مسزتنویرلطیف کاپاکستان!

’’میں اس وقت کافی چھوٹی تھی جب ایک دن اپنے ابوکے ساتھ راولپنڈی میں ،غالباًیوم پاکستان منایاجارہا تھا۔بازارسے گزررہی تھی کہ ناگاہ میں ابوکی انگلی چھڑاکرسڑک کی دوسری جانب ایک دکان پر پاکستان کی جھنڈیوں کے لگائے ہوئے سٹال کی طرف لپکی،یک دم ایک تیزرفتارٹرک نے اتنے زروسے بریک لگائی کہ پورے بازارمیں گویاسناٹاچھاگیاہو،کافی سارے لوگ اکٹھے ہوگئے ،یہ اتنااچانک ہواتھاکہ مجھے پتاہی نہیں چلاکہ یہ کیاہوگیاہے۔میرے ابودوڑتے ہوئے آئے اور مجھے فوراًسینے سے لگاکرپیارکرتے ہوئے کہنے لگے بیٹایہ تونے کیاکردیاتھا،اگرٹرک کے نیچے آجاتی تو۔۔۔۔۔۔۔،میں نے صرف اتناساجواب دیاکہ ابو’’کیاپاکستان میں بھی ٹرک بچوں کو کچل دیتے ہیں؟‘‘ ۔ یہ بات سناتے ہی بولنے والی کی آوازبھرگئی اورآنکھیں آنسوؤں سے ٹمٹمانے لگیں،حاضرین بھی ضبط نہ کرسکے اورمجھ سمیت بہت سی دوسری آنکھوں میں بھی’’پانی‘‘بھرآیا۔یہ باتیں تحریک پاکستان کے مجاہد کی قابل فخربیٹی،ماہرتعلیم،مصنفہ اورپاکستان سے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی حاصل کرنے والی آزادکشمیرٹیکسٹ بک بورڈکی چئرپرسن محترمہ مسز تنویرلطیف نے مظفرآبادمیں’’نظریہ پاکستان فورم آزادکشمیرکے زیراہتمام’’نظریہ پاکستان اورہمارانظام تعلیم ‘‘کے عنوان سے منعقدہ سیمنارسے خطاب کے دوران کہیں۔مسز تنویرلطیف کے بارے میں،میں زیادہ تونہیں جانتاالبتہ ان سے دوتین ملاقاتوں میں،میں نے جو سیکھاہے وہ آج تک کسی دوسری درسگاہ سے نہیں سیکھ سکا۔اس واقعہ سے پہلے جب وہ سٹیج پر تقریرکے لئے آئیں تو فرمانے لگیں ،آج میرادل چاہتاہے کہ میں اپنے دل کی بات کروں،جب بات نظریہ پاکستان کی ہو،تو لگی لپٹی ہوہی نہیں سکتی۔انہوں نے اپنی گفتگوکے آغازمیں ایک اور واقعہ سنایا،فرمانے لگیں،ہم لاہورمیں تھے جب سرینگرسے ہمارے ایک عزیزہم سے ملنے کے لئے آئے۔یہ قیام پاکستان کے تھوڑے عرصہ بعدکی بات ہے۔صبح جب ناشتے پربیٹھے تو لاہوری باقرخانی کاپہلانوالہ اٹھاتے ہی وہ مہمان حیرت سے پوچھنے لگے’’کیاپاکستان میں بھی چربی استعمال کرتے ہیں؟‘‘یعنی ،یہاں پاکستان میں بھی ملاوٹ ہوتی ہے، ابومعاملہ سمجھ گئے اور ٹالنے کے لئے بول دیا،یہاں باقرخانیوں میں چربی ہی استعمال کی جاتی ہے۔پھرکہتی ہیں’’ایک باریہاں مدینہ مارکیٹ میں کوئی خریداری کررہی تھی کہ ایک لڑکی کو دیکھاجو Lipstick پسندکرنے کے لئے ٹشوپیپرکاپوراڈبہ ہی جیسے خالی کرنے پہ تلی ہوئی ہو،ایک لگاتی ،پھراس کو پونچھ کردوسری لگاتی،میں نے بہت پیارسے کہا‘بیٹاایسانہیں کرتے،آپ انگلی پہ لگاکے چیک کرلو،وہ لڑکی بولی،آنٹی یہ ساتھ والی دکان پہ میری مماشاپنگ کررہی ہیں‘انہوں نے تومجھے کبھی منع نہیں کیاپھرآپ کون ہوتی ہیں مجھے ٹوکنے والی؟

مسزتنویرلطیف یقیناًاوربھی باتیں کرتیں،لیکن وقت قلیل تھااس لئے وہ واپس نشست ِصدارت پہ جاکربیٹھ گئیں۔انہوں نے سامعین کو جو پیغام دیا،کوئی سمجھے ،نہ سمجھے مجھے اتناضرورسمجھ آیاکہ جن لوگوں نے اپنے خون جگرسے اس چمن کی آبیاری کی ہے ،جب وہ اپنی آنکھوں سے اس چمن کو اجڑتاہوادیکھیں گے، تو ان کا سینہ تو چھلنی ہی ہوگا۔پتانہیں ہم آج کدھرجارہے ہیں۔قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اﷲ علیہ اور ہمارے اقبال رحمۃ اﷲ علیہ کہاں کھوگئے ہیں۔قائدؒکے دیس کو کس کی نظر لگ گئی ہے اور ہمارے اقبال ؒ کاشاہین کن کرگسوں میں کے چنگل میں الجھ کر رہ گیاہے۔کیاقائداعظم اؒور حضرت اقبالؒ کے پاکستانی،اسلامی جمہوریہ پاکستان کی فضاؤں میں ہی موجودہیں۔یہ کون ہیں جن کامزاج باغیانہ،افکارعامیانہ اورخیالات فرنگیانہ ہیں۔کیایہ اسی پاکستان کے باسی ہیں۔آج ہماراطرز عمل کیا ظاہرکررہاہے۔پاکستان طوائفوں کی جھنکاروں نے آزادکرایاتھایانعرہ ہاء تکبیرورسالت لگاتے ہوئے نوک سناں پرسرکٹانے والوں نے اس شجربہارکی اپنے خون سے آبیاری کی تھی؟ ۔کیا اس ارض وطن کے خاکے میں لاکھوں عفت مآب ماؤں بہنوں،بیٹیوں نے اپنی پاکیزہ عصمتوں اورہزاروں بہادربیٹوں نے اپنے خون سے رنگ نہیں بھراتھا؟۔یہ کونساپاکستان ہے جس میں ہمارے نوجوان کی صبح فحش بھارتی اورانگلش گانے سننے سے شروع ہوتی ہے اور رات فیس بک پہ چیٹنگ کرنے یاموبائل پیکج پہ گزرجاتی ہے۔یہ کون ساپاکستان ہے جہاں قومی خزانے کوشیرمادرسمجھ کرلوٹنے والے چوروں اورلٹیروں کو استثنیٰ حاصل ہے اور غریب کے بیٹوں کوایک وقت کی روٹی کے لئے آٹاچراتے ہوئے سربازارلٹکاکرقتل کردیاجاتاہے۔یہ کونساپاکستان ہے جہاں ہرطرح کی آسائش پرصرف وڈیروں،نوابوں،زرداریوں،بگٹیوں،سرداروں ،آمروں اورنام نہادحکمرانوں کے لاڈلوں کوہی حق حاصل ہے،غریب کہیں قبرستان سے مردوں کو نکال پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے ان کا گوشت پوست نوچ رہے ہیں توکہیں کفن چوری کرکے تن پہ پردہ ڈال رہے ہیں۔یہ کونسا پاکستان ہے جہاں مائیں اپنی بیٹیوں کو فروخت کرنے پرمجبورہیں،جہاں لوگ سنگینوں کے سائے تلے عبادت کررہے ہیں۔قائدؒواقبال ؒ نے یہی دن دیکھنے کے لئے پاکستان بنایاتھا؟؟؟

صرف نظام تعلیم ہی کیا،کون ساایساشعبہ ہے جو آئین پاکستان سے مطابقت رکھتاہے۔ہماری عدلیہ (معذرت کے ساتھ)،مقننہ،انتظامیہ اورمیڈیاقوم کو کس نہج پہ لے جارہے ہیں۔اس نظام کی آخر کون سی ’’کَل‘‘ سیدھی ہے۔اسی سیمنارمیں ایک مقررنے تجویزدی کہ’’ علم الااخلاق‘‘ کو نصاب کا لازمی حصہ بنایاجائے۔موصوف جامعہ کشمیرمیں ایک فکیلٹی کے ڈین ہیں۔مجھے اس تجویزپر بہت حیرت ہوئی۔بھئی وہ نظام تعلیم ہی کیاہے، جس میں علم الااخلاق نہیں۔ ہماری تعلیم کا آغازتوہوتاہی اخلاقیات سے ہے۔’’لب پہ آتی ہے دعابن کے تمنامیری،زندگی شمع کی صورت ہو خدایامیری‘‘۔جناب آپ کو علم الااخلاق کی نہیں،’’عمل الااخلاق‘‘ کی ضرورت ہے۔آپ کے سکول ماسٹرجب سکولوں کو ٹھیکے پہ دے کے خود سیاستدانوں کے نعرے لگاتے رہیں گے پھرکوئی علم الااخلاق ہمارے آوارہ مزاج کو نہیں بدل سکتا۔کتنی ستم ظریفی اورندامت کی بات ہے کہ کلمہ ءِ طیبہ کی بنیادپرقائم ہونے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آج 68سال بعد تعلیمی نظام میں ’’علم الااخلاق ‘‘کی ضرورت پیش آگئی ہے۔آہ ،مسزتنویرلطیف جیسے پاکستانیوں کوآج یہ دن بھی دیکھناتھاکہ ان کے پاکستان میں اب اخلاقیات کادرس بھی دیناپڑے گا۔
Safeer Raza
About the Author: Safeer Raza Read More Articles by Safeer Raza: 44 Articles with 43149 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.