قبروں کے احکام کے متعلق
قلمِ رضا کے چند جواہر پارے
امام احمد رضا علیہ الرحمة والرضوان کے اصلاحی وتجدیدی کارناموں کی فہرست
بڑی طویل ہے۔آپ سنتوں کے فروغ میں ہمہ تن مصروف رہے،بدعات وخرافات اور غلط
وغیر شرعی رسم ورواج کے سخت مخالف تھے۔جولوگ ان کارشتہ بدعات سے جوڑتے ہیں
وہ سخت غلط فہمی کاشکار ہے یاجان بوجھ کر جھوٹ بولتے نہیں شرماتے۔یہ کتنی
بڑی ستم ظریفی ہے کہ جوبدعات کے خاتمے کے لیے شمشیربرہنہ تھااسے خودحامیِ
بدعات قرار دیاگیا۔ذیل میں قبروں کے احکام کے متعلق قلمِ رضا کے چند جواہر
پاروں کوقارئین کی خدمت میں پیش کیاجارہاہے تاکہ معلوم ہوکہ سرکاراعلیٰ
حضرت امام احمدرضا علیہ الرحمہ نے بدعات وخرافات کے خلاف کس قدر قلمی جہاد
فرمایا۔
مقابر مسلمین کے آداب :
آج کل مسلم قبرستانوں کی بے حرمتی عام ہے ، اعلیٰ حضرت قدس سرہ سے مقابر
مسلمین سے متعلق سوالات ہوے تو ارشاد فرمایا۔قبروں پر چلنے کی ممانعت ہے نہ
کہ جوتا پہننا کہ سخت توہین اموات مسلمین ہے ہاں جو قدیم راستہ قبرستان میں
ہو جس میں قبر نہیں اس میں چلنا جائز ہے ، اگر چہ جوتا پہنے ہو۔ قبروں پر
گھوڑے باندھنا ، چار پائی بجھانا ، سونا بیٹھنا سب منع ہے ،(فتاویٰ رضویہ ،
۴/۷۰۱) دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں ۔قبور مسلمین پر چلنا جائز نہیں ۔ ان پر
پاﺅں رکھناجائز نہیںیہاں تک کہ ائمہ نے تصریح فرمائی ہے کہ قبرستان میں جو
نیا راستہ پیدا ہوا ہو اس میں چلنا حرام ہے ، اور جن کے اقربا ایسی جگہ دفن
ہوں کہ ان کے گرد قبریں ہوگئی ہوں اور اسے ان کی قبور تک ، اور قبروں پر پاﺅ
ںرکھے بغیر جانا ناممکن ہو، دور ہی سے فاتحہ پڑھے اور پاس نہ جائے ۔ (فتاویٰ
رضویہ ، ۴/ ۷۰۱) قبر پر نماز پڑھنا حرام ، قبر کی طرف نماز پڑھنا حرام ،
اور مسلمان کی قبر پر قدم رکھنا حرام ، قبروں پر مسجد بنانا یا زراعت (کھیتی)
وغیرہ کرنا حرام ۔(عرفان شریعت ، ۲/۲)
فرضی قبروں کا حکم :
فرضی اور مصنوعی قبر کے بارے میں سوال کے جواب میں فرمایا ۔ قبر بلا مقبور
کی زیارت کی طرف بلانا اور اس کے لیے وہ افعال ( چادریں چڑھانا وغیرہ )
کرانا گناہ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ ،۴/۵۱۱) فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل
کا سا معاملہ کرنا، ناجائزوبدعت ہے ،اور خواب کی بات خلافِ شرع امور میں
مسموع نہیں ہو سکتی ۔ (فتاویٰ رضویہ ، ۴/۵۱۱)جس قبر کا یہ بھی حال معلوم نہ
ہوکہ یہ مسلمان کی ہے یا کافر کی اس کی زیارت کرنی ، فاتحہ دینی ہرگز جائز
نہیں کہ قبر مسلمان کی زیارت سنت ہے اور فاتحہ مستحب ،اورقبر کا فر کی
زیارت حرام ہے اور اسے ایصال ثواب کا قصد کفر .... تو جوامر سنت و حرام یا
مستحب وکفر میں مترد د ہو وہ ضرور حرام و ممنوع ہے ۔(فتاویٰ رضویہ ، ۴/۱۴۱)
قبر کا طواف اور بوسہ:
بلا شبہہ غیر کعبہ معظمہ کا طوافِ تعظیمی ناجائز ہے اور غیر خدا کو سجدہ
ہماری شریعت میں حرام ہے، اور بوسہ قبر میں علما کو اختلاف ہے ، احوط (زبان
احتیاط) منع ہے ، ( احکام شریعت ، ۳/۳ وفتاویٰ رضویہ ، ۴/۸)
قبرپر لوبان اگربتی اور چراغ :
عود ، لوبان وغیرہ کوئی چیز نفسِ قبر پر رکھ کر جلانے سے احتراز ( پرہیز )
چاہےے اگرچہ کسی برتن میںہو ، (فال بد کی وجہ سے کہ قبر کے اوپر دھواں
اٹھنا اچھا نہیں ) .... اور قریب قبر سلگانا اگر وہاں نہ کچھ لوگ بیٹھے ہوں
نہ کوئی تالی ( تلاوت کرنے والا) یا ذاکر ہو بلکہ صرف قبر کے لیے جلا کر
چلا آئے تو ظاہر منع ہے کہ اسراف واضاعت مال ہے ،(فتاویٰ رضویہ ، ۴/۱۴۱)
تبرکات بزرگان دین سے مال کمانا:
تبرکاتِ شریفہ جس کے پاس ہوں ان کی زیارت کرنے پر لوگوں سے اس کا کچھ
مانگنا سخت تشنیع (برا) ہے ۔ جو تندرست ہو ، اعضا صحیح رکھتا ہو، نوکری
خواہ مزدوری اگرچہ ڈلیا ڈھونے کے ذریعہ سے روٹی کما سکتا ہو، اُسے سوال
کرنا حرام ہے، .... رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں ،....
غنی یا سکت والے تندرست کے لیے صدقہ حلال نہیں ، ( بدرالانوارفی آداب
الآثار ، ص ۵۳، مطبوعہ مبارک پور)
دعوت میت :
کسی کے مرنے کے بعد سوم چہلم وغیرہ میںجو عام دعوت ہوتی ہے ، اس پر سخت
نکیر کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے مستقل ایک رسالہ تصنیف فرمایا ، ”
جلیُّ الصوت لنھی الدعوة اَمامَ الموت“ جو دعوتِ میت ، کے نام سے شائع ہے ،
اس میں اور دیگر فتاوے میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے اس کی ممانعت کی ہے ۔ ایک
جگہ فرماتے ہیں ۔” مردہ کا کھانا صرف فقرا کے لیے ہے ، عام دعوت کے طور پر
جو کرتے ہیں یہ منع ہے ، غنی (مالدار ) نہ کھائے ۔(احکام شریعت دوم ، ص
۶۱)سوم دہم چہلم وغیرہ کا کھانا مساکین کو دیا جائے ، برادری کو تقسیم یا
برادری کو جمع کرکے کھلانا بے معنی ہے ، .... کمافی مجمع البرکات،موت میں
دعوت نا جائز ہے ۔(فتاویٰ رضویہ ۴/ ۳۲۲)
مزید تفصیلات کے لیے امام احمد رضااور ردبدعات ومنکرات از:مولانا یاسین
اختر مصباحی،ارشادت اعلیٰ حضرت از:مولانا عبدالمبین نعمانی،تعلیمات اعلیٰ
حضرت از:مولانا محمد میکائیل ضیائی،خوب وناخوب از:پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد
مظہری،فاضل بریلوی اور اموربدعات از:سیدفاروق القادری ودیگر رضویات پر شائع
شدہ دیگرکتابوں کامطالعہ کریں۔ |