کراچی کے لوگوں کی بے بسی اور بے حسی

کراچی کے لوگوں کی بے بسی اور بے حسی کی داد دینی چاہیے۔ بے بسی یہ کہ اس شہر میں کیسے کیسے حادثات ہو رہے ہیں، لیکن شہری بے بسی سے یہ واقعات دیکھتے ہیں۔ غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں۔ ٹائر جلاتے ہیں۔ حکمرانوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ یہ جلوس نکالتے ہیں۔ پھر بے بسی سے آنسو بہاتے ہیں اور خاموش بیٹھ جاتے ہیں۔ بے حسی ایسی کے شہر میں حادثہ ہو، فائرنگ ہو، بم پھٹے، عمارت گر جائے، مرنے والے مر جائیں۔ لیکن کراچی اسی طرح شہر نگاراں، مست خراماں، اپنے جلو میں نئے ہنگامے لئے، اپنی چہل پہل میں مگن رہے گا۔ جمعہ کو کراچی کے علاقے میٹھادر میں ایک اور عمارت زمیں بوس ہو گئی۔ اس سانحے میں جان بحق ہونے والے۴۲ افراد کی لاشیں نکال لی گئی ہیں، جبکہ زخمی ہونے والے 6 افراد اسپتال میں زیر علاج ہیں جس کے بعد امدادی کام ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ شہر کے قدیمی علاقے میٹھادر کی کامل گلی میں گرنے والی عمارت تقریباً 100 مربع فٹ کے پلاٹ پر بنائی گئی تھی جس کی پہلی منزل پر ایک گودام تھا جبکہ باقی 4 منزلوں پر لوگ رہتے تھے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس عمارت میں 30 سے زائد افراد رہتے تھے جن میں سے اکثر میمن برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ گنجان آبادی کے اس علاقے میں اس حادثے کی اطلاع پاتے ہی مقامی لوگ بھی ایمرجنسی لائٹس اور ہتھوڑے لے کر جائے حادثہ پر پہنچ گئے اور ہاتھوں سے ملبہ ہٹانے کی کوشش کی۔ حادثے کے بعد لائٹ چلی گئی تھی۔ سٹی حکومت کی جانب سے ملبہ ہٹانے کے لیے بھاری مشینری بھی بھیجی گئی مگر تنگ گلی ہونے کی وجہ سے یہ جائے حادثہ پر پہنچ نہیں سکی۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ریسکیو آپریشن انتہائی سست رفتاری سے کیا گیا ہے اور رضاکار اور شہری حکومت کے اہلکار تاخیر سے جائے حادثہ پر پہنچے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کراچی میں کیا کوئی ایسا ادارہ اور ایسا مرکز ہے۔ جو کسی بھی حادثے کی اطلاع پاتے ہی حرکت میں آجائے اور تمام کام سلیقے سے انجام پائیں۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ ہم کراچی میں ایک بھی ایسا ہنگامی مرکز نہ بنا پائے جہاں بیک وقت زخمیوں کی بڑی تعداد کو طبی امداد دی جاسکے۔ نہ ہی ایسے رضا کاروں کی کوئی فورس تیار کی گئی جو ایسے ہنگامی حالات میں تیزی سے حرکت میں آئیں۔ سب سے زیادہ تو یہ کہ وہ ایسی امدادی سرگرمیوں کا تجربہ اور تربیت رکھتے ہوں۔ ہم نے سب کچھ ایدھی اور چھیپا پر چھوڑ رکھا ہے۔ یہ ہی زخمیوں کو لیجائیں گے۔ یہ ہی امدادی کام کریں گے۔ یہ ہی کھانے کا اہتمام کریں گے۔ تو پھر حکومت اور شہری ادارے کہاں ہیں۔ اور ان کی کیا ذمہ داری ہے۔

کراچی میں مخدوش عمارتیں ایک عرصے سے ہیں۔ لیکن کیا ان عمارتوں کو صرف خالی کرانے کے نوٹس کا اجراء ہی ہماری ذمہ داری ہے۔ ایسے خاندانوں کی آباد کاری کون کرے گا۔ کیا یہ اسی طرح فٹ پاتھ پر بیٹھے رہیں گے۔ جیسے حادثے کے بعد کے بی سی اے کی جانب سے قریب کی 5 عمارتوں کو مخدوش قرار دے کر خالی کرالیا۔ اور اب یہ فٹ پاتھ پر بسیرا کر رہے ہیں۔ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ٹیکنیکل کمیٹی برائے خطرناک عمارات نے سال 2008 ء کی سروے رپورٹ میں شہر کی 163 مختلف قدیم اور مخدوش عمارتوں کو خطرناک قرار دیا ہے۔ جبکہ مزید عمارتوں کے معائنے کا سلسلہ جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق فہرست میں سب سے زیادہ خطرناک عمارتیں صدر ٹاؤن میں واقع ہیں جبکہ اس فہرست میں جمشید، لیاری، کیماڑی، ملیر اور شاہ فیصل ٹاؤن کی بھی کئی مخدوش حالت عمارتیں شامل ہیں ان عمارتوں کو فوری خالی کرنے کے لئے اگست میں کہا گیا تھا۔ متبادل انتظامات نہ ہونے کے باعث یہ نہ ہوسکا۔ اور یہ حادثات ہوئے۔ جن کو ذرا سی تدبیر سے روکا جاسکتا تھا۔

کراچی میں 182 پرائمری 69 سیکنڈری اور 30 ایلیمنٹری اسکولوں کی عمارتیں اپنی خستگی کے باعث حادثات کے خطرے سے دوچار ہوسکتی ہیں۔ ان اسکولوں میں ہمارے آپ کے بچے پڑھتے ہیں۔ ایک ایک اسکول میں سینکڑوں بچے ہیں۔ یہ سرکاری اسکول ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی زبوں حالی، بنیادی سہولتوں کا فقدان، سفارش کی بنیاد پر نااہل اساتذہ کے تقرری جیسی شکایات عام ہیں۔ بظاہر میٹرک تک تعلیم مفت کردی گئی ہے مگر عملاً سرکاری اسکولوں کی یہ حالت بنا دی گئی کہ وہاں تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں رہا۔ جن سرکاری اسکولوں کا رقبہ بڑا، عمارتیں اچھی اور معیار تعلیم قدرے بہتر ہے انہیں لوگوں کے احتجاج کے باوجود یکے بعد دیگرے نجی ملکیت میں دیا جارہا ہے۔ تو کیا ہم کسی اور بڑے حادثے کا انتظار کررہے ہیں۔ بارشوں میں ۰۵ سے زائد اموات ہوئیں۔ ان کا ذمہ دار کون ہے۔ کسی کو تو ان ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ جولائی میں کراچی میں عمارت گرنے سے ہلاکتوں کا دوسرا واقعہ ہوا ہے۔ لیاقت آباد میں اکیس جولائی کو ایک چار منزلہ زیرِ تعمیر عمارت کے گرنے سے کم از کم گیارہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہاں بھی تین دن تک امدای کام جارہی رہا تھا۔ اور ہم صرف لاشیں ہی نکال سکے۔ کراچی میں چند برسوں میں شہری حکومت نے کروڑوں روپے مالیت کی بھاری مشینری خریدی تو کیا یہ صرف نمائشی تھی۔ کراچی کی ۰۷ فیصد آبادی گنجان علاقوں میں رہتی ہے۔ تو کیا ان ۰۷ فیصد عوام پر مصیبت پڑنے پر کام آنے والی مشینری ہمارے پاس نہیں ہے۔ اس بے بسی کا مظاہرہ ہم کھارادر اور لیاقت آباد کی گلیوں میں دیکھ چکے ہیں۔ ہمیں سڑکیں دھونے والی ان مشینوں کی ضرورت تو نہ تھی۔ جو ایک دو تصویری سیشن کے بعد ناپید ہوگئی ہیں۔ ہمیں ان مسائل پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ یہ ہماری بے بسی اور بے کسی کا مداوا کرسکتا ہے۔ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور وزیراعلٰی سندھ سید قائم علی شاہ ایسے حادثات پر فوری حرکت کرتے ہیں۔ انہوں نے عمارت گرنے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ لیکن عوام چاہتے ہیں کہ اب نوٹس لینے اور تحقیقات سے آگے بڑھ کر کوئی اقدام کیا جائے۔ ورنہ یہ حادثے یوں ہی ہمارا مقدر بنے رہیں گے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419046 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More