کمزوروں کا مال مت کھاؤ

اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کے اعمال ظاہر کرنے کے لیئے انہیں پیدا فرمایا تاکہ باہمی ایک دوسرے کے کردار کھل کر سامنے آئیں۔اسی لیئے انسانوں کو ایک جیسا نہیں بنایا۔ ان میں کچھ کو ہر لحاظ سے دوسروں سے وسعت عطا فرمائی۔ طاقت اور زورکے نشہ میں کچھ انسان مدہوش ہوکر انسانیت کی قدروں کو پامال کردیتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں سفلہ قسم کی صفات زیادہ عود کرکے انکی عقل سلیم کو سفلیات میں تبدیل کردیتی ہیں۔ دنیا میں ایسے بے شمار لوگ گرے اور انکے انجام بد سے تاریخ آنے والی نسلوں کی رہنمائی کے لیئے موجود ہے۔ مثلا فرعون ارذل اور سفلہ صفات کا مجسمہ تو تھا ہی لیکن اسکی عادات خبیثہ کو لاتعداد لوگوں نے شعوری طور پر اپنا یا ان ہی لوگوں کو قرآن حکیم میں آل فرعون فرمایا گیا۔ کمزوروں پر ظلم و ستم کرنا ان لوگوں کے معمولات تھے۔ لوٹ مار اور معاشی استحصال کرنا ان کا وطیرہ تھا۔ فرعونوں کی اصل طاقت یہی آل فرعون تھے اور انہی کے لاسے پر وہ حکومت کرتے تھے۔ پھر اﷲ تعالی نے انکی لاشوں کو آنے والی نسلوں کی عبرت کے لیئے تحفظ عطافرمایا۔ کافر کا اقتدار تو قائم رہ سکتا ہے مگر مخلوق خدا پر ظلم کرنے والوں کو اﷲ تعالیٰ اقتدار سے ہٹا کر ذلت و خواری سے دوچار کردیتا ہے۔ ایسے لوگوں کی بے شمار مثالیں ہیں۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالی کا فرمان ہے کہ مفہوم: بے وہ (انسان) ظالم اور جاہل ہے۔ یہ وہی انسان ہیں کہ جو زور اور اقتدار میں اپنی قبر بھول جاتے ہیں۔سیدالمرسلین ﷺ نے اپنی پوری حیات طیبہ میں مال ومتاع سے بہت کم تعلق رکھا اور اس دنیا سے پردہ فرمانے سے پہلے امت کو دنیا کی حقیقت اور اس سے نفرت کا درس یوں دیا کہ گھر میں چند درہم پڑے تھے فرمایا کہ انہیں صدقہ کردو۔ حالانکہ آپکے دولت کدہ شریف میں نو ازواج مطہرات اور کچھ لونڈیاں بھی تھیں۔ مزید برآں تدفین کے انتظامات کے لیئے بھی رقم کی ضرورت تھی۔ کاش کہ مسلمان ان رازوں کو سمجھ جائیں۔ کوئی بتاتو دے کہ امہات المؤمنین رضی اﷲ عنھن نے اپنا نان و نفقہ کہاں سے حاصل کیا؟ کیا ان عظیم المرتبت ماؤں کی ضروریات زندگی نہ تھیں۔ جو ہستیاں اﷲ کے رازق ہونے کے رازوں سے آگاہ ہیں انہیں کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی۔ یہی درس تھا جو آپ ﷺ نے امت کو دیا۔ جب تک خلافت علی منہاج النبوت قائم رہی عوام کی دولت یعنی بیت المال امانت رہا اور اس میں کسی قسم کی خیانت کا تصور تک موجود نہ تھا حتیٰ کہ کلی اختیارات کے مالک خلفاء لباس کا پراناجوڑا بیت المال میں جمع کراکے نیا جوڑا لینے کے حقدار ہوتے تھے۔ اسی طرح مال غنیمت میں بھی مساوات کا اصول ہی کارفرماتھا۔ کلی اقتدار اور اختیارات کا مالک خلیفہ تو بظاہر بیت المال کا محافظ، عوام کا رکھوالا، لوگ رات کو سوتے تو وہ پہرے دیتا۔ رات کی تاریکیوں میں اکیلااپنے نفع و نقصان اور آرام سے بے نیاز ضرورتمندوں اور پریشانیوں میں گرفتار لوگوں کی مدد کرتا، خاتون اول کبھی کبھار عورتوں کی آیا بن کر کام کرتی اور خلیفہ وقت اپنی پیٹھ پر غریبوں کی بھوک دور کرنے کا سامان لاتا۔ اسکا اونٹ اسکی لینڈ کروزر تھی اسے چرانے خود جاتا۔ دوران سفر مساوات اور عدل کو قائم رکھتے ہوئے غلام کو اسکی باری پر سوار کرتا۔ یہ عدل گستریا ں بھی چرخ کہن نے دیکھیں اور پھر ظلم و انصافی اور حکم الہی کی اعلانیہ خلاف ورزی بھی دیکھی کہ جب عوام کو غلام بنا لیا گیا، انکی جائیدادوں پر قبضہ کرلیا گیا، بیت المال کو ذاتی خزانہ سمجھا جانے لگا اور اس میں من مانا تصرف شروع ہوا۔ یہ دور خلافت علی منہاج النبوت کے خاتمہ پر بنو امیہ کے اقتدار سے جو شروع ہوا تو آج تک جاری ہے۔انگریزنے اس ملک میں اپنا مخصوص جمہوری نظام نافذ کیا جو اسکے مفادات کا تحفظ کرتا تھا۔ نفسیاتی اعتبار سے ہوا کے رخ پر اڑنے والوں کو اس نے منتخب کیا۔ جمہوریت کا کافرانہ لاسہ تیار کیا جس کا تانابانا ظلم ، ناانصافی، مذہب سے بغاوت، معاشرتی اقدار کی پامالی اور اسلامی نظریہ نظام حیات اور انتظام و انصرام ریاست اسلامی سے بے گانہ تھا۔

پاکستان کے وجود میں آتے ہی طالع آزما ملکی وسائل پر قابض ہوگئے۔ کچھ عرصہ تک تو صرف بائیس خاندانوں کو ملکی دولت لوٹنے کا اعزاز حاصل تھا۔ پھر اس مجرمانہ ذہنیت نے لاتعداد انڈے دیئے کہ جن سے عوامی استحصال کرنے والے لاروے پہلے والوں کی نسبت کہیں زیادہ مہلک بن کر سامنے آرہے ہیں۔ کہنے کو نیب ہے، ایف آئی اے ہے، وفاقی محتسب ہے میڈیا بھی کچھ احتساب کرتا ہے، مگر نتیجہ تو صفر ہی سامنے آتا ہے۔ سابق صدر پاکستان کے سوئیٹزر لینڈ کے بینکوں میں اس ملک کے عوام کی غصب شدہ رقم کا کیا بنا؟ سوئیٹزر لینڈ کی حکومت کو کاروائی روکنے کا خط لکھنے والی بیوروکریٹ کے خلاف کیا کاروائی ہوئی؟ حضرت رینٹل پاور کے خلاف کیا ہوا؟ توقیر صادق نے جو کھربوں لوٹا وہ کہاں گیا؟ ایفی ڈرین کیس سے قوم کو کیا کچھ ملا؟ اصغرخان کیس میں جن لوگوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے وہ بھی تو عوام کا پیسہ تھا۔این آر او کے تحت دونوں ہاتھوں سے لڈو کھانے والوں کے خلاف کیا کاروائی ہوئی؟ بہت سارے کیس ایسے ہیں کہ جن کا نمبر ہی نہیں آرہا۔ ہاں امریکہ کے سامنے کشکول پھیلانا لٹیروں اور غاصبوں کا وطیرہ ہے۔ آج عوام کے چولہے بجھ چکے ہیں، جو لوگ ٹیکسیاں چلاکر اپنے بچوں کا پیٹ پالتے تھے ، آج وہ نان شبینہ کو محتاج ہیں، مجھے یقین کامل ہے کہ جب انکے بچے بھوک سے بلکتے ہونگے تو وہ یہی کہتے ہونگے کہ یا اﷲ غاصبو ں اور لٹیروں کو ہلاک کر اور اپنے نیک بندوں کو ہم پر مسلط فرما۔ جو ہمارے حقوق ہمیں دیں۔اس مملکت خداد اد میں کچھ خود مختار ریاستیں بھی ہیں کہ جہاں بجلی اور گیس ہمہ وقت موجود رہتی ہیں ۔ مثلاریاستہائے بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے وغیرہ ۔ شہنشاہ معظم صدر پاکستان اور شہنشاہ معظم جناب وزیر اعظم پاکستان کی پاکستانی اور ذاتی جنت نظیرریاستوں میں زندگی کی تمام تر سہولیات ہر لمحہ حاضر ہیں۔اسے جدید پاکستانی مساوات کہتے ہیں۔ اس وقت ملک کا یہ حال ہے کہ خونخوار درندوں کی طرح سیاستدان، بیوروکریٹس، جرنیل اور تمام ادارے اپنی اپنی بساط اور دسترس کے مطابق عوام کی دولت سے اپنی تجوریا ں بھر رہے ہیں۔عوام کا لوٹا ہوا مال دوسرے ملکوں میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ یہ احوال حقائق پر مبنی ہیں۔ عوام کا پیسہ عوام کو سود پر دینا اور اسے عوامی فلاحی منصوبے قرار دینا صریحا گمراہی نہیں تو کیا ہے؟ سود حرام ہے اور حکم قرآنی کے مطابق اﷲ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ عوام کو ایک پیچیدہ نظام میں جکڑنا، جسکے پاس قرض کی رقم کے برابر بینک میں پیسہ ہوگا تو اسے ہی سود پر یہ قرض ملے گا۔ یہ قرض وہی لے سکے گا جو پہلے سے سود(حرام) کھانے کا عادی ہے اور اﷲ نے اسے ڈھیل دے رکھی ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ریاست کا بینک قوم کا سرمایہ ہے۔ عوام اپنے پیسے سے حسب ضرورت رقم حاصل کریں اور اپنا کاروبار کامیاب کرکے حاصل کردہ رقم واپس اپنے بینک میں جمع کرادیں تاکہ دوسرے بھائیوں کے کام آسکے۔ یہ بہترین طریقہ ہے جبکہ سود والے پیسے سے شروع کیا گیا کاروبار حرام اور وہ مٹ جائے گا۔ پکڑ دھکڑ ہوگی ،جائیدادیں قرق ہونگی اور لوگ جیل جائیں گے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں فورا بند کردی جائیں۔ وزیراعظم اور وزرا بشمول صدر پاکستان کے عوام کے خزانہ سے کوئی تنخواہ نہ لیں بلکہ قوم کی دی ہوئی عزت کے صلہ میں ماہانہ کچھ جمع کرائیں۔الیکشن کمیشن نے ان لوگوں کے اثاثوں کی جو تفصیل بتائی ہے اگرچہ اس کا حقائق سے دور کا تعلق نہیں تاہم اس رقم اور بیگمات کے زیورات پر زکوۃ تو وصول کی جائے۔ کچھ تو کرواﷲ کو جواب دینے کے لیئے۔اﷲ تو ان کو ہدائت دے آمین۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128275 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More