکن سنیوں کی ایک مسجد بھی نہیں۔

ذیل کی تحریروں سے بھی علامہ کی تنظیمی سرگرمیوں کا پتہ چلتا ہے چنانچہ سید محمد جیلانی میاں کو وہ برطانیہ سے ارسال کردہ ایک خط میں لکھتے ہیں ’’ورلڈ اسلامک مشن کی ایک مہم پر کویت جارہاہوں ۔وہاں سے عراق ،شام سعودی عرب اور ترکی کاپروگرام ہے ۔حکومت برطانیہ کے محکمہء تعلیم اسلامک مشینری کالج کی منظوری آخری مرحلے میں ہے ( ماہنامہ المیزان بابت اگست 1975ء ص 4) رضا اکیڈمی ممبئی الحاج سعید نوری صاحب کو لکھتے ہیں آج میں پندرہ دن کے دورے پر ڈھاکہ بنگلہ دیش جارہا ہوں وہاں ااہل سنت کا بین ا لاقوامی اجتماع ہورہاہے اس کے بعد ( تنظیم کا ) پورے بنگلہ دیش کے طول و عرض میں مربوط پروگرام ہیں ( محررہ 10فروری1992ء بحوالہ ارشد کی کہانی ارشد کی زبانی ص 31) پروفیسر فاروق احمد صدیقی کو ارسال کرد ہ اپنے ایک مراسلے میں لکھتے ہیں 5ا کتوبر 1986 کو لیبیا اور برطانیہ کے دورے سے واپس لوٹا تو آپ کا دستی خط موصول ہوا ( محررہ خط 12نومبر1986ء سہ ماہی رفاقت پٹنہ )

1982ء میں دارا لعلوم امجدیہ کراچی پاکستان کے دوران سفرمسلمانوں نے گزارش کی حضور ہمارے پاس کوئی ایسی منظم تحریک نہیں جو ہماری ہمہ وقت دینی رہنمائی کرکے ہم غافل مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کی حفاظت فرمائے چنانچہ آپ کے فولادی دل پر ان سیدھے سادھے جملوں کا ایسا اثر ہو کہ آپ نے فرمایا کہ ’’مجھے ایک کمرے میں بند کردو میں اب میں ایک تحریک لے کر ہی کمرے سے باہر نکلوں گا ‘‘چنانچہ آپ نے نہایت یکسوئی کے ساتھ ایک عالم گیر تحریک کا نقشہ تیا ر کیا اس کے اصول و آئین وضع کئے او ر اس سلسلے میں مولانا شاہ احمد نورانی مفتی ظفر علی نعمانی ، اور مفتی وقار ا لدین رضوی سے مختلف مراحل میں تباد لہ خیال کے بعد اس کا نام ’’ دعوت اسلامی ‘‘ رکھا اور مفتی وقار ا لدین رضوی کی نشاندہی پر قائد اہل سنت علیہ الرحمہ نے مولانا الیاس عطار قادری کو اس تنظیم کا امیر بنا یا جن کی بے لوث اور گراں قدر خدمات نے تحریک دعوت اسلامی کا پیغام دنیا کے170 ممالک میں قرآن و سنت کو عام تام کرنے کی شکل میں نمایا ں طورسے انجام دے رہے ہیں اور ابھی پورے اخلاص کے ساتھ دین و ملت کے فروغ استحکام میں لگی ہوئی ہے’’ سرینام ‘‘کے مسلمانوں کے مسائل کو حکومت تک پہونچانے کے لئے ملک گیر سطح پر ایک موثر تنظیم کی بنیاد’’ سورینا مسلم پولٹیکل کونسل ‘‘ کے نام سے رکھی ۔ ( فغان درویش : از علامہ ارشد ا لقادری ص:130 بحوالہ کاروان رئیس ا لقلم نمبر سال 2011ء) ۔ اس کے علاوہ بھی علامہ نے تنظیمیں اور تحریکیں قائم کیں لیکن مذکورہ بالا دونوں تحریکیں ابھی تک فروغ دین میں مصروف عمل ہیں ۔

رئیس ا لقلم علامہ ارشد ا لقادری کا ایک خصوصی وصف رہا ہے کہ آپ نے دعوت و تبلیغ کے لئے آسان اورنرم جگہوں کاانتخاب کرنے کے بجائے ہمیشہ دشوار گزار اور سنگلاخ وادیوں میں علم و حکمت کا سبزہ اگانے کی کوشش کی چنانچہ جامعہ ا شرفیہ مبارکپور سے فراغت کے بعد آپ درس و تدریس کے لئے ناگپور تشریف لے گئے اور وہاں سے اپنے محسن استاذ حضور حافظ ملت علیہ ا لرحمہ کے حکم سے ٹاٹا جمشید پور تبلیغ دین کے لئے تشریف لے گئے جہاں آ پ کو نہ کوئی جانتا نہ پہچانتا بس تبلیغ دین کا جذبہ آپ کے سینوں میں موجزن تھا اور جد و جہد جاری رکھی یہاں تک کہ ٹاٹا جیسی مضبوط فیکٹری کے شہر میں 1952ء میں مدرسہ ’’ فیض ا لعلوم‘‘ کے نام سے ایک دینی فیکٹری کی بنیاد رکھ دی جہاں سے اب تک آہن گری کے اصول نہیں بلکہ انسان گری کے اصول سیکھ کر اس کے پروڈکٹ مارکیٹ میں دستیاب ہیں ( رئیس ا لقلم نمبر سال 2011ء ص 45) ۔ بہار میں مسلمانوں کے اضطراب انگیزماحول کودیکھ کر قائد اہل سنت نے بہار میں بڑے پیمانے پر بہار صوبائی سنی کانفرنس منعقد کی اور مئی 1967ء میں قلب راجدھانی پٹنہ میں ’’ادارہ شرعیہ پٹنہ ‘‘کی داغ بیل ڈالی آج یہ ادارہ پوری قوت کے ساتھ بہار کے سنی مسلمانوں کی مذہبی قیادت کی ذمہ داریوں کو انجام دے رہا ہے ۔سہارنپور جو کسی زمانے میں اولیاء ا ﷲ کا مسکن و مولدرہاہے آپ 1984ء میں حکیم محمد قادری کی دعوت پرسہارنپور یوپی تشریف لے گئے وہاں ایک مدرسہ کے قیام کے لئے جد و جہد شروع کردیا آخر قلب شہر ایک وسیع و عریض رقبہ پر 26اپریل 1987ء میں’’ جامعہ غوثیہ رضویہ ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ کی بنیاد رکھی ۔بنگال میں قدیم مدرسہ دارا لعلوم ضیاء ا لاسلام ہوڑہ کی بنیادرکھی اس کے علاوہ گوہاٹی آسام بنگلور وغیرہ سمیت ملک کے مختلف صوبوں میں درجنوں مدارس اور سیکڑوں مساجد کی بنیا د رکھی ۔

3 198ء میں کچھ احباب کی دعوت پر قائداہل سنت نے ہالینڈ کا سفر کیا اگر علامہ چاہتے تو معتقدین کا ایک حلقہ بناکر واپس آجاتے مگر آپ نے وہاں مسلم امہ کے دین و ایمان کی حفاظت کے لئے مبلغ اسلام علامہ شاہ احمد نورانی اور ان کے حلقہء اثر کے تعاون سے’’ جامعہ مدینۃ ا الاسلام ‘‘کے نام سے ایک دینی تعلیمی مرکز کا قیام کیا ۔ چند مہینے مسلسل ہالینڈ میں رہ کر ڈچ ، انگریزی اوور فرنچ زبانوں میں تقریر کرنے والے مبلغین کی ایک ٹیم تیار کرکے وطن واپس ہوئے ( فغان درویش :از علامہ ارشد ا لقادری)4 جون 1988ء میں اس ادارے میں جشن دستار بندی کے موقع سے بحیثیت فاونڈر اور چیرمین آپ نے شرکت کی تو یورپ میں اسلام کے فروغ کے لئے ایک ایسا منصوبہ پیش کیا جس کی رو سے انہیں بچوں کو عالم بنایا جائے جن کی مادری زبان ڈچ ، انگریزی اوور فرنچ وغیرہ ہے چنانچہ اس منصوبہ کو زمین پر اتارنے کے لئے علامہ نے کیتھولک عیسائیوں کی ایک وسیع کالج کی عمارت ساٹھ لاکھ ڈالر میں خرید لی( فغان درویش از علامہ ارشد ا لقادری ص 133) ۔ 1988میں سورینام ( جنوبی امریکہ ) جیسی شوریدہ زمین پر آپ نے قدم رکھا تو سرینام کی راجدھانی ’’ پاراماری بو‘‘ میں دارا لعلوم کے نام سے ایک تعلیمی مرکز قائم کیا ( فغان درویش : از علامہ ارشد ا لقادری ص:130 بحوالہ کاروان رئیس ا لقلم نمبر سال 2011ء)ااس کے علاوہ بھی علامہ موصوف کی سربراہی اور قیادت میں بہت سے مدارس اور مکاتب معرض وجود میں آئے جن کی تفصیل علامہ کے حالات سے متعلق کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔

حاصل گفتگو یہ ہے کہ قائد اہل سنت رئیس ا لقلم علامہ ارشدا لقادری علیہ الرحمہ کی دعوتی ، تبلیغی اور ملی خدمات سے جہاں امت مسلمہ فیضیاب ہورہی ہے وہیں علامہ سے وابستہ لاکھوں مسلمانوں کے لئے علامہ کی اپنی قوم و ملت کے تئیں بے لوث خدمت بھی مشعل راہ ہے اور ہم سب کو مل جل کر قومی ، ملی اور مذہبی مفاد کے تحت امت مرحومہ کی صحیح رہنمائی کرکے اپنی دینی اور دنیاوی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرنا چاہئے ۔ اﷲ تعالی ہم سب کو صحیح معنوں میں اجتماعی اور انفرادی طور سے ملت کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے ( آمین)
( مولانا) محمد عارف حسین مصباحی :کنوینر تنظیم ابنائے اشرفیہ شاخ ہوڑہ

MD Arif
About the Author: MD Arif Read More Articles by MD Arif: 32 Articles with 58873 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.