یہ شہر کی بڑی مشہور نایاب آرٹ گیلری تھی ، یہاں اکثر نو
آموز اور معروف مصوروں کی تصویروں کی نمائش لگتی۔ تصویری نمائش دیکھنے
والوں میں یوں تو ہر ، ہر نسل اور ہر جنس کے لوگ ہوتے لیکن اس تفریق کے
باوجود بھی ان ایک قدر مشترک ہوتی وہ یہ کہ ان سب کا تعلق ایک کلاس سے ہوتا
، پوش طبقہ تھنڈی لمبی گاڑیوں میں گھومنے والے سنگ مر مر کی بنی ہوئی دیوار
و چھت کے سائے تلے بسنے والے وال ٹو وال کارپٹ سے مزین ڈیکوریٹ دفتر میں
چمچماتی ہوئی میز کے گرد اونچی اور گھومنے والی لچکدار کرسیوں پر بیٹھنے
والے اکثر اپنی شاموں کو انجوائے کرنے موڈ اور موسم کے حساب سے کلب نہ جاتے
سوئمنگ نہ کرتے کسی آرٹ گیلری کی دیواروں کا سہارا لیے اس فن کو خراج تحسین
پیش کرتے جو عشق مجازی کے پیکر لطیف سے سفر کرتا ہوا اب دور حاضر کے عالمی
مسائل و واقعات کی منظر کشی کر رہا ہے۔
” ہاوئ سویٹ ، یہ ننگی بے بی گندے پانی سے کھیلتی ہوئی کتنی کیوٹ لگ رہی ہے
” شہر کی غریب آبادی کی صفائی پر ایک طنز مصور نے کیا تھا مگر اس طنز پر
ہونے والا تبصرہ مصور کی چشم بینی سے بڑھ گیا تھا۔
” یار تم نے دیکھا ان سارے درختوں کی ہریالی کو ہماری تیز رفتار زندگی نے
کیسا مٹیالا بنا دیا ہے۔”
” ہونہہ ، بھلا اب ان درختوں ، پودوں کی خاطر دنیا کی تیز رفتار ایجاد سے
دامن تو نہیں چھڑایا جا سکتا ، جس طرح کہا اونٹ پر بیٹھیں گے ، کہا بیٹھو ،
کہا کوہان کا ڈر ہے ، کوہان تو ہوگا ، با لکل اسی طرح کہا کار چلائیں گے ،
کہا چلاوئ کہا دھویں کا ڈر ہے ، دھواں تو ہوگا “” دونوں دوستوں نے ایک آواز
میں کہا اور قہقہہ لگا تے ہوئے اگلی تصویر کی سمت بڑھ گئے۔
یہ اور اسی طرح کے تماشے اکثر ہوتے اور صاحبان ثروت چند لمحے ایزی فیل کر
کے سب کچھ بھول جاتے مگر جب نایاب آرٹ گیلری نے ایک دن با لکل انوکھی نمائش
کا اہتمام کا اعلان کیا تو سب حیران رہ گئے۔
آئینوں کی نمائش ، بھلا آئینے میں کیا قدرت ، نمائش کی خاص بات یہ تھی کہ
نایاب آرٹ گیلری کے منتظمین نے اخبار ورسائل کے ذریعے یہ اعلان کیا کہ اس
نمائش میں ہر وہ فرد شامل ہو سکتا ہے جو سمجھتا ہے کہ اس کے پاس جو آیئنہ
ہے وہ کوئی ندرت ، حسن یا خاصیت رکھتا ہے۔ نمائش کی تاریخ کا ابھی اعلان
نہیں کیا گیا تھا منتظمین کی خواہش تھی کہ پہلے وہ اس اشتہار کے ذریعہ
آیئنے کی نمائش پسند افراد سے رابطہ قائم کریں وہ سب آیئنے جمع کر لیں جو
ان کے مالکان کے بقول اپنے اندر کوئی خاص حسن رکھتے ہیں کچھ قدیم اور جدید
آیئنوں کا انتخاب منتظمین کا اپنا بھی تھا وہ اس نمائش کو ایسا انوکھا رنگ
دینا چاہ رہے تھے جو برسوں دیکھنے والوں کو یاد رہے۔
نایاب آرٹ گیلری کے منتظمین کو اپنی توقع سے ذیادہ آرٹ کے شائقین کی جانب
سے ریسپونس ملا چند ہی ہفتوں میں ان کے پاس ایسے ایسے نادر و نایاب آیئنے
جمع ہوگئے جن میں سے چند تو ایسے اینٹیک تھے جن کی قیمت لاکھوں امریکی ڈالر
تک پہنچی ہوئی تھی۔ منتظمین نے نمائش کی تاریخ لا اعلان کردیا۔ شائقین بے
تابی سے انوکھی نمائش کا انتظار کرنے کگے جو ان کے خٰیال میں بڑی دھماکہ
خیز ہوگی -
مقررہ تاریخ پر آرٹ گیلری کی دیواریں شش محل کی دیواروں کی طرح جگمگا رہی
تھیں تقریبا ہر سائز ، ہر رنگ ،اور ہر اینگل کے ساتھ ایک سے بڑھ کر ایک
قیمتی اور خوبصورت آیئنے موجود تھے آرٹ گیلری لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی
تھی۔
” ونڈر فل ” “فنٹاسٹک ” ” بہت حسیں ” بعض آیئنوں کو دیکھ کر تو یوں لگتا
تھا کہ ابھی اس میں سے کوئی مغل شہزادی نکل آئے گی کیا حسین نقش ونگاری
تھی۔ گول ، چوکور بیضوی مربع مستطیل ہر شکل میں آیئنہ ہی آیئنہ تھا جو آرٹ
گیلری کے اپنے لوگوں کی دریافت تھا اور اکیسویں صدی کے شیشہ گر کے ہاتھوں
سے ابھرنے والا جدید شاہکار بھی ، مگر کتنی عجیب بات تھی کہ ہر آیئنہ ایک
ہی صورت دکھا رہا تھا آیئنے کے سامنے کھڑے ہونے والے کا عکس ، آیئنہ قرون
اولی سے لے کر زمانہ جدید تک مختلف صورتیں ، شکلیں اختیار کرنے کے باوجود
اپنے مقصد سے نہیں پھر سکا تھا وہ کل بھی دیکھنے والے کو وہی کچھ دکھا رہا
تھا جو سامنے تھا اور آج بھی اس میں نظر آنے والا منظر روبرو تھا ، سب اس
عجیب و غریب اور انوکھی نمائش پر اپنی پسند ذہن اور موڈ کے مطابق تبصرہ کر
رہے تھے کہ اچانک۔۔۔۔ گیلری کے گیٹ پر شور سا ابھرا ، شاید کوئی شخص اندر
آنے کے لیے زور زور سے گیٹ کیپر سے جھگڑ رہا تھا۔
” تم اندر نہیں جاسکتے ، اندر بڑا لوگ کا نمائش ہو رہا ہے۔”
” مجھے اندر جانے دو مین بھی اسی نمائش میں حصہ لینے آیا ہوں۔ میرے پاس ایک
ایسا انوکھا آیئنہ ہے جو اگر نمائش میں رکھا گیا تو سارے آیئنے دھندلا
جائیں گے “
مگر گیٹ کیپر اس کی بات نہیں سمجھ رہا تھا وہ سمجھ بھی نہیں سکتا تھا اس نے
ایک مخصوص ماہانہ رقم کے عوض اپنے کان ، آنکھ اور زبان آرٹ گیلری کے
منتظمین کے پاس گروی رکھ دی تھی۔ اب وہ وہی کچھ ، دیکھتا ، سنتا اور بولتا
تھا جو اس کے بڑے لوگ چاہتے تھے وہ بھلا یہ کیسے خیال کر سکتا تھا کہ اس
مفلوک الحال شخص کے ہاتھ میں دبے ہوئے کپڑے کے تھیلے میں بھی کوئی ایسی شے
ہوسکتی ہے جسے وہ آرٹ گیلری کی زینت بنا نا چاہتا ہے۔
تبھی اچانک آرٹ گیلری کے منتظمین آئے اور اسے اپنے ساتھ اندر لے گئے تو گیٹ
کیپر کی مشکل آسان ہوئی
” ارے یہ آیئنہ ہے یا آیئنے کی کر چیاں ؟ ٹوٹے ہوئے آیئنے کے ٹکڑے تھیلے سے
برآمد ہوئے تو منتظمین حیرت سے دیکھنے لگے۔
:جناب یہ آیئنہ سالم تھا اور اس میں بہت ہی دلکش صورت نظر آتی تھی۔ ”
“کس کی َ؟ اپنی یا کسی اور کی ؟ ایک منتظم شرارت سے مسکرایا۔
” جناب میری آپ کی بلکہ ہم سب کی “
” اور یہ ٹوٹ گیا۔” دوسرا منتظم بولا
” ٹوٹ گیا یا توڑ دیا گیا ، یہ ایک الگ کہانی ہے َ” اجنبی نے ٹھنڈی آہ بھری
“جناب میں غریب آدمی ہوں یہ جرات نہیں کرسکتا کہ اس ٹوٹے ہوئے آیئنے کا
الزام کسی اور کے سر دھروں ، بس یہ ہی کہہ سکتا ہوں کہ ان ٹوٹے ہوے ٹکڑوں
کو سنھبال کر رکھوں کہ شاید کسی لمحے یہ کرچیاں پھر سے ایک سالم آیئنہ بن
جائیں۔ “”
” تم بے وقوف ہو اجنبی ٹوٹے ہوئے آیئنے کے ہر ٹکڑے میں تو ہر چہرہ صاف اور
سالم نظر آتا ہے لیکن جب یہی ٹکڑے ایک ساتھ جڑ جائیں تو جانتے ہو اس میں
صورت کتنی مسخ اور ہیبت ناک لگتی ہے ہمیں افسوس ہے کہ ہم تمہارے اس ٹوٹے
ہوئے آئینے کو جوڑنے میں کوئی مدد دے سکتے ہیں اور نہ اس نمائش میں شریک
کرسکتے ہیں کیونکہ پھر تو یہ آئینے کے نام پر ایک داغ بن جائے گا “
” جب چاند داغدار ہوکر اپنا حسن اور دلکشی، چاندنی نہیں کھوتا تو آپ کی آرٹ
گیلری داغدار ہوکر اپنا حسن کیسے کھو دے گی میرے اس آئینے کو بھی تم اپنے
شش محل میں آویزاں کردو “” اجنبی کے لہجے میں التجا تھی۔ اس کی زبان میں
جانے کیسی تاثیر تھی کہ منتظمین کے دل میں رحم اور ہمدردی نے جنم لیا وہ
سوچنے لگے کہ بد صورتی کا بھی تو اپنا حسن ہوتا ہے جہاں ان کی آرٹ گیلری
میں بیش بہا اینٹیک جمع ہیں وہا ٹکڑوں میں بٹا یہ آئینہ بھی
“لیکن تم ایسے فوری طور پر کیسے جوڑوگے ؟ “
‘ جڑ جائے گا صاحب ابھی دو منٹ میں ، اجنبی یہ کہہ کر آئینے کے ٹکڑے اٹھا
کر پردے کے پیچھے چلا گیا چند لمحوں بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں
سالم آئینہ تھا مگر اس کا ہاتھ لہولہان ہو رہاتھا اس کی انگلیوں سے خون رس
رہا تھا اس خون کو گلو بنا کر اس نے آئینے کے ٹکڑے آپس میں جوڑ دیے تھے۔
منتظمین اس اجنبی کو ایک لمحہ دیکھ کر مسکرائے اور آئینہ اٹھا کر آرٹ گیلری
میں سجا دیا انہیں اپنی بات کا بھرم بھی رکھنا تھا۔ شایئقین کا ہجوم سمٹ کر
اس آئینے کے گرد جمع ہونے لگا جو منتظمین کے اعلان کے مطابق ایک اجنبی
کریزی نے اسے اپنے لہو سے جوڑا تھا شاید منتظمین اس ایک رنگ سے اپنے آرٹ کے
شائقین کو اس نئے آیئنے کی قدرت اور انوکھے پن کو واضح کر سکتے تھے ابھی
لوگ آئینے کے سامنے کھڑے اس لہو رنگ آئینے کو دیکھ رہے تھے کہ آرٹ گیلری کی
زمین میں تھرتھراہٹ سی محسوس ہوئی اور دیواروں پر لگے آئینے لرزنے لگے۔ یہ
شہر زلزے کے ریڈ اسکیل پر تھا اکثر اس طرح کے معمولی جھٹکے تو آتے رہتے تھے
تصویریں لرزتیں اور دیوار کے سہارے لگی رہتیں مگر آج تو آیئنوں نے دیواروں
کا سہارا لے رکا تھا وہ زمین کی معمولی سی لرزش برداشت نہیں کرسکے اور
چھناچھن ، تڑاخ کی ملی جلی آوازوں کے ساتھ آئینے ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے۔
پلک جھپکنے کے معمولی لمحہ میں قیمتی ، نایاب ، حسین اور قدیم وجدید آئینوں
کا بہتریں انتخاب ششے کی کرچیوں کے ایک ڈھیر میں بدل گیا منتظمین کے چہروں
پر ہوائیاں اڑنے لگیں وہ تو بس حیرت اور خوف سے اس انوکھے آئینے کو تک رہے
تھے جو دیوار کا سہارالئے پہلے کی طرح مضبوطی سے جمع کھڑا تھا اور شدیدحیرت
کی بات یہ تھی کہ اس میں شائقین کو اپنے چہرے بہت صاف اور حسین نظر آرہے
تھے۔
جانے یہ آئینے کا کمال تھا یا آئینہ گر کا یا رنگ گلو کا۔۔ |