کچھ عرصہ قبل لاہور میں ساتھیوں سمیت ہم نے
واہگہ بارڈر دیکھنے کا پروگرام بنایا۔دوپہر کے وقت ہم کرایہ کے موٹر
سائیکلوں پر روانہ ہوئے ۔لاہور کی بڑی بڑی سڑکوں پر ایک تو چلانے کا مزہ
آیا اور دوسرا ایک جنون سوار تھا کہ ہم آج وہ خونی لکیر دیکھنے جارہے تھے
جسے ہمارے بزرگوں نے1947 ء میں اپنے خون سے کھینچا تھا ۔ہم وقت سے پہلے ہی
واہگہ بارڈر پر پہنچے کافی منت سماجت کے بعد بھی بارڈر پر تعینات عملہ نے
کسی صورت ہمیں آگے جانے کی اجازت نہیں دی۔ایک تو اپنا ہی اشتیاق تھا بارڈر
دیکھنے کا اور دوسرا ہمارے پاس کرائے کی موٹر سائکل تھی ۔کوئی چار بجے کے
قریب ایک لمبی قطار بنوائی گئی جس کے بہت ابتداء میں ہی ہم ساتھی تھے ہمارا
شوق منظر دیدنی تھا ۔
جب ہمیں اندر جانے کی اجازت مل گئی ،قطار سے آگے کوئی ستر میٹر کے فاصلے پر
پروگرام کا مقام تھا یہ پروگرام ہر روز اسی وقت شروع ہوتا تھا۔جوں ہی ہم نے
پھاٹک کراس کیا ہم آگے ایسے دوڑنے لگے جیسے آگے پاک فوج کی جگہ پر ہم نے
جنگ لڑنا تھاقریب جاتے ہی پاکستان کے مختلف قومی ترانوں کی آواز گونجنے لگی،
جس میں کبھی پاکستان پاکستان میرا پیغام پاکستان تو کبھی جنید جمشید کی
آواز میں اے جواں اے جواں منزل ہے آسماں گونجتا ساتھ ایک پشتو ترانہ بھی
تھا جو کہ آئے ہوئے مہمانوں کے رگوں میں ایک وحدانی جذبہ بھر تے۔پروگرام کے
داخلے کی صورت کچھ یوں تھی ہم مغرب سے مشرق کی طرف منہ کرکے سیڑھی نما ں
چبوترے میں بیٹھ گئے۔ہمارے بائیں جانب خواتین بیٹھی ہوئی تھیں۔ہمارے پیچھے
قائد اعظم کی تصویر تھی اور سامنے ہمیں گاندھی جی کی تصویرنظر آتی
تھی۔بارڈر پر پاکستانی گیٹ اور انڈین گیٹ آپس میں تھوڑے فاصلے پر اپنے اپنے
پرچمی رنگ کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔تھوڑ ی دیر میں ہمیں کچھ ہندی گانوں کی
آواز آگئی جو کہ انڈین پروگرام سے آرہی تھی ۔جس کے مکبرالصوت کا منہ
پاکستانی پروگرام کی طرف تھاگویا کہ دونوں اطراف سے مکبراصوت کی کبریائی کا
مقابلہ ہورہا تھا۔پھر یکا یک ایک بینڈ باجا گروپ کے ساتھ عمران نامی آدمی
نمودار ہوا جس کے وردی کا رنگ بھی پاکستانی پرچم کی طرح کا تھا اور ہاتھ
میں پاکستانی جھنڈا بھی تھاعمران پرچم سے بڑے کرتب دکھا رہا تھا ایک ویسا
ہی آدمی انڈین فلیگ کلر میں سامنے انڈیا کی طرف نظر آیاحیرانی ہوئی کہ ان
کا بھی آپس میں واقع مقابلہ ہورہا تھا۔کچھ دیر بعد دونوں اطراف سے اپنی
اپنی عوام کی طرف منہ کئے انہوں نے نعرے لگانے شروع کئے۔ادھر سے پاکستاااان
زندہ باد اور دوسری طرف ہندوستان زندہ باد کے نعرے گونجنے لگے بعض نوجوانوں
نے ہندوستان کے آواز کے ساتھ ہی مردہ باد کا نعرہ لگایا اتفاق سے اسی وقت
پاکستان کابھی نعرہ گونج رہا تھا جس کا جواب انہیں زندہ باد میں دینا چاہئے
تھا لیکن وہ دونوں نعروں کو آپس میں مکس کرکے مردہ باد بول گئے۔شاید یہی
حالت ہمارے مخالف سمت میں بھی ہوگئی ہوگی۔
فوجی پریڈ کے بعد پرچم کشائی ہو گئی اور دونوں اطراف سے دروازے بھی کھلے
دونوں طرف سے فوجی جوان آپس میں فوجی سٹائل میں بالمشافہ ملے بھی۔
واپسی پر جب ہم ساتھیوں نے پھاٹک کراس کیا، جہاں پر ہمیں پہلے روکا گیا تھا
،تو ہر طرف لوگوں کا ایک ہجوم موجود تھاہر ایک کے چہرے پر ایک اطمینان بخش
مسکراہٹ تھی جیسے سارے واہگہ بارڈر سے نہیں بلکہ جنگ آزادی سے آرہے تھے۔
ہم اپنی موٹر سائیکل لانے اب پاکستان کی طرف آرہے تھے ،لمبی کشادہ سڑک کے
دائیں جانب ایک ایسے آدمی کی طرف میری نظر گئی جو ان تمام مسکرانے والے
چہروں سے بے نیاز تھا،چہرہ متغیر تھا ،بال اوپر کئے ہوئے تھے ، سفید تھری
پیس سوٹ میں ملبوس ،ہاتھ میں سگار لئے ہوئے پھونکوں پر پھونکے مارے جارہا
تھا،اب میں اس کے قریب جا کے سلام دعا کی تو اس نے اپنا منہ پھیر لیامیں
حیرانگی کے ساتھ دوسری جانب گیا میاں نے وہاں سے بھی اپنا منہ پھیر لیا
میری حیرانگی کی کوئی انتہا نہیں رہی،بالآخر بڑے میاں نے غصے کے عالم میں
میری طرف دیکھا اور کہا ’یہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہورہا‘،میں نے اپنے دائیں
بائیں نظریں دوڑائی جب کچھ خاص برائی نظر نہیں آئی تو میں نے ان سے کہا کہ
’بابا کیا ٹھیک نہیں ہورہا‘بابا بڑے جذباتی انداز میں تھوڑے آگے آئے اور
اپنے سگار سے مغرب کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ’جہاں سے تم آئے ہو ‘میں نے
کہا ’اوہ واہگہ بارڈر‘،بابا خاموش رہے پھر اپنے سوٹ سے دوسرا ہاتھ بھی باہر
نکالا اور کہا ’کہ اسی سرحد کیلئے ہم اپنی جوانی گنوادی اور تم لوگ صرف
یہاں پر ناچ گانا دیکھنے آتے ہو‘میں اس جوشیلے بابا کو شاید صحیح پہچان
نہیں سکا ،اس نے اپنا سگار کسی سگریٹ دانی کی بجائے سڑک پر ہی پھینک دیا
کیونکہ وہاں کوئی سگریٹ دانی تھی نہیں۔’افف ۔۔آزادی کے صرف چند ہی دنوں بعد
آپ لوگ مک مکاؤ میں مصروف ہوگئے،ایک توقف کے بعد،’میرے دوست لیاقت علی خان
کو گولی ماردی ،میری بہن کی تقریر تک آپ لوگوں نے منقطع کی اور بعد میں اسے
دھاندلی سے الیکشن میں بھی ہرادیا‘۔بابا کی آنکھوں میں آنسو نمودار ہوئے
میں نے اپنا سر پکڑ کر سڑک کے کنارے سے ٹیک لگایا۔میری حالت دیکھ کر بابا
کا رویہ تھوڑا نرم ہوا اور ایک سرد آہ بھر کر انہوں نے میرے قریب آکر پھر
یوں لب کشائی کی کہ ’ہمیں صرف زمین کے ٹکڑے سے کوئی غرض نہیں تھی بلکہ ہمیں
ایک امتحان گاہ چاہئے تھاجہاں پر ہم اسلامی قوانین کو اپنا سکتے‘ آپ نے پھر
ایک سگریٹ لگایا اور کہا کہ ’کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہو کہ سارا ملک لہولہان
ہے ہر طرف اپنے ہی شہری مررہے ہیں اسکی صرف وجہ یہ ہے کہ ہم نے جس ملک کو
لا الٰہ الا اﷲ کے نعرے سے حاصل کیا تھا یہ ملک ابھی تک نہ اسلامی بن سکا
ہے نہ ہی جمہوری بن سکا ہے نہ ہی پاکستانی ۔اسلام کا یہ حال ہے کہ آج تک
کوئی بھی اسلامی قانون یہاں پر صحیح نافذ نہیں ہوسکا ہے سودی نظام ابھی تک
رائج ہے اور جمہوریت کا یہ حال ہے کہ یہاں پر جمہوریت سے زیادہ فوجی آمریت
رہی ہے اور پاکستان کا یہ حال ہے کہ یہاں پر معین الدین قریشی اور شوکت
عزیز جیسے غیر ملکی بھی یہاں کے وزراء بیٹھے ہیں اور یہا ں کا افسراپنے
اولاد کو پڑھانے کیلئے ہر کوئی بیرون ملک بھیجتا ہے اپنی سرمایہ کاری ہر
کوئی بیرون ملک رکھتا ہے اور شہر کی گلیوں میں ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک بے
گناہ افراد کے قتل اور ٹارگٹ کلنگ کیلئے بنایا ہے‘بابا کا انداز ایک استاد
کی طرح تھا جو آخری بار سمجھارہا تھاشام کا وقت قریب تھا اسلئے میں نے ایک
گستاخی کی اور اسکی بات کو کاٹ کر پوچھا کہ’ بابا اب اسکے ازالے کی کیا
صورت ہوسکتی ہے کیونکہ آپ کے نظریات تو بہت پرانے ہیں اور اس قسم کے نظریات
تو،بابا نے میری بات کو ٹوکا اور کہا کہ’ کیا صلیبیوں نے عیسیٰؑ کو صلیب پر
نہیں چڑھایا تھا ‘میں نے اثبات میں اپنا سر ہلایا ‘اور تقریباًدو سو برس
بعد واپس اسکے معتقدین اور مقلدین بن گئے ‘میں نے پھر اپنا سر اثبات میں
ہلایابابا نے بڑے غصے میں کہا کہ تو پھر کیا آپ لوگ صرف ستر برس پیچھے جاکے
نظریا ت کو حاصل نہیں کرسکتے‘’کیا دو سو برس بعد وہی صلیبی حضرت عیسیٰ ؑ کے
سچے امتی نہیں بنے تھے اگر ہاں تو آپ لوگ بھی 65،70 برس بعد اپنے اکابرین
کا نظریہ اور فلسفہ حاصل کرو اور جس خیال سے اس ملک کیلئے آباء نے قربانی
دی تھی اسے دوبارہ حاصل کرو‘ ۔
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
میں بابا کے اس فلسفے سے حیران ہوگیا ،تب جا کے مجھے لگا کہ یہ واہگہ بارڑر
واقعی ایک خون سے سینچی ہوئی لکیر ہے لیکن صرف عقل والوں کیلئے ۔میرے دوست
نے مجھے پیچھے سے آواز دی اور ایکدم بابا واپس اپنی تصویرمیں جاکر بیٹھ گئے
اب اسکے چہرے پہ ایک مسکراہٹ بھی تھی۔اور وہ بالکل قائد اعظم محمد علی جناح
لگ رہے تھے جسکی تصویر اس سڑک پر نصب ہے۔میں واپسی کا سفر شروع ہی کرنے
والا تھا پیچھے سے بابا کی آواز آئی کہ
وطن کی فکر کر نادان مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤ گے اے پاکستان والوں
تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانو ں میں
میں نے بابا کو ہاتھ ہلایا اور خدا حا فظ کہ کر رخصت ہوا |