مہنگائی معاشی بدحالی بجلی و گیس کی
لوڈشیڈنگ سے تباہ حال اور نام کی حد تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تیسرے
مرتبہ بننے والے وزیراعظم نے گذشتہ روز بیان دیا ہے کہ بار بار آئی ایم ایف
کے نرغے میں آجا تے ہیں اور خدا کرے کہ اس سے جان چھوٹ جائے اور عوام کو
سہولتیں فراہم ہوں ان کا یہ بیان بھی حکمرانوں کی روزمرہ کے بیانات کی طرح
صرف خانہ پری ہے جسے ان کے ہم نوالوگ جو میڈیا میں بیٹھ کر ان کی پبلک
ریلیشن کرتے ہیں نمایاں کرکے چھاپ دیتے ہیں اور پھر ان پر بڑے بڑے تبصرے
اور خبریں بھی چھپتی ہیں کہ عوام کے غم میں خوار حکمران کتنی درد دل رکھتے
ہیں حالانکہ ان حکمرانوں سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے
والے تو آپ خود ہیں جب آپ حکومت سے باہر تھے اور فرینڈلی اپوزیشن کا کردار
ادا کررہے تھے اس وقت آپ آئی ایم ایف کے حوالے سے بڑے دعوے کرتے تھے کہ
قرضے نہیں لینگے بھوکے رہینگے اور کشکول اٹھا کر کہیں جائینگے لیکن حکومت
میں آنے کے بعد تو آپ نے کشکول اٹھا خیرات زکواة قرضے لینے شروع کردئیے ہیں
اور اس پر خود اپنے ساتھیوں کو عیاشی کروانا بھی شروع کردی ہیں جو کہ تاحال
جاری ہے -بھوکے ننگے ملک کے امیر حکمرانوں کی عیاشیوں کا یہ حال ہے کہ
گذشتہ دورہ امریکہ میں پاکستانی وفد جو کہ وزیراعظم کی سربراہی میں امریکہ
گیا تھا وفد کے ممبران سمیت وزیراعظم نے جس ہوٹل میں قیام کیا تھا اس کا
ایک دن کا کرایہ سات ہزار پانچ سو ساٹھ ڈالر روزانہ تھا نیویارک کے پیلس
ہوٹل میں سات لاکھ 91 ہزار آٹھ سو روپے پر رات گزارنے والے وزیراعظم ان کے
وزیر خزانہ اسحاق ڈار خواجہ آصف اور سرتاج عزیز نے اس ہوٹل میں قیام کیا
تھا ایک رپورٹ کے مطابق ان افراد کے قیام و طعام اور ٹکٹس سمیت دیگر
لوازمات پر ساڑھے دس کروڑ روپے اخراجات آئے تھے جو کہ قومی خزانہ کو خالی
قرار دینے والے حکمرانوں نے ادا کئے بدترین معاشی بحران کے شکار پاکستانی
عوام کیساتھ جمہوری حکمرانوں کا یہ رویہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس ملک
کے حکمرانوں کو عوام سے کتنی محبت ہے ایک ایسے ملک میں جہاں پر پیدا
ہونیوالا ہر بچہ تقریبا نوے ہزار روپے کا مقروض ہو وہاں پر حکمرانوں کی اس
طرح کی عیاشیاں یہ ظاہر کرتی ہے کہ حکمرانوں کو صرف اپنا آپ اپنا خاندان
اور اپنے دوست ہی نظر آتے ہیں انہیں صرف اپنے بچوں کی بہتری عزیز ہے جن کے
بینک بیلنس بڑھتے رہے ان کے کارخانے ہر ملک میں بنتے رہے جس کیلئے دوروں پر
دورے کئے جارہے ہیں اور بیٹوں بیٹیوں کو اس ملک کے غریب اور بے وقوف عوام
پر مسلط کرکے انہیں انداز سیاست بھی سکھائی جارہی ہیں تاکہ انہیں مستقبل
میں لارا لپہ کے ڈرامے دیکربے وقوف عوام کو زندہ باد اور مردہ باد کیلئے
تیار کیا جاسکے -
ایک طرف طبقہ امراء سے تعلق رکھنے والے حکمران ان کے شہزادے اور شہزادیاں
اور دوستوں کا یہ حال ہے کہ عوام کے خون پسینے کی کمائی پر عیاشی کو اپنا
فرض سمجھتے ہیں اور دوسری طرف متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد جو کہ
ممنونیت کی وجہ سے بڑے عہدے پر پہنچ گئے ہیں کہ چند ہی مہینوں میں اپنی
اوقات تک بھول گئے ہیں تازہ مثال تو ممنون رہنے والی شخصیت کی ہے جوکراچی
سے اسلام آباد تک پہنچ گئے اور پہلے ہی ہلے میں سرکار کے مال پر اپنے
خاندان کے لوگوں کو حج کروائی تاکہ لوگ انہیں حاجی بھی کہیں یہ الگ بات کہ
ان کیلئے ادا کی جانیوالی رقم اس ملک کے غریب عوام کے ٹیکسوں سے پیدا
ہونیوالی آمدنی سے ادا کی گئی جبکہ حال ہی میں موصوف نے اپنی تصاویر ایوان
صدر میں لگانے کیلئے پندرہ لاکھ روپے فوٹو گرافر کو دے ڈالے اپنی فیملی
خاندان پر حد سے زیادہ مہربان متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے صدر نے ڈیڑھ
لاکھ روپے فی البم ادائیگی بھی کی ان کے اس عمل پر صدارتی ترجمان نے موقف
اپنایا ہے کہ فوٹو گرافر کی خدمات پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے لی ہے اور
انہیں قیمت کا اندازہ ہی نہیں یہ ہے قومی خزانے کو اللو تللو میں اڑانے
والے والے ایلیٹ کلاس کے شہزادوں اور متوسط طبقے سے اوپر جانیوالے حکمرانوں
کی عیاشیاں ان حالات میں کس طرح قرضوں کی ادائیگی کیلئے آئی ایم ایف کے پاس
جانا نہیں پڑے گا یہ وہ سوال ہے کہ جو اس ملک کے حکمرانوں سے پوچھنے کی
ضرورت ہے کیونکہ کرسی پر بیٹھنے کے بعد تو انہیںاپنی اوقات بھی یاد نہیں
رہتی اور نہ ہی اپنا ارشاد ات )جو کہ حقیقت میں بکواس ہوتی ہے (جو وہ مختلف
اوقات میں فرماتے ہیں -اس لئے اپنی کہی ہوئی باتیں بھول جاتے ہیں -یقینا
یہی وجہ ہے کہ حکمران یہ بھی بھول چکے ہیں کہ پاکستانی عوام کی قوت خرید
اور سکت ختم ہو چکی ہیں پٹرول بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ کیساتھ ان کی بڑھتی
قیمتوں نے انہیں اس حال تک پہنچادیا ہے کہ اب لوگ چوری کی طرف راغب ہورہے
ہیں اور حقیقت میں بجلی چوری کا بڑھتا ہونا عنصر اس بات کا ثبوت بھی ہے
لیکن حکمرانوں کو اپنی عیاشیاں عزیز اور یاد ہیں اس لئے ایسے قوانین بنائے
جارہے ہیں کہ عوام انہیں عیاشیوں کیلئے رقم فراہم کرے کوئی مرے یا جئے
انہیں اس سے کوئی غرض نہیں حال ہی میں بجلی چوری کے بڑھتے رجحان کو قابو
کرنے کیلئے نیا آرڈیننس بھی جاری کردیا گیا ہے جو متوسط طبقے سے اسلام آباد
ایوان صدر پہنچنے والے شخصیت نے کیا ہے جس میں دس لاکھ سے لیکر ایک کروڑ
روپے تک جرمانہ کیساتھ ساتھ دو سے سات سال کی قید کی سزا بھی بجلی چوری پر
شہریوں کو دی جاسکے گی انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ بجلی چوری کی
وجوہات کیا ہے کون چوری کرکے بجلی استعمال کررہا ہے بس آرڈیننس ایک آسمانی
صحیفہ ہے جوکہ حکمرانوں نے جاری کردیا ہے اور اس پر عملدرآمد اب اس بھوکے
ننگی قوم پر فرض ہے -
لیکن ان سب باتوں کو ایک لمحے کیلئے بھول جائیے یہ نیا سال 2014 ء ہے ہر
ایک شخص خواہ وہ حکمران ہو یا عام آدمی اپنی ذہن میں یہ بات لائے کہ صرف
ایک ہندسہ اس میں تبدیل ہوگیا ہے یعنی یہ سال 2114 ء ہے اب ہر کوئی یہ
سوچیں کہ وہ اس وقت کہاں ہونگے کہاں ہوگی آپ کی دولت کہاں ہوگا آپ کا
خاندان آپکی نوکری آپ کا بڑا کاروبار اور سٹیٹس کیا اس وقت ہر چیز ختم نہیں
ہوگی مٹی میں شامل ہو کر مٹی نہیں بنے ہوگی کیا ایسا نہیں ہوگا یقینا ایسا
ہی ہوگا سب کچھ فنا ہوگا ہاں کچھ چیزیں ایسی ہوگی جو اس وقت بھی یاد رکھی
جائینگی ہمارے اچھے اور برے اعمال جس طرح 1913 1813 اور 1713ء کے لوگ کسی
کو یاد نہیں کہاں ہیں وہ لوگ اسی طرح ہم میں ہر کوئی خواہ وہ حکمران ہو
ایلیٹ کلاس سے ہو یا متوسط طبقے سے کیا اپنی ذمہ داری پوری کررہے ہیں جواب
ہاں میں ہے تو پھر خوش قسمت ہے اور اگر نفی میں تو پھر ابھی سے آغاز کریں
سچائی کی طرف جانے کیلئے ہمارے ذہنوں میں تو یہ بات ہے کہ ابھی بہت بڑا وقت
پڑا ہے لیکن ہمیں اندازہ نہیں کہ ہاتھوں سے نکلنے اور پھسلنے والا وقت لوٹ
کر نہیں آتا- |