کیا میرا خورشید اس گاڑی سے اترا ہے

تحریر: کامران رانا

کچھ روزقبل لاپتہ افراد کے عزیز و اقارب نے کوئٹہ سے کراچی تک لانگ مارچ کیا تاکہ عوامی رائے عامہ کو بیدار کیا جاسکے۔سابق چیف جسٹس پاکستان نے ریاستی سکیورٹی اداروں کو حکم دیا کہ ان 35 افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے جن کو مالاکنڈ جیل سے لاپتہ کیا گیا۔چیف جسٹس نے فوری طور پر وزیر دفاع کو طلب کیا اور انہوں نے عدالت کو یہ مژدہ سنایا کہ لاپتہ افراد کا سراغ لگالیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے ان کو مزیدمہلت دے دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نئی منتخب حکومت عوام کی توقعات پر پوری نہیں اْتری اور لاپتہ افراد کے عزیز و اقارب آج بھی آہ و بکا کررہے ہیں مگر حکومت اپنی آئینی ذمے داریاں پوری کرنے سے قاصر ہے اور سکیورٹی کے اداروں نے متوازی حکومت قائم کررکھی ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں جنگیں، لڑائیاں اور دہشت گردی قوموں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں وہاں وہاں لاپتہ افراد کا معاملہ اٹھتا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں سرگرم ہوتی ہیں، حکومتوں پر تنقید ہوتی ہے، اداروں کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قانون حرکت میں آتا ہے اور میڈیا پر ہر قسم کی رائے زنی کی جاتی ہے۔افواہوں کا بازار گرم ہوتا ہے اور شکوک شبہات جنم لیتے ہیں اور معاشرہ مزید انتشار کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔

اگر لاپتہ افراد کے معاملے کی گہرائی میں جایا جائے تو کئی اورپہلو بھی سامنے آتے ہیں جن عوام کے علم میں لانے کی ضرورت ہے ۔ا ہم ترین سوال یہ ہے کہ یہ لاپتہ ہونے والے افراد کون ہیں؟ گو کہ ان افراد کے لواحقین کو یقین ہے کہ انہیں خفیہ اداروں نے اٹھا یا ہے لیکن ادارے کہتے ہیں ہمارے پاس جو لوگ تھے ہم نے پیش کردئیے ہیں۔ لیکن اہم سوال ذہن میں یہ ابھرتا ہے کہ کیا بقیہ افراد کو آسمان نگل گیا یا زمین کھا گئی؟ کیا یہ اداروں کی تحویل میں ہیں؟ کیا یہ کسی کالعدم تنظیم کا حصہ بن کر روپوش ہو چکے ہیں؟ کسی جھڑپ میں مارے جا چکے ہیں؟ کیا ان میں سے کچھ دوسرے ممالک میں جا بسے ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ مل کر ملک میں کارروائیاں کررہے ہیں؟معاملہ کچھ بھی ہو، لیکن عموماًعزیزاقارب کا خیال ہوتا ہے کہ یہ بے گناہ لوگ اور معصوم شہری ہیں۔ ذہن میں اگلا سوال یہ آتا ہے کہ کیاجب ان لوگوں کو ریاستی ادروں نے تحویل میں لیا تو ان کے گھر والوں کو معلوم تھا کہ یہ کس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے تھے؟ کس گروہ کے ساتھی یا تنظیم کے رکن تھے ؟گر یہ عام شہری ہوتے تو انہیں نہیں پکڑ اجاتا؟ یقینا زیادہ تر گھرانوں کو اسکا علم نہیں ہوتا ۔کیونکہ تربیت دینے والے انہیں اپنی شناخت خفیہ رکھنے کی ہدایت کرتے ہیں اور طریقے سیکھاتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبرنہیں ہوتی کہ ان کے یہ سپوت کیا کام کر رہے ہیں؟ کس کے لئے کر رہے ہیں؟بادی النظر میں وہ شریف باپ، بھائی یا بیٹا ہوتے ہیں لیکن در پردہ کس کے لئے وہ کام کرتے ہیں اس کا علم شاید ان میں سے کچھ کو خود بھی پتا نہیں ہوتا کہ وہ کس کی ایماء پر ایسے کاموں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ کیا جوجو لو گ اپنے ہی بھا ئیو ں ، بہنو ں اور بچو ں کے امن و سکو ن کو تبا ہ کر نے اور دہشت گردی و انتہا پسندی کا با عث بنتے ہیں انکا قید و بند میں رہنا ہما رے حق میں بہتر نہیں؟کیوں کہ ان چند لو گو ں کی آزا دی اور بازیابی ہماری اجتماعی بر با دی اور تبا ہی کی علا مت ہے۔

اگرچہ آئین پا کستان کے مطا بق عدلیہ اور افواج پاکستان کی تضحیک کی اجازت ہر گز نہیں ہے لیکن آجکل میڈ یا نے ہر حساس معاملہ کو کریدنا شروع کردیا ہے، جس میں صحافتی اقدارکو ملحوظ خا طر رکھا جاتا ہے اور نہ ادروں کی افا دیت اور نہ ملکی وقا ر کو ۔ زیر حراست تما م رجسٹر ڈ لا پتہ کسی نہ کسی جرم میں یاہشت گردی میں ملو ث ہوتے ہیں لیکن جو کوائف مختلف این جی اوز اور غیر مصدقہ رپورٹس پیش کرتی ہیں و ہ عموماًحقا ئق پر مبنی نہیں ہوتے ۔ غیر سرکا ری اداروں کے پا س مصدقہ اور مستند ریکا رڈ مو جو دہوتا ہے نا ان کے جرائم کی تفصیل لیکن جس طرح اس معاملہ پر رائے ہموارکی جاتی ہے اس سے صرف ایک تاثر مقصود ہوتا ہے کہ یہ افراد معصوم اور بے گناہ جبکہ ریاستی ادارے بے لگام ہیں۔ کیا ان دہشت گردی کے خلاف کارروائی یا ان سے خلاصی کا کام صرف قانون نافذ کرنے والے ادروں کا کام رہ جاتا ہے۔ کیا ملک میں
ایسامؤثر قانون اور ایسا عدل ہے جس سے دہشت گردی میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکتاہے؟ کیا میڈیا کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ ان لاپتہ افراد کے کارناموں اور کرتوتوں کو بھی عوام کے سامنے لائے تاکہ عوام ان کے اصل چہرے سے آگا ہ ہوں۔ کیا یہ حکومت اور عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ ایسا نظامِ عدل قائم کرے جو دہشت گردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچائے تاکہ وہ پورے ملک میں انتشار سے باز آجائیں۔یقینا اگر ایسا ہو جائے تو کئی مسئلے ختم ہو جائیں گے اور لاپتہ افراد سے متعلق عدالتی کارروائیاں بھی رکیں گی اور ریاستی ادارے بھی پیشیاں بھگتنے کی بجائے اپنی اصل ذمہ داریوں پر توجہ مرکوز کرسکیں گے۔ بحرحال جن لاپتہ افراد کے پیارے آج سڑکوں پر مارے مارے پھر رہے ہیں ان کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر شہری کا فرض ہے کہ اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھے، اپنے گھر میں اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں تاکہ کوئی ان کے معصوم بچوں کے ذہنوں کو آلودہ نہ کر سکے۔ایسا ہوجائے تو اداروں کی پیشیاں بھی ختم ہوجا ئیں گی۔ پھر نہ ماؤں کے جگر گوشے بچھڑیں گے نہ بہنیں سڑکوں پر لانگ مارچ کرتی نظر آئینگی، نہ باپ بچوں کی جدائی کے غم میں گھل گھل کر مرتے نظرآئیں گے۔ نہ ہر روز شام کوراہ تکتی کوئی ماں مسافروں سے یہ کہے گی میرے خورشیدنے آج گھر آنا تھا، کیا وہ بھی اس گاڑی سے اترا ہے؟
 
Anwar Parveen
About the Author: Anwar Parveen Read More Articles by Anwar Parveen: 59 Articles with 39982 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.