ایدھی فاؤنڈیشن کی چار ایمبولینسیں جل گئیں۔
سبزی منڈی پر واقع ایدھی سینٹر کے سامنے کھڑی ان گاڑیوں کا جلنا کسی کے لیے
شاید بڑی خبر نہ ہو مگر مجھے محسوس ہورہا ہے کہ جیسے میرا ذاتی نقصان ہوا
ہو۔ میں سوچ رہی ہوں کہ موت کے پنجوں سے جانوں کے چھین کر انھیں زندگی کی
آغوش تک پہنچاتی ان چار گاڑیوں کے جل جانے کی وجہ سے کتنے ہی مریض اور زخمی
علاج گاہوں تک رسائی سے محروم ہوجائیں گے اور ان میں سے کتنے ہی تڑپ تڑپ کر
جان ہار جائیں گے۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن، چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن اور ان
جیسے دیگر فلاحی ادارے اگر کام کرنا بند کردیں تو ہمارا کیا حال ہو۔ یہاں
’’ہمارا‘‘ سے میری مُراد غریب اور متوسط طبقے کے وہ لوگ ہیں جنھیں عوام اور
عام کہا جاتا ہے، جن کے ووٹ سے حکومتیں بنتی اور پھر اپنی پوری مدت کے
دوران انھیں ’’بناتی‘‘ رہتی ہیں، یہ مملکت کے وہ باسی ہیں کہ بجلی کا بحران،
گیس کی بندش، دہشت گردی اور بدامنی سمیت ہر مسئلہ ان کی زندگی اجیرن
بنادیتا ہے، رہی بااثر اور وسائل سے مالا مال مختصر اقلیت، تو اس کے پاس
اثرورسوخ اور پیسے کی وہ جادوئی چھڑائی ہے جسے گھماکر آن کی آن میں کوئی
مسئلہ بھی حل کیا جاسکتا ہے۔ جناب! اگر فلاحی سرگرمیوں خاص طور پر زندگی
بچانے میں مصروف یہ ادارے اپنا کاررحمت سمیٹ لیں تو ہر روز کتنے ہی لوگ
سرکاری ایمبولینسوں کا انتظار کرتے کرتے انتظار میں کھلی آنکھیں لیے دنیا
سے رخصت ہوجائیں، جائے حادثات اور دہشت گردی کے شکار مقامات پر زخمی پڑے
کراہتے رہیں اور پھر ان کی کراہیں مستقل سکوت میں بدل جائیں، لاوارث لاشیں
اپنے ورثاء کی تلاش میں مٹی میں ملتی رہیں اور وہ ننھی جانیں جنھیں بدنامی
کے خوف سے یا افلاس کے باعث کچرا کنڈیوں میں پھینک دیا جاتا ہے، وہیں پڑے
پڑے کتوں، بلیوں اور چوہوں کی غذا بنتی رہیں اور گھر سے محروم ہوکر بے آسرا
ہوجانے والے افراد فٹ پاتھوں پر رہ کر موسموں کی شدتیں ایک روز جھیلتے
جھیلتے وہیں جان سے گزرجائیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں حکم راں صرف شان
سے حکومت کرنا ہی اپنا فرض سمجھتے ہیں، حکومتیں اپنے ذمے داریاں ادا کرنے
کو تیار نہیں اور اداروں کی نجکاری حکومتوں کا محبوب مشغلہ ہے، وہاں یہ
فلاحی ادارے کتنی بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں اس حقیقت کو لفظوں میں بیان
کرنا شاید ممکن نہیں۔ زخمیوں اور جان بہ لب مریضوں کی جان بچانے سے بے آسرا
لوگوں کو چھت دینے اور لاوارث لاشوں کی تدفین یا انھیں ورثا تک پہنچانے سے
غربت کی دلدل میں گلے تک پھنسے لوگوں کو مفت کھانا کھلانے تک یہ ادارے ان
ذمے داریوں کو نبھانے میں مصروف ہیں جو دراصل ریاست کے فرائض ہیں۔
ٹھیک ہے کہ ان اداروں کی بانی اور انھیں چلانے والی شخصیات کو حکومتیں اور
معاشرہ بجا طور پر عزت واحترام دیتے ہیں اور انھیں اعزازات سے نوازا جاتا
ہے، مگر ان سے وابستہ سیکڑوں رضاکار ہر صلے سے محروم ہیں۔ الٹا انھیں ہتک
آمیز سلوک اور تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، یہاں تک کہ ان میں سے کئی
رضاکار اپنے کام کے دوران جان سے ہاتھ بھی دھوبیٹھے ہیں۔ یہ رضاکار کس قدر
عظیم ہیں، کن مشکلات میں اور کس جذبے سے کام کرتے ہیں، اس کا اندازہ مجھے
ایک ادارے کے رضا کار سے گفتگو کرکے ہوا، جو اس ادارے کی ایمبولینس کا
ڈرائیور ہے۔
بہ طور کالم نویس زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں جاننا اور ہر پیشے سے
وابستہ افراد سے مکالمہ کرنا میرے کام کا حصہ ہے۔ اس طرح میں لوگوں کے
مسائل سے آگاہ ہوکر انھیں اپنے کالموں کے ذریعے سامنے لانے کے قابل ہوپاتی
ہوں۔ اس روز ہم ایک عزیز کی عیادت کے لیے آغاخان اسپتال گئے تھے۔ عیادت
کرکے واپسی ہوئی تو پتا چلا کہ ہماری گاڑی چلنے سے انکار کرچکی ہے۔ میرے
شوہر کو گاڑی کی خرابی سے الجھے دیکھ کر پاس ہی کھڑی ایک فلاحی ادارے کی
ایمبولینس کا ڈرائیور ان کے پاس آگیا اور اس کھوج میں ان کی مدد کرنے لگا۔
آخر طے پایا کہ کسی میکینک کی مدد لی جائے۔ اس ڈرائیور نے قریب ہی موجود
ایک میکینک کا نمبر دیا، جسے میرے شوہر نے فون کرکے بلالیا۔ جب تک وہ آتا
مجھے اس ایمبولینس ڈرائیور سے مکالمے کا موقع مل گیا۔ پھر کیا تھا۔ جانے کب
کا سینے میں بھرا دکھ اس کے ہونٹوں پر تھا۔
’’باجی! ہم لوگ یہ کام نوکری سمجھ کر نہیں کرتے، لوگوں کی خدمت کے لیے کرتے
ہیں، بڑا سکون ملتا ہے دوسروں کے کام آکر، مگر کبھی کبھی بہت تکلیف ہوتی
ہے۔‘‘ اس کا لہجہ اور آنکھیں بتارہی تھیں کہ اس کے لفظوں میں کوئی کھوٹ
نہیں۔ اس نے بتایا کہ وہ اور اس کے ساتھی ڈرائیور بعض اوقات اپنی زندگی
خطرے میں ڈال کر لوگوں کی جانیں بچاتے ہیں، اور ایسا وہ چند ہزار روپے کی
تن خواہ کے لیے نہیں بل کہ انسانیت کے جذبے کے تحت کرتے ہیں۔
جب کسی مقام پر گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور بم دھماکے کی ہول ناک آواز اپنے
پیچھے لاشیں، چیختے کراہتے زخمی، خون، آگ، دھواں اور خوف چھوڑ جاتے ہیں، تو
وہاں موجود ہر شخص جانے بچانے کی فکر میں بھاگ کھڑا ہوتا ہے، مگر یہ رضا
کار اپنے محفوظ ٹھکانوں سے نکل کر ان مقامات کا رخ کرتے ہیں۔ وہ برستی
گولیوں اور آگ اور دھوئیں کے درمیان راستہ بناکر زخمیوں تک پہنچتے اور
انھیں اسپتال پہنچاتے ہیں، وہ ایسی لاشوں کو اٹھاتے ہیں جن کی حالت دیکھ کر
ہم آپ جیسے لوگ انھیں دوبارہ دیکھنے کی ہمت بھی نہیں کرسکتے، لیکن ان خدمات
کے صلے میں عزت افزائی تو کجا بعض اوقات انھیں انتہائی ناروا سلوک کا سامنا
کرنا پڑتا ہے۔ ’’ہم سائرن بجاتے جائے حادثہ کی طرف جارہے ہوں تو لوگ ہمیں
راستہ نہیں دیتے، بلکہ ایسا بھی ہوا کہ ایسے میں لوگوں نے ڈرائیور کو
گالیاں دیں اور تھپڑ تک مار دیا۔‘‘ یہ بتاتے ہوئے اس کے چہرے پر دکھ کے
سائے تھے۔ اس کے ایک ساتھی ڈرائیور کو ایک زخمی کے لواحقین نے اس بنا پر
تشدد کا نشانہ بنایا کہ اسے زخمی تک پہنچنے میں ٹریفک میں پھنسے کے سبب
تاخیر ہوگئی تھی۔ یہ اور ایسے کتنے ہی واقعات جو اس نے مجھے سنائے یہ بتانے
کے لیے کافی ہیں کہ ہم اپنے محسنوں سے کیا سلوک کرتے ہیں۔
خودغرضی اور بے حسی کی اس فضا میں یہ رضاکار انسانیت کی علامت ہیں۔ ہمیں
انھیں کچھ نہیں دے سکتے تو کم از کم ان کی عزت تو کرسکتے ہیں، ان کی ستائش
کرکے ان کا حوصلہ تو بڑھا سکتے ہیں۔ حکومت اور عوام کو ان اداروں اور ان کے
رضاکاروں کا ممنون احسان ہونا چاہیے جو معاشرے کی اتنی بڑی خدمت انجام دے
رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ کم از کم ہر بجٹ میں ان فلاحی اداروں کے نقصان
کے ازالے کے لیے رقم مختص کرے، جو نقصان کی صورت میں فوری ادا کی جائے۔ اسی
طرح ان اداروں سے وابستہ رضاکار زخمی یا جاں بہ حق ہوجائیں تو ان کے اہل
خانہ کی کفالت ریاست کی ذمے داری قرار پائے اور خدمات دیتے ہوئے زخمی ہونے
یا جان سے جانے والے رضاکاروں کو اعزازات دیے جائیں۔
یہ فلاحی ادارے اور ان کے رضاکار ہمارے محسن ہیں، ہم ان کے احسان کا بدلہ
نہیں دے سکتے، لیکن ان کی خدمات کا اعتراف تو کر ہی سکتے ہیں۔ اور کچھ نہیں
تو آپ کو سرراہ جو رضاکار نظر آئے اس سے اتنا تو کہہ ہی سکتے ہیں، ’’شکریہ
اے ہمارے محسن۔‘‘ |