ا سی کی دہائی میں بین الاقوامی
اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ یونیورسٹی کے اساسی مقاصد میں سے ایک
اہم امر یہ بھی تھا کہ اسلام اس یونیورسٹی سے فاضل ہونے والا فرد جہاں اپنے
شعبے وفن کا ماہر بن کر معاشرے میں اپنی خدمات سر انجام دے تو ساتھ ہی وہ
عملی طور پر معاشرے میں اسلام کے مثبت اور تاقیامت تک رشد وہدایت کے پہلوﺅں
کا عملی پیکر بھی ہو۔گیارہ ستمبر 2001کے سانحہ کے بعد عالمی قوتوں کی
بدنظریں اس یونیورسٹی کے خلاف سرگرم عمل ہوگئیں۔سردست جس امر کو توجہ کا
مرکز ٹھہرایا گیا وہ یہ تھا کہ اسلامی یونیورسٹی کو یا تو نام و کام کے
اعتبار سے بدل دیا جائے یہ امر کافی مشکل نظر آیاکیوں کہ یہ یونیورسٹی عرب
ممالک کے اشتراک سے قائم ہوئی تھی اس کو یکسر ختم کرنا یا اس میں ایک دم
فساد و انتشار پھیلانا خطرات کو دعوت دینے کے مترادف تھا،تو اس امر کا حل
اس میں تلاش کیا گیا کہ یونیورسٹی کے اہم عہدوں پر روشن خیال اور سیکولر
افراد کو مختلف اداروں سے لاکر بیٹھا دیا گیا۔ان افراد نے اپنی ہمہ تن
جدوجہد اس یونیورسٹی کو سیکولر بنانے کی کوشش کی اور مخلوط نظام تعلیم کو
رواج دینے کی کوشش کی ،اسلامی کلیات میں آنے والے طلبہ کے راستے بتدریج بند
کیے،مخلوط پروگرامات منعقد کرائے،اسی طرح کے بہت سے منفی اقدامات 2001سے
2012تک کیے جاتے رہے ،جس کا نتیجہ یونیورسٹی کے اسلامی تشخص پر کلنگ کے
طورپر ثابت ہوا ملک پاک کے چھوٹے بڑے اخباروں میں اسلامی یونیورسٹی کے طلبہ
وطالبات کی غیر اسلامی و غیر اخلاقی خبریں زینت بنتی رہیں۔
اسلامی یونیورسٹی چونکہ مسلم وعرب ممالک کے تعاون سے قائم کی گئی لہذا اس
یونیورسٹی کی تنزلی اور اس کے قیام کے اہم مقاصد مفقود ہوتے واضح نظر آئے
توبلآخر سعودی حکومت نے اپنی ذمہ داری کو از سرنونبھانے کا عہد کیا ۔اس
سلسلہ میں سعودیہ کے معروف و مشہور اسلامی سکالر ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش
کو بطور صدر نامزد کیا۔یونیورسٹی کے نئے صدر نے جہاں یونیورسٹی میں ترقیاتی
وتعلیمی اور رفاہی سرگرمیوں پر توجہ دی وہیں پر انہوں نے یونیورسٹی میں
تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی و اخلاقی
تربیت کی ذمہ داری کو پورا کرنے کا عہد بھی کیا کیوں کہ یہ امر مسلم ہے کہ
والدین کی اکثریت اپنے بچوں کو اسلامی یونیورسٹی میں اس لیے بھیجتے ہیں کہ
یہاں پر ان کو دوسری جامعات کی بنسبت اپنے بچوں کی حفاظت ونگہداشت کا پورا
یقین ہوتاہے۔
اسلامی یونیورسٹی کی نئی انتظامیہ نے والدین کے اعتماد وبھروسہ کو پرواکرنے
کی خاطر اور طالبات کی حفاظت کے پیش نظر یہ فیصلہ کیایونیورسٹی کے ہاسٹلز
میں رہائش پذیرکوئی طالبہ بعد از نماز مغرب باہر نہیں جائے گی۔اس مثبت
فیصلہ کو روشن خیال اور سیکولر طالبات اوران کی اوٹ میں چھپے خفیہ عناصر نے
قبول نہیں کیا اور اس امر کو اپنی آزادی پر حملے کے مترادف گردانتے ہوئے
یونیورسٹی میں احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا۔اس سلسلہ میں اگر چہ دوسرے ذیلی
مسائل کو سامنے رکھ کر اپنے ناپاک اور اسلامی یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کو
مجروح کرنے والے عزائم کی تکمیل گذشتہ روز یونیورسٹی کو بند کرکے ثابت کیا
گیا۔جب کہ ان طالبات کے تمام جائز اور ذیلی معاملات پر جمعہ کے روز ہی
اتفاق ہوگیا تھا کہ وہ تمام مسائل حل کردیے جائیں گے۔مگر اسلامی یونیورسٹی
کو بدنام اور خراب کرنے والے عناصر کے ایما پر گذشتہ روز یونیورسٹی میں
تعلیمی سلسلہ کو بند کردیا گیا۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات کے
والدین اپنی ذمہ داری کا حساس کرتے ہوئے یونیورسٹی کے اس مثبت فیصلہ کی
تائید وحمایت کریں اوراس سلسلہ میں یونیورسٹی کو درکار ہر مدد ومعاونت
فراہم کریں ۔اس کے ساتھ اسلامی یونیورسٹی کی انتظامیہ پر لازم ہوتاہے کہ ان
کو چاہیے طالبات کے تمام جائز و مثبت مطالبات کو منظور کیا جائے اور ان پر
عملدرآمد بھی شروع کیاجائے البتہ وہ مطالبات جن سے اسلامی یونیورسٹی کے
تشخص کو ذراسی بھی زچ پہنچ رہی ہو ان کو کسی صورت قبول نہ کیا جائے بلکہ
ناجائز مطالبات کا مطالبہ کرنے والے طلبہ وطالبات کے خلاف سخت سے سخت
کارروائی عمل میں لائی جائے۔اسلامی یونیورسٹی کے اسلامی تشخص و شناخت کو
برقرار رکھنے میںکسی قیمت غفلت نہ برتی جائے بصورت دیگر عنداللہ اسلام کے
نام کو مجروح کرنے کی عبرت ناک سزاءکا سامناکرناپڑے گا۔ |