وہ ستمبر کی بھیگی سی شام تھی۔ رومان کی پریاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔چندا
کی اجلی اجلی نکھری نکھری روشنی میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں۔
چندا ان کی روح شکن اٹھکیلیاں دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مے نوشی پر اتر آیا تھا۔ مے
کی ننھی منی بوندیں۔۔۔۔۔۔۔۔گلاب کے پرشباب چہرے پر ٹپک رہی تھیں۔ یوں محسوس
ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گلاب مدہوش ہو کر اپنی ہستی کھو دے گا۔ گلاب کی وہ
آخری شب تھی۔ یہ دستور زمانہ رہا ہے کہ جب گلاب شباب کی حدوں کو چھوتا ہے
تو گلچیں آ ٹپکتا ہے۔ پھر وہی پھول زندگی کے مخلتف شعبوں میں غلامی کی
سانسیں گزارتے ہیں۔ ان کی آہ و بکا سننے والا کوئ نہیں ہوتا۔ ٹہنی سے بچھڑے
پھول کی اوقات ہی کیا ہوتی ہے۔ کچھ سہرے کی لڑیوں کا مقدر بنتے ہیں تو کچھ
حسرتوں کے مزار پر۔۔۔۔۔۔۔۔اگست کی دھوپ میں۔۔۔۔۔۔۔۔نشان عبرت بنتے ہیں۔ وہ
آہ بھی نہیں کر پاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کریں بھی کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کون سنے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاخ
سے بچھڑے پھول کے پاس یہ حق نہیں ہوتا۔
اگر وہ شاخ پر ہوتا تو اس کی کوئ حیثیت بھی ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئ مقام ہوتا۔
میں بھی شاخ سے جدا ایک بےباس پھول ہوں۔ قطعی مجبور بےبس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاچار۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے
احوال کہنے کے مجھ سے حقوق چھین لیے گیے ہیں۔ میں منہ میں زبان رکھ کر بھی
گونگا ہوں۔اگر آواز اٹھاؤں گا تو کون سنے گا۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں کسی کے پاس اتنا
وقت کہاں جو وہ کسی شاخ بریدہ کو خاطر میں لائے۔
اس شام دن بھر کی فائل کاری نے ذہن پر ایک بوجھ سا ڈال رکھا تھا اور میں
صوفے پر نیم درازز خود کو جھوٹی تسلیوں سے بہلانے کی ناکام سعی کر رہا تھا۔
چار سو پھیلی چندا کی رومان پرور کرنیں
میرے دل ودماغ پر ہتھوڑے برسا رہی تھیں۔ میرے گرد تنہائ کی آگ پھیل رہی تھی۔
باغی دل و دماغ پر قابو پانا دشور ہو چلا تھا۔ کئ بار سوچا لائٹ آن کرکے
خود کو مصنوعی روشنی کے حلقوں میں گم کر دوں۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ میں ایسا نہ کر سکا۔۔۔۔۔۔ایسا
کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ اگر ہر چیز انسان کے بس میں ہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسالل
کبھی جنم نہ لیں۔ مجبوری ہی درحقیقت مساءل کی جڑ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں مجبوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔بےبسی
کی دراز باہوں کے حصار سے بچ نکلنا منی منے کا کوئ کھیل نہیں۔
پھر اچانک کسی نے میرے شعور دریچے پر دستک دی۔ کئ چہرے میری آنکھوں کے
سامنے رقصں کرنے لگے۔ میں گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ کون ہو سکتا
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ پھر کسی نے چپکے سے میرے کان میں سر گوشی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یار
اپنے عامر کی چاپ کو نہیں پہچانتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں تمہارا اپنا
عامر۔ وہ عامر ہی تھا۔ جو صدیوں سے زندگی کی برہنہ لاش کو اپنے نحیف کندھوں
پر اٹھاءے مسلسل اور متواتر دوڑے چلا جا رہا تھا۔اب وہ کافی لاغر ہو گیا
تھا۔ چہرے کی سرخی ہلدی ہو گئ تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کے جسم سے
کسی نے پورا خون نچوڑ لیا ہو۔ اس کے قدموں میں لڑکھڑاہٹ تھی۔ اس کا وجود
لرز رہا تھا۔ خود میرے اپنے اعضا بھی تو ڈھیلے پڑ گیے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔چند
لمحے۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں چند لمحے خاموشی کی لحد میں اتر گیے۔ پھر اس نے خاموشی کا
قفل توڑا۔
شاہد جاگ رہے ہو؟ مگر کیوں‘ سو جاؤ۔ کب تک یوں ہی گھلتے رہو گے۔ میں تمہارا
اپنا ہوں مجھ سے بھی اپنا دکھ چھپاتے ہو۔ اس دکھ سے آزادی حاصل کرو ورنہ
میری طرح تم بھی اپنے وجوو میں نہ رہو گے۔ تمثالی زندگی بڑی کٹھن ہوتی ہے۔
یہ سسکنے بھی نہیں دیتی۔
سو جاؤ دوست اب سو جاؤ
یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو۔ کچھ کہو۔۔۔۔۔۔ کچھ تو کہو
کب تک سنو گے۔ کیا کچھ سنو گے۔ فرزانہ نے خود کشی کر لی
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔خودکشی۔۔۔۔۔۔۔
یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟!
سچ کہہ رہا ہوں۔ اس کی آواز میں بیکراں کرب تھا۔
شاہد بھلا کیا کر سکتا تھا۔ سسک کر رہ گیا۔
فرزانہ بڑے اعلی اخلاق و ذوق کی مالک تھی۔ اس نے عامر کو تنہائ کے بحر عمیق
سے نکال کر گلابوں کے دیس میں لا کھڑا کیا تھا۔ اس کا دامن مسکرہٹوں سے بھر
دیا تھا۔
عامر نے بات جاری رکھی اور دل پر پتھر رکھتے ہوءے بتایا
اس روز کافی گرمی تھی۔ فرزانہ اپنے ابو کا سر دبا رہی تھی۔ اس کے کانوں سے
شمیم کی کرخت آواز ٹکرائ۔ فرزانہ اس کے تیور دیکھ کر لرز ہی تو گئ۔
“فرزانہ مجھے تخلیہ میں تم سے کچھ کہنا ہے۔“ فرزانہ اسے اپنے کمرے میں لے
آئ۔ چند لمحے خاموشی طاری رہی پھر اس کے زہر آلود الفاظ سے خاموشی کا بت
ٹوٹا۔
“سنو فرزانہ! آج میں تم سے آخری فیصلہ کرنے آئ ہوں۔ اگر تم نے میری باتوں
پر عمل نہ کیا تو جانتی ہو کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔تم ذلت کے گہرے کھڈ میں جا گرو
گی۔ تمہارے ساتھ وہ کچھ ہو گا جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتیں۔ جان رکھو
بےکسی کا عالم اتہائ عبرت ناک ہوتا ہے۔“
پھر وہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہوئ۔ کیسی ہم راز سہیلی تھی۔ کوئ لحاظ کوئ
مروت۔۔۔۔۔۔یوں لگتا تھا جیسے اس سے یہ سب چھن گیا ہو۔
“میں عامر اور تمہاری تحریریں شہر بھر میں بانٹ دوں گی۔ پھر رسوائ دیمک بن
کر تمہیں اور تمہارے امی ابو کو چاٹ لے گی۔ ان لمحوں کو آواز دو گی لیکن یہ
لمحے واپس نہیں آئیں گے۔ مجھے صرف اتنا کہنا ہے میرے رستے سے ہٹ جاؤ یہی
تمہارے اور تمہارے خاندان کے لیے بہتر ہے۔ میں نہ کچھ سننا اور ناہی مزید
کچھ کہنا چاہتی ہوں۔“
وہ یہ کہہ کر دوسرے کمرے میں چلی گئ۔ فرزانہ کا جسم ٹھنڈا پڑ گیا۔ اسے یوں
لگا جیسے گھڑی پل کی مہمان ہو۔ الفاظ کے ہتھوڑے اس کے سرد اور بےجان سے جسم
پر ضربیں لگاتے رہے۔ اس نے سوچا اپنی بات اپنی اس وقت تک رہتی ہے جب تک
دوسرے کان تک نہیں پہنچتی۔ پھر اس نے اپنی اور اپنے والدین کی عزت بچانے کا
فیصلہ کیا اور شمیم کو زخمی مسکراہٹ کے ساتھ یہ تحریر لکھ کر دے دی:
عامر صاحب!
آج کے بعد مجھ سے ملنے یا پیغام بھجوانے کی کوشش نہ کرنا۔ میرا آپ سے نہ
کوئ تعلق تھا اور نہ کوئ تعلق ہے۔ میری اس تحریر کو غیر سنجیدہ نہ لینا۔
میری شادی کا فیصلہ میرے ابو کریں گے۔ انہیں تم قطعی ناپسند ہو۔ ہم ایک
دوسرے کے نہ کچھ تھے اور نہ کچھ ہیں۔
فقط اپنے ابو کی فرزانہ
شمیم جانے کو تو چلی گئ لیکن خیالات کا منہ زور طوفان چھوڑ گئ۔ یہ سب اس نے
دل پر پتھر رکھ کر لکھ کر دیا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی اب کیا کرے۔ کیا وہ عامر
کے بغیر زندہ رہ سکے گی۔ وہ عامر کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہ کر سکتی
تھی۔ وہ سوچتی گئ جذبات سلگتے رہے۔ پھر اس نے آخری فیصلہ کیا اور الماری کی
جانب بڑھ گئ جہاں خواب آوار گولیوں کی شیشی پڑی تھی۔ یہ گولیاں اس کے ابو
استعمال کرتے تھے۔ اس نے سب گولیاں اپنے حلق میں انذیل لیں۔ یہ حقیقت ہے کہ
درد کی دوا درد ہی ہو سکتی ہے۔ گولیوں نے اس کے پیاسے من کی پیاس بجھا
دی۔فرزانہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں اپنے عامی کی فرزانہ ابدی نیند سو چکی تھی۔
یہ داستان زہر بجھے تیر سے کسی طرح کم نہ تھی۔ اس نے دیکھا‘ عامر کا دم
گھٹنے لگا ہے اور پھر اس نے روح سے خالی زندگی سے خلاصی حاصل کر لی۔ ہاں اس
کے چہرے پر اب سکون نمایاں ہو گیا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے بت دو روحوں کا
سنگم دیکھ رہا ہو اور زندگی کی کرب ناکی کے بھاری بوجھ نے اس کے بے حس و
حرکت پڑے وجود کو سفلتا عطا کر دی ہو۔ ہو سکتا ہے یہ میری سوچ کا کاشانہ ہو
لیکن یہ سب وہم وگمان بھی نہیں ہو سکتا۔ کچھ ضرور تھا۔ رخصت ہوتے‘ روح نے
اپنی رخصتی کے آثار چھوڑ دیے تھے۔ سرگوشی کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ عامر
فرزانہ کے دیس جا چکا تھا۔ ہاں اس کی سرگوشی کی خوشبو ابھی باقی تھی۔
یہ سب اس نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے بھول پاتا۔ کربناک
لحموں کی بازگشت تازیست یادوں کے نہاں گوشوں میں اپنا تمثالی وجود برقرار
رکھتی ہے۔ یادوں کا تمثالی وجود نیند کے جھونکوں کا انتظار نہیں کرتا۔
موقعہ بہ موقعہ اپنے اٹوٹ وجود اور قلبی رشتے کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ اسے
اس سے کوئ غرض نہیں ہوتی کہ کسی پر کیا گزرے گی۔ بازگشت کا رشتہ اگر مٹی ہو
جائے تو گزرا کل اپنی معنویت کھو دے اور صیغہ تھا لایعنی ہو کر رہ جاءے۔
1970 یکم جولائ
|