ہماری مساجد

مساجد اللہ کا گھر ہیں۔ ایک مسجد کے باہر کی دیوار پہ کیا خوب شعر لکھا تھا۔
یہی مسجد یہی کعبہ یہی گلزار جنت ہے
چلے آؤ مسلمانوں یہی تخت محمد ہے

آج کے دور میں بھی چھوٹی بڑی مساجد ہر اسلامی مملکت کے شہر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ کئی ایک مساجد فن تعمیر کا شاہکاربھی کہلاتی ہیں۔ جیسے اسلام آباد میں فیصل مسجد۔ تاریخی مساجد کی فہرست میں لاہور کی بادشاہی مسجد کا نام بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ آج کے دور میں جہاں جاوبےجا دنیاوی ترقی زندگی کے ہر شعبے میں عیاں ہے، اپنی مساجد میں بھی ہم لوگوں نےبہت سے اضافے خود اپنی مرضی سے اور اپنی آسایٔش کے پیش نظر کر لیٔے ہیں۔ ان دنیاوی چیزوں کی اضافی بھرمار نے مسلمانوں کی نہایت پاکیزہ عبادت گاہوں کو اپنے مقام سے ہٹا دیا ہے۔ اب دنیا کی کم و بیش تمام بڑی اور تاریخی مساجد (ماسواۓ سعودی عرب کی مساجد کے) غیر ملکی سرکاری (غیر مسلم) مہمانوں کی زیارت کے لیۓ بھی پیش کر دی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر سابق امریکی وزیرخارجہ (سیکریٹری آف سٹیٹ) ہلری کلنٹن جب ایک مرتبہ سرکاری دورے پر اسلام آباد آئیں تو ان کو شہر کے تفریحی مقامات کی سیر کے لیٔے بھی لے جایا گیا۔ انہیں فیصل مسجد کا بھی دورہ کروایا گیا، مسجد کے امام صاحب نے ان کا خیر مقدم کیا۔ سابقہ برطانوی شہزادی لیڈی ڈیانا کو لاہور کے تاریخی مقامات کے علاوہ بادشاہی مسجد بھی لے جایا گیا۔ انہوں نے بھی مسجد کا اندرونی دورہ کیا۔ یہاں کے امام صاحب نے بھی ان کو نہ صرف خوش آمدید کہا ، ان کا استقبال کیا بلکہ سر ڈھانپنے کے لیۓ دوپٹہ بھی دیا۔ کسی تبصرہ نگار نے اگلے روز کے شمارہ میں لکھ بھی دیا تھا کہ اگر امام صاحب ان کو شلوار بھی دیدیتے تو مناسب رہتا۔ ابو ظہبی کی شیخ زایٔد مسجد کے تو کیا ہی کہنے۔ یہ بہت زیادہ رقم خرچ کر کے بہت بڑی مسجد بنائی گئٔی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مسجد تمام ہی سیاحوں (مسلم و غیر مسلم مردوزن) کے لیٔے کھلی ہے۔

مساجد کو مسجد نبوی کا نمونہ ہی رہنا چاہیے تھا، اس دور کی مسجد نبوی جیسی نبی آخر زماں ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں مسلمانوں کو قایٔم کر کے دی ۔ مگر ہم نےایسا ہرگز نہ کیا۔ ہم نے آج کی مساجد کے ساتھ کیا معاملہ کیا علامہ اقبال کے اس شعر میں اسکی صحیح عکاسی ہوتی ہے۔
مسجد تو بنا دی شب بھرمیں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا

مساجد سے مؤذنوں کا اذان دینا ایک نہایت ضروری اور درست عمل ہےلیکن لاؤڈ سپیکر پہ اذان دینا، خطبہ دینا اور دیر تک درودوسلام یا نعت پڑھنا نہ توصحابۂ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین سےثابت ہے، نہ خلفۂ راشدین سےاور نہ ہی آقاۓ دوعالم حضرت محمد ﷺسے۔ اس حقیقت کے بر عکس اطلاعا عرض ہے کہ اس مرض کو ہم ایک درجہ اور آکے لے گۓ ہیں۔ اب بہت سے شہروں کی ہر ہر مسجد میں ڈش انٹینا اور ریسیور بھی نصب کر دۓ گۓ ہیں۔ اور ان کو خلایٔ سیارچے (سیٹلایٔٹ) سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ گویا اب صرف ایک مؤذن ایک وقت میں کسی ایک بڑی مسجد سےاذان دیتا ہے اور وہ بیک وقت ساری مساجد سے نشر ہوتی ہے۔ یعنی ہم نے دیگر تمام مؤذنوں سےاذان دینے کا حق چھین کر انہیں اس سعادت سے محروم کر دیا ہے۔ روز محشر مؤذن حضرات کی سب سے نمایا ں پہچان ان یہ ہوگی کہ ان کی گردن نہایت خوبصورت اور دیگر انسانوں سے ذرا لمبی ہوگی۔

مزید برآں یہ کہ مساجد کو فقہی بنیادوں پہ تقسیم کر دینا ایک نہایت گھناؤنا عمل ہے۔ یہ کہ فلاں مسجد مخصوص ہے صرف ان لوگوں کی عبادت کیلۓ جو ایک خاص رنگ کی پگڑی پہنتے ہیں اور یہ کہ عام مسلمان ان مساجد میں جا ہی نہیں سکتا۔ معلوم نہیں کہ ایسا کر کے ہم اللہ کو کیا دکھلانا چاہ رہے ہیں؟ راقم کی پختہ راۓ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے یقینا ہم اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و رضا حاصل نہ کر پایںٔ گے۔ بات یہیں تک آکے رک گیٔ ہوتی تو بھی سوچا جا سکتا تھا کہ اس غلطی کو کیونکر سدھارا جاۓ۔ جبکہ فی الوقت واقعہ یہ ہے کہ ایک مسلک والے دوسرے مسلک والوں کی عبادت گاہوں پر حملے کر رہے ہیں۔ بیشتر مسالک کے اپنے مسلح گروہ ہیں جوایک دوسرے کی اہم شخصیات کودن دھاڑے قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ یقینا اس صورت حال سے وہ غیر ملکی ایجنٹ خوب خوب فایٔدہ اٹھا رہے ہیں جنہیں حکومتی عہدوں پر فایٔز قوم کے غداروں نے بیرون ملک سفارتخانوں سے ویزے جاری کر دۓ ہوۓ ہیں۔ اور اب وہ غیر ملکی ایجنٹ (فوجی) قانونی طور سے ملک کے اندر رہ کر ہم سے جنگ لڑ ر ہے ہیں۔
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا ع

موبایٔل فون کا استعمال:
مختلف ادوار میں دنیا کے تقریبا تمام مسلمانوں کو بالعموم اور ہم پاکستانیوں کو بالخصوص دنیاوی چیزوں کی لت بھیڑ چال کی صورت جنون کی حد تک لگتی رہی ہے۔ ایک دور تھا کہ ہر دوبیٔ سے لوٹنے والے کےگلے میں یاشیکا کیمرہ لٹکا ہونا لازمی تھا گویا اس کے بغیر منزل مقصود تک پہنچا ہی نہ جا سکے گا (ملاحضہ ہو راقم کی تحریر ْدوبیٔی چلو)۔

اسکی جگہ وڈیو کیمرے نے لی۔ پھر وی سی آر کا خبط سوار ہوا اور نجانے کیا کیا۔ اب جو آکے سوئی اس موزی موبائل پہ اٹکی ہے تو لگتا نہیں کہ مستقبل قریب میں (یا شایٔد مستقبل بعید میں بھی) اس مہلک بیماری سے ہم چھٹکارا حاصل کر سکیں۔ گاڑی چلاتے، موٹرسائیکل چلاتے، سائیکل چلاتے یا بیساکھیوں کے سہارے چلتا ہوا شخص اس فون میں مشغول نظر آتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اب ہماری مساجدمیں بھی اس مرض میں مبتلا لوگوں کی بھرمار ہے۔ راقم نے مسجد کے اندر اور نماز کے دوران قیام میں اور رکوع میں لوگوں کوفون کال موصول کرتے دیکھا ہے۔ اکثر لوگ تو مسجد کے آداب یا دوسرے نمازیوں کا سرے سے ہی خیال نہ کرتے ہوئے مسجد کے اندر سے کال ملا کر پوری بات کرتے ہیں خواہ کتنے ہی نمازی ان کو نظروں ہی نظروں میں تنبیہ کريں کہ ایسا کرنا ہرگز مناسب نہیں۔ راقم چونکہ عرصہ دراز سے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہے اس ليے یہاں کی مساجد میرے مشاہدہ میں ہیں۔ یہاں تمام چھوٹی بڑی مساجد ائير کنڈیشنڈ ہیں، گویا جتنی دیر مسجد کھلی رہے گی اتنی دیر اے سی چلے گا ،بجلی جلے گی۔ بجلی چونکہ تیل کے جنریٹروں سے بنتی ہے چنانچہ جنریٹر چلیں گے تیل نکالنے والی کمپنیوں کا کام چلے گا (تیل نکالنے والی تقریبا تمام کمپنیاں غیر ملکی ہیں) اسی طرح لاؤڈ سپیکرز، ایمپلی فائیرز، پانی کی موٹریں وغیرہ، گویا عبادت ہماری فائدہ ان کا۔ سراسر مسلمانوں کا فائدہ ہو ایسا ہم نے ابھی سوچنا بھی شروع نہیں کیا، جبکہ ہمارے اسلاف نے ہمیں اس سے منع بھی فرمایا۔ ہونا کیا چاہیے تھا اور ہو کیا رہا ہے؟
بقول علامہ اقبال
ہو تیری خاک کے ہر ذرے سے تعمیر حرم
خود کو بیگانۂ انداز کلیسایٔ کر
شکریہ، وسلام

عادل نوشیروان رشید
About the Author: عادل نوشیروان رشید Read More Articles by عادل نوشیروان رشید: 4 Articles with 3924 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.