یورپ میں آئس لینڈ کو آگ اور برف کی سرزمین کہا جاتا ہے۔
اس ملک میں آتش فشاں پہاڑوں سے نکلنے والے لاوے سے اٹھنے والے دھوئیں سے
دُھند چھائی رہتی ہے۔ وہاں ’ان دیکھی مخلوق‘ کی کہانیاں بھی عام ہیں۔
ڈوئچے ویلے کی رپورٹ کے مطابق آئس لینڈ کی اس ’ غیبی مخلوق‘ کو ابھی تک کسی
نے دیکھا تو نہیں لیکن اب ان کے حق میں باقاعدہ آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔
|
|
چند لوگ یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ اب ان پریوں کو آئس لینڈ میں سیاسی
نمائندگی حاصل ہو گئی ہے۔ اَیلف Elf کہلانے والی اس مخلوق کا حامی ایک
سماجی گروپ اب بہت سے ماحول پسندوں کے ساتھ مل گیا ہے۔
اس گروپ کا مطالبہ ہے کہ آئس لینڈ میں شاہراہوں اور ساحلی علاقوں کی تعمیر
و ترقی کا کمیشن اور مختلف علاقوں کے بلدیاتی حکام ایک بڑی لیکن نئی ہائی
وے کی تعمیر کا منصوبہ ترک کر دیں۔ آئس لینڈ کے دارالحکومت رِیکیاوِک سے
ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ نئی ہائی وے جزیرہ نما اَلفتانَیس Alftanes
سے لے کر دارالحکومت کے نواح میں گاردا بائر Gardabaer تک تعمیر کی جانے ہے۔
الفتانیس آئس لینڈ کا وہ شہر ہے جہاں ملکی صدر کی ایک سرکاری رہائش گاہ بھی
قائم ہے۔ آئس لینڈ میں اس تعمیراتی منصوبے کے خلاف جو سوشل گروپ رائے عامہ
کو بیدار کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کا نام فرینڈز آف لاوا یا ’لاوا کے
دوست‘ ہے۔
اس گروپ کے مطابق اس علاقے میں نئی ہائی وے کی تعمیر سے پریوں کا رہائشی
علاقہ متاثر ہو گا۔ اس گروپ کے بقول حکام کو ایسا اس لیے بھی نہیں کرنا
چاہیے کہ اسی علاقے میں Elves کا ایک چرچ بھی موجود ہے، جس کی ثقافتی اہمیت
سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
|
|
فرینڈز آف لاوا نے اس بارے میں آئس لینڈ کی سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ بھی
دائر کر رکھا ہے۔ اب اس سلسلے میں فیصلہ آئس لینڈ کی یہ اعلیٰ ترین عدالت
کرے گی کہ ایک نئی ہائی وے کی تعمیر کے اس مجوزہ منصوبے پر عملدرآمد کیا
جانا چاہیے یا نہیں۔ فرینڈز آف لاوا کی طرف سے اب تک اس کے مطالبے کے حق
میں بہت سی ماحول پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر کئی بار احتجاجی مظاہرے بھی
کیے جا چکے ہیں، جن میں سینکڑوں کی تعداد میں عام شہریوں نے حصہ لیا۔
ان مظاہرین نے تعمیراتی مشینری کو منصوبے کی جگہ تک پہنچائے جانے کو
رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دیا تھا۔ آئس لینڈ کی مقامی زبان میں اس ’ان
دیکھی یا پوشیدہ مخلوق‘ کو ’ہُلڈُوفوک‘ Huldufolk کہا جاتا ہے۔ یہ پہلا
موقع نہیں ہے کہ اس ملک میں کسی تعمیراتی منصوبے کو ان پریوں کے باعث
رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اسکینڈے نیویا کی ریاستوں کی لوک داستانوں میں ان
پریوں کا ذکر عام ہے۔ ناروے، سویڈن اور ڈنمارک میں بھی لوگ ان کا ذکر کرتے
ہیں۔
انیسویں صدی کے بعد سے اسکینڈے نیوین ممالک کے عوام کی اکثریت ان پر زیادہ
یقین نہیں رکھتی۔ لیکن اس سے پہلے تک عام شہریوں کی بہت بڑی اکثریت ان پر
یقین رکھتی تھی۔ آئس لینڈ کی آبادی صرف تین لاکھ بیس ہزار ہے۔
سن دو ہزار سات میں وہاں یونیورسٹی آف آئس لینڈ کی طرف سے ایک سروے کرایا
گیا تھا، جس میں ایک ہزار لوگوں سے ان کی رائے دریافت کی گئی تھی۔ تب دو
تہائی رائے دہندگان نے کہا تھا کہ یہ ممکن ہے کہ پریوں کی طرح کی ان دیکھی
مخلوق باقاعدہ طور پر پائی جاتی ہو۔ |