قائداعظمؒ کون ۔۔۔۔؟بلاعنوان!

حضرت امام جلال الدین رومیؒ اپنی ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک جنگل میں ایک بھیڑیا بھوک کے مارے نڈھال تھا وہ شکار کی تلاش میں ایک نہرے کے کنارے جا پہنچا نہر کے کنارے پر اس نے ایک بھیڑ کے بچے کو پانی پیتے دیکھا بھیڑیے کی نیت خراب ہو گئی اور وہ سوچنے لگا کہ اس پر کیسے قابو پایا جائے تھوڑی دور ہٹ کر بھیڑیا اچانک نہر سے پانی پینے لگا اور پھر بھیڑ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ تو اندھا ہو گیا ہے تجھے نظر نہیں آرہا کہ میں پانی پی رہا ہوں اور ادھر سے تو پانی پی کر اسے گندہ کر رہا ہے بھیڑ کے بچے نے کہاکہ تمہیں کیا ہو گیا ہے میں تو نیچے کھڑا ہوں اور تم اوپر کھڑے ہو پانی تو تمہاری طرف سے میری طرف آرہا ہے اس پر بھیڑیا لاجواب ہو کر خاموش ہو گیا تھوڑی دیر بعد بھیڑیا بولا اچھا تم وہی ہو ناں جس نے سال بھر پہلے مجھے گالیاں دی تھیں بھیڑ کے بچے نے جواب دیا چچا میاں آپ کو کیا ہو گیا ہے میری تو کل عمر ہی چھے مہینے ہے آپ سال بھر پہلے کا الزام لگا رہے ہیں بھیڑیا ایک مرتبہ پھر لاجواب ہو گیا لیکن اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور وہ بھیڑ کے بچے پر جھپٹتا ہوا بولا تو نہ سہی تیرا باپ ہی ہوگا جس نے گالیاں دی تھیں میں تو بدلہ ضرور لونگا یہ کہہ کر اس نے بھیڑ کے بچے کو چیر پھاڑ کر اپنا پیٹ بھر لیا۔ امام رومیؒ اس حکایت کے سبق میں لکھتے ہیں کہ بے ایمان کی جب نیت خراب ہوتی ہے تو وہ لاکھ بہانے تراش لیتا ہے ۔

قارئین! آج پاکستان اور امریکہ کے آپس میں تعلقات کی نوعیت بھی بھیڑ اور بھیڑیے کے تعلق جیسی ہے انکل سام نے قیام پاکستان کے وقت قائداعظم محمدعلی جناحؒ کے جانشینوں کو جھانسہ دیتے ہوئے جو ’’دوستانہ تعلقات‘‘ہمارے ساتھ استوار کئے اس دوستی کے نتیجے میں 1971ء میں پاکستان کے دوٹکڑے ہو گئے اسی دسمبر کے مہینے میں جس دسمبر کے مہینے کی 25 تاریخ کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کو دنیا کے نقشے پر لانے والے قائداعظم محمد علی جناحؒ نے گجرات کاٹھیاوار کے تاجر جناح پونجا کے گھر کراچی میں جنم لیا تھا اسے اتفاق کہیے یا انکل سام کی طرف سے تمام پاکستانیوں کو دیا جانے والا خاموش اور زہریلا پیغام کہہ لیجیے کہ 16دسمبر کو پاکستان کادو لخت کیا جانا ایک علامتی بات بن کر سامنے آیا۔

قارئین! جیسے کسی ادیب نے تحریر کیا ہے کہ علامہ اقبالؒ ایک عظیم صوفی، ریفارمر، مجدد اور فلسفی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کے مختلف تاجروں کے ہتھے بھی چڑھ گئے کوئی علامہ اقبالؒ کے نام پر سرمہ بیچنے لگا، کسی نے دودھ دہی کی دوکان لگا لی، کسی نے توحید کا پرچار کرتے ہوئے علامہؒ کے شعروں کو اپنا سلوگن بنا لیا، کسی نے سریا اور سیمنٹ بیچنے کی دوکان لگا لی اور کسی نے علامہ اقبالؒ کی شاہین اور کبوتر کے متعلق کی جانے والی شاعری کو پرندے بیچنے کے لئے اپنی دوکان پر آویزاں کر لیا غرض ریڈیو پاکستان کے مختلف گانے والوں اور گانے والیوں سے لے کر ہر مکتبہ فکر نے علامہ اقبالؒ کی فکر کو سمجھنے کی بجائے انتہائی ’’فکر انگیز یا فکر ناک‘‘ انداز میں انہیں کیش کروانے کی کوشش کی کچھ ایسا ہی حال ہماری مختلف سیاسی جماعتوں اور مختلف مکاتب فکر نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی فکر وفلسفے کے ساتھ کیا ملک میں جب زمامِ اقتدار فوجی آمروں نے سنبھالا تو پاکستان ٹیلی ویژن اور تمام میڈیا پر قائداعظمؒ کے وہ فرامین چلتے رہے جس میں سیاق وسباق سے ہٹ کر افواج پاکستان کے متعلق انتہائی زبردست باتیں موجود تھیں اور جب یہی اقتدار کی دلہن جمہوری بدمعاشوں کے ہتھے چڑھی تو تمام نشریاتی اداروں میں وہ پیغامات چلتے رہے جن سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ مسلمانوں سے بڑھ کر جمہوری قوم اور جمہوریت پسند تو اس دنیا کے تختے پر شاید آج تک پیدا ہی نہیں ہوا اس تمام بکواس بازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پاکستان کی تیسری یا چوتھی نسل اس بات پر بری طرح ڈبل مائنڈڈ ہے کہ آخر قائداعظم محمد علی جناحؒ کا پاکستان بنانے کا مقصد اور اسے چلانے کا فلسفہ کیا تھا اور یہی پاکستان دشمنوں کا مشن تھا کہ پاکستان کی نوجوان نسل کو کسی طرح کنفیوز کر دیا جائے کہ اسے سمجھ ہی نہ آئے کہ پاکستان کیوں بنایا گیا اور اس عظیم مملکت کے بنانے کے فوائد کیا ہیں اور آنے والے وقتوں میں اس عظیم مملکت پاکستان نے پوری دنیا میں کون سا اہم ترین کردار ادا کرنا ہے جی ہاں ہم یہ بات انتہائی ذمہ داری سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں آنے والے وقتوں میں اقوام عالم کی قیادت کرنی ہے اور ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ انکل سام نہیں بلکہ پاکستان تحریر کرے گا اور وہی اسلامی نشاۃ ثانیہ کا نکتہ عروج ہو گا وہ وقت آنے والا ہے کہ جب غزوہ ہندنے بھی برپا ہونا ہے اور دجال سے مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان اور افغانستا ن کی سرحدوں سے امام مہدیؒ کی قیادت میں اسلامی فوج اپنی جدوجہد شروع کرے گی اس حوالے سے مختلف علمائے کرام کی مختلف پیش بینیاں میڈیا اور کتابوں کے ذریعے سب کے سامنے آچکی ہیں اور ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے اس حوالے سے بیش قیمت علمی تحقیق کی ہے جو کتابی شکل میں موجود ہے۔ علامہ اقبالؒ نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے پر جہاں بہت انقلابی شاعری کی تھی وہاں انہوں نے یہ بھی فرمایا تھا

اگر عثمانیوں پہ کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صدہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

یہ بات طے ہے کہ ہزاروں لاکھوں ستاروں کے ختم ہونے کے بعد ان کی قربانی کے نتیجے میں ہر روز ایک نئی سنہری صبح طلوع ہوتی ہے جو امید کا ایک نیا پیغام لے کر آتی ہے۔

قارئین! اس سب بحث سے آج ہم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے دن کے موقع پر ان کی عظیم شخصیت پر چڑھائے گئے مختلف غلافوں کو چاک کرتے ہوئے ان کے اصل پیغام کو پاکستانی قوم تک پہنچانا چاہتے ہیں یہ قائداعظم محمد علی جناحؒ ہی تھے کہ جن کے خیال میں ہندو اور مسلم دو علیحدہ علیحدہ قومیں تھیں جو رہن سہن سے لے کر مذہبی شعائر کی ادائیگی تک زندگی کے ہر مرحلے میں ایک دوسرے سے واضح اختلاف رکھتی تھیں اور معاشرت سے لے کر معیشت تک ان دونوں اقوام کے فکر وعمل میں بعدالمشرقین تھا اور اسی وجہ سے قائداعظمؒ سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں ایک ملک میں رہتے ہوئے ان دونوں اقوام کااکٹھا رہنا دونوں اقوام کے لئے ناممکن بھی ہو گا اور عددی لحاظ سے ہندوؤں کے مقابلے میں ایک اقلیت ہونے کی وجہ سے مسلمان شدید ترین استحصال کا شکار ہو کر کارنر ہو جائیں گے کیونکہ ہندو مذہب کے اندر وہ وسعت القلبی نہیں ہے کہ جس کے ذریعے کسی دوسری قوم یا مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہو سکے اگرچہ مسلمان ایک طویل عرصہ برصغیر میں ایک حاکم کی حیثیت سے موجود رہے لیکن جلال الدین اکبر سے لے کر اورنگزیب عالمگیر تک تمام مغل بادشاہوں اور اس دوران مختلف افغان خاندانوں کے ادوار حکمرانی میں ہندوستان کے تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والوں اور اقوام کے بنیادی انسانی حقوق کی ذمہ داری ریاست نے احسن انداز میں نبھائی اور ان کا تحفظ کیا جبکہ ہندوستان سے برطانیہ کی رخصتی کے بعد ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ہر گز مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ سلوک نہیں کرینگے یہ تمام فکر وفلسفہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کا تھا حالانکہ یہ وہی جناح تھے جو ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑے علمبردار تھے اور جنہوں نے اپنی سیاسی زندگی کاآغاز ہی آل انڈیا کانگریس پارٹی سے کرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ برٹش راج سے آزادی حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ تقسیم اور تفریق سے پرہیز کرتے ہوئے اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ مل کر متحدہ سیاسی جدوجہد کریں یہی جناحؒ ایک عرصے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندو سیاستدان اوپر اوپر سے تو مسلمانوں سے اتحاد کی بات کرتے ہیں لیکن اندر سے وہ جڑیں کاٹنے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی انتہائی زہریلی سازشوں میں مصروف ہیں اسی وجہ سے قائداعظم محمد علی جناحؒ بد دل ہو کر ہندوستان چھوڑ کر برطانیہ واپس چلے گئے تھے اس موقع پر مصور پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے محسوس کیا کہ پورے ہندوستان میں ایک ہی شخصیت ایسی ہے کہ جو مسلمانوں کے حقوق کا کیس لڑتے ہوئے انہیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد کروا کر ایک علیحدہ وطن دلوا سکتی ہے اور وہ شخصیت صرف اور صرف قائد اعظم محمدعلی جناحؒ کی ہے چنانچہ انہوں نے غیر محسوس انداز میں خط وکتابت کے ذریعے جناح ؒ کو قائل کرنا جاری رکھا کہ انہیں ہندوستان واپس آکر بغیر کسی قیادت کے بھٹکنے والی مسلمان قوم کی رہبری کا فریضہ انجام دینا چاہیے یہی وجہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ ہندوستان واپس آئے اور انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھال کر مسلمانوں کی آزادی کی غیر مسلح جنگ شروع کر دی اور آخر کار وہ دن آگیا کہ جب پاکستان 27 رمضان المبارک کی مقدس گھڑیوں میں دنیا کے نقشے پر ایک حقیقت بن کر ابھر آیا۔

قارئین! ہم نے اس حوالے سے ایف ایم 93میرپور ریڈیو آزاد کشمیر کے اسٹیشن ڈائریکٹر چوہدری محمد شکیل کی خصوصی ہدایت پر مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری‘‘میں چند تاریخی انٹرویوز کئے جن میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ پاکستان بنانے کے پیچھے قائداعظم محمد علی جناحؒ کا مقصد اور ان کا فکرو فلسفہ کیا تھا اس حوالے سے پاکستان کو دوسرا جنم اور وجود بخشنے والے عظیم ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انٹرویو ایک زندہ تاریخ ہے اس انٹرویو میں ہم نے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان اور عزیزی محمد رفیق مغل کے ہمراہ پاکستان کو دنیا کی واحد اسلامی جوہری مملکت بنانے والے عظیم سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے جب یہ سوال کیا کہ پاکستان کیا ہے تو ان کا جواب کچھ یوں تھا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کہنے لگے کہ آپ نہیں جانتے کہ پاکستان کیا ہے میں اورمیری نسل کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کیا ہے اس پاکستان کی خاطر میں نے صحرا کی جلتی ہوئی ریت پر کئی میل کا سفر ننگے پیروں کے ساتھ طے کیا اور ہندوستان سے ہجرت کرتے ہوئے پاکستان پہنچا یہ وہ وطن ہے کہ جس کی خاطر لاکھوں مسلمانان ہند نے اپنے جان ،مال اور عزت سے لے کر ہر شے قربان کر دی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہاکہ میں نے کھوکھرا پار سے ہندوستان سے پاکستان میں آنے والی مہاجر ٹرینوں کی بوگیوں میں ہزاروں مظلوم مسلمانوں کی لاشیں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں ہزاروں عورتوں، بچوں اور بوڑھوں تک کو پاکستان بنانے کے جرم میں اور پاکستان سے محبت کرنے کی پاداش میں کس طرح سنگینوں پر پرو دیا گیا میں نے یہ سب دیکھا ہے یہ ملک اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ بہت بڑی نعمت ہے ایک اتنی بڑی نعمت کہ ہم اس کا ادراک بھی نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ 1974 ء میں جب بھارت نے ایٹمی پروگرام شروع کیا تو اس وقت میں یورپ میں مقیم تھا اور میرے پاس یہ کھلی چوائس تھی کہ میں دنیا کے بہترین ممالک میں بہترین زندگی گزاروں دولت کی کمی نہ تھی اور سیاحت کے لئے ایک دنیا باہیں کھول کر میرا استقبال کر رہی تھی لیکن جب بھارت نے ایٹمی پروگرام شروع کیا تو میں نے پاکستان سے اپنی غیر مشروط محبت سے مجبور ہو کر وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو سے رابطہ کیا اور انہیں سمجھایا کہ پاکستان کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان بھی جوہری صلاحیت حاصل کرے اور اﷲ کے فضل وکرم سے میں اس قابل ہوں کہ اس پروگرام کو کامیابی کیساتھ منطقی انجام تک پہنچا سکوں چنانچہ قصہ مختصر تیس ہزار روپے ماہانہ کی نوکری چھوڑ کر میں نے یورپ کا عیش وآرام اور سنہرا مستقبل ترک کر کے تین ہزار روپے ماہانہ کی پاکستانی نوکری اپنائی اور اﷲ کے فضل وکرم سے تمام مشکلات سے گزرتے ہوئے پاکستان کو دنیا کی پہلی اسلامی جوہری قوت بنا دیا ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہاکہ ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے اس سفر میں حیرت انگیز طور پر ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، غلام اسحق خان، بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف سمیت تمام پاکستانی حکمرانوں اورعسکری قیادت نے ایک ہی موقف اپنائے رکھا اور کسی بھی شخصیت نے مختلف سیاسی نظریات ہونے کے باوجود پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر دنیا کے کسی بھی دباؤ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے انتہائی جذباتی انداز میں کہاکہ اﷲ کے فضل وکرم سے پاکستان دفاعی لحاظ سے اب ایک ناقابل تسخیر ملک ہے لیکن ملک کے عوام مہربانی فرما کر کسی ایسے ضمیر فروش کو اپنے ووٹ کی پرچی سے منتخب کرتے ہوئے ایسی جگہ نہ پہنچا دیں کہ جہاں پر اس ایٹمی پروگرام کی سودے بازی کی جا سکے پاکستان کو اب خطرہ دشمنوں سے نہیں بلکہ دوستوں سے ہے ایسے دوستوں سے کہ جو اپنے مفادات کے علاوہ اور کسی چیز سے دوستی نہیں رکھتے۔

قارئین!قائداعظم محمد علی جناحؒ آج بھی اپنی جاودانی مسکراہٹ کے ساتھ اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ قوم اپنے وجود اور قیام پاکستا ن کے اصل مقاصد کو سمجھتے ہوئے اپنا سفر ایک نئے انداز سے شروع کریگی ایک ایسا سفر کہ جس کے اختتام پر ایک سنہری سویرا ہمارا منتظر ہے بقول غالب یہ کہتے چلیں
پھر کچھ اک دل کو بیقراری ہے
سینہ جویائے زخم کاری ہے
پھر جگر کھودنے لگا ناخن
آمدِ فصلِ لالہ کاری ہے
قبلہء مقصدِ نگاہِ نیاز
پھر وہی پردہء عماری ہے
چشم دلالِ جنسِ رسوائی
دل خریدارِ ذوقِ خواری ہے
وہی صد رنگ نالہ فرسائی
وہی صد گونہ اشکباری ہے
دل ہوائے خرامِ ناز سے پھر
محشر ستانِ بیقراری ہے
پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے
پھر ہوئے ہیں گواہِ عشق طلب
اشکباری کا حکم جاری ہے
بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

قارئین!قائداعظم محمد علی جناحؒ کون تھے ان کا پاکستان بنانے کامقصد کیا تھا اس مملکت کو چلانے کے لئے ان کے فلسفے کی آؤٹ لائنز کیا تھیں اوروہ مختلف مکاتب فکر کے متعلق کیا خیالات رکھتے تھے یہ سب جاننا اورسمجھنا انتہائی ضروری ہے یہاں ہم دارالعلوم دیو بند سے تعلق رکھنے والے انتہائی جید اور بلند مرتبہ علمائے کرام کے اس قول کا بھی تذکرہ کرتے چلیں کہ جو پاکستان بننے کے بعدانہوں نے پوری دنیا کے سامنے رکھا یہ وہی علمائے دیوبند تھے کہ جنہوں نے مولاناابوالکلام آزاد کے فلسفے کی روشنی میں ہندوستان کی دو حصوں میں تقسیم کو مسلم آبادی کے لئے انتہائی نقصان دہ قرار دیتے ہوئے مسلم لیگ کی پاکستان بنانے کی مخالفت کی تھی ان کا یہ کہنا تھا کہ پاکستان ایک مسجد جیسا ہے اور ہمیں اس پر اختلاف تھا کہ مسجد کا اس جگہ پر بننا متنازعہ ہے لیکن اب چونکہ مسجد بن چکی ہے اس لئے یہ وطن مسجد کی طرح مقدس ہے اور اس کی حفاظت کرنا عین دین ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بنائے جانے والے اس وطن پاکستان کاپرچم سفید اور سبز رنگوں پر مشتمل ہے سبز رنگ مسلم اکثریت کو ظاہر کرتا ہے اورسفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کر رہا ہے بدقسمتی سے آج سفید اور سبز دونوں رنگ خون کی سرخی سے رنگین ہیں اﷲ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔آمین

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
پیرس کی ایک عدالت میں طلاق کا مقدمہ پیش تھا جج نے گواہ سے پوچھا کہ جب لڑائی جھگڑا شروع ہوا تو اس وقت تم کہاں تھے
گواہ نے جواب دیا
’’جناب عالی! میں موقعہ واردات پر موجود تھا یہ لڑائی شادی کی رسومات ادا کرنے کے دوران ہی ہوئی اور میں وہ پادری ہوں جو ان کی شادی کی رسومات ادا کررہا تھا ‘‘

قارئین!پاکستان وہندوستان کی تقسیم کے وقت برطانوی حکومت نے کشمیر کی صورت میں جھگڑے کی ایک بنیاد رکھی تھی اور گواہ کا کردار ادا کیا تھا یقینا قائداعظم محمد علی جناحؒ کشمیر کی پاکستان کے لئے اہمیت سے پوری طرح آگاہ تھے اس لئے وہ ہر وقت کشمیر کی بات کرتے رہتے تھے کاش پاکستانی حکمران وسیاستدان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی فکروفلسفے سے کچھ تو فیض حاصل کریں۔ کاش، کاش، اے کاش۔۔۔!!!
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 337470 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More