مظفرنگر بھارت سے آنیوالی سسکیاں کون سنے گا؟

علی عمران شاہین
’’دھوم تھری‘‘ نے دھوم مچا دی…… 300 کروڑ لوٹ لئے…… کرینہ کپور، قطرینہ کیف کے گانوں پر ہر طرف لوگ جھوم اٹھے…… بالی ووڈ نے میدان مار لیا…… یہ وہ فقرے ہیں جو آج پاکستانی میڈیا میں انتہائی شد و مد سے دیکھنے اور پڑھنے کو ملتے ہیں …… ملک کے جس گلی محلے میں چلے جائیں، آپ کو انڈین فلمیں، انڈین گانے اور ڈرامے ہی دیکھنے کو ملیں گے۔ اب تو ایک قدم آگے بڑھ کر پاکستانی ٹی وی چینلز نے مختلف بھارتی ٹی وی پروگرام بھی شد و مد سے دکھانے شروع کر دیئے ہیں…… جی ہاں! اسی بھارت کے کہ جس نے اپنے ملک میں پاکستانی ٹی وی چینلز پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ جی چاہا کہ آپ کو بتاؤں کہ بھارت کے دہشت گرد ہندو ہمیں دکھائے جانے والے ان مست گانوں کو کہاں کہاں اور کیسے کیسے استعمال کرتے ہیں؟ اس کا تذکرہ شروع کرنے سے پہلے قلم لڑکھڑاتا…… آنکھیں ڈبڈباتی ہیں…… لکھنے کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے…… دماغ ماؤف ہونے، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگتا ہے کہ بھارتی فلموں، گانوں اور ڈراموں کی رسیا اس قوم کو یہ کیسے سناؤں کہ وہ 8 ستمبر 2013ء کا دن تھا۔ بھارتی ریاست اترپردیش کے 4 اضلاع کے 162 گاؤں میں ہندوؤں نے مسلمانوں پر اچانک یلغار کر دی تھی…… مسلمان جانیں بچانے کیلئے بھاگ کھڑے ہوئے۔ ایک قیامت کا منظر تھا، ماؤں کو بچوں کا ہوش نہ تھا اور بچے، ان کا بھی جدھر منہ ہوا بھاگنے کی کوشش کرتے۔ مظفر نگر سے 20 کلو میٹر دور ضلع شاملی میں لاکھ باؤڑی نام کا ایک گاؤں ہے۔یہاں کا سربراہ امیر کبیر ہندو جاٹ بلو پردھان ہے جس کا اصل نام سدھیر کمار ہے۔ یہاں اس کی وسیع و عریض حویلی میں مسلمان عورتیں پناہ لینے کیلئے پہنچی تھیں، لیکن یہاں ان کے ساتھ کیا ہوا…… دل اور کلیجہ تھام کر سنیئے!

علاقے بھر سے غصے سے بپھرے ہندوؤں کے غول مسلمانوں پر حملہ آور تھے تو انہوں نے اپنے ساتھ بالی ووڈ کے گانوں کا خاص اہتمام رکھا تھا۔ بلوپردھان کی حویلی کے صحن میں انہوں نے بڑے سپیکر اور ڈیک چلا کر مسلمانوں کی ان لٹی پٹی عورتوں کو پہلے اجتماعی طور پر بے لباس کرنا شروع کیا اور پھر…… ڈھول کی تھاپ اور انڈین گانوں پر مست رقص کرتے ہندوؤں نے مسلمانوں کی خواتین کے جسم دانتوں سے نوچنا اور کھلے عام ان کی عزتیں تار تار کرنا شروع کر دیں۔ یہاں روبینہ نامی ایک خاتون جو کہ آج بھی پناہ گزین ہیں، بتاتی ہیں کہ اس کے یہ کچلے گال ہندو جاٹ بدمعاشوں نے کاٹ کھائے تھے اور 3 بدمعاشوں نے اسے چیر پھاڑ کر کے بے لباس حالت میں چھو ڑدیا تھا۔

روبینہ بلبلاتے ہوئے کہہ اٹھی کہ ان کے گاؤں پر جب ہندو بدمعاشوں نے حملہ کیا تو وہ کئی خواتین کو پکڑ کر قریبی مسجد میں لے گئے اور وہاں سپیکر پر انڈین گانے بجانے شروع کر دیئے۔ پھر سبھی خواتین کو انہوں نے مکمل بے لباس کر کے پہلے ناچنے پر مجبور کیا تو پھر انہی گانوں پر انہوں نے مسجد کے اندر ہی خواتین کی باری باری عزت تار تار کی اور ان کے کپڑے ساتھ لے کر آگے نکل گئے۔

پاکستان میں انڈین گانوں پر مست ہونے اور عوام کو مست رکھنے والوں کو کیا کبھی بھارت سے آنے والا یہ پیغام بھی سنائی دے گا……؟ کیا کبھی ہمارے ٹی وی چینلز اور اخبارات یہ خبریں بھی دنیا کو سنائیں گے؟ یقینا کبھی نہیں کیونکہ ان کے نزدیک تو یہ باتیں اشتعال کو جنم دیتی ہیں اور ان کی طے کردہ اخلاقیات کے ضوابط کی خلاف ورزی ہیں…… لیکن کوئی تو ہو جو یہ بیان کرے کہ عفت مآب بھارتی مسلم خواتین پر اترپردیش میں پسندیدہ بھارت اور دوست بھارت کے ان ہندوؤں کے ہاتھوں کیا بیتی کہ جن کے ساتھ ہمارے لوگ ’’امن کی آشا‘‘ کا فلسفہ چلا رہے ہیں۔

ہمت ہے تو سنتے جایئے…… کہ یہ آپ کو کوئی اور نہیں سنائے گا۔ بھارتی میگزین آوٹ لک کے 30 دسمبر 2013ء کے شمارے میں خاتون صحافی نیہا ڈکشٹ نے اترپردیش کے ان مسلمانوں کی چشم دید داستان بیان کرتے ہوئے بتانے لگی۔

’’شاملی ضلع میں واقع کنڈھلا کی عید گاہ میں جب ہم پہنچے تو بارش شروع ہو چکی تھی۔ مقامی لوگوں کی مدد سے چلائے جا رہے ہیں جب ہم یہاں کی مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ مسلے ہوئے ملبوسات کے ڈھیر مسجد کے صحن میں کیچڑ اور پانی سے بھرے ہوئے گڑھے میں بھیگ رہے ہیں۔

یہیں ایک 30 سالہ خاتون شبانہ بیٹھی ہوئی تھیں، جس کا تعلق لاکھ باوڑی سے تھا۔ شبانہ نے دبی دبی آواز میں بتایا کہ میرے سمیت کئی خواتین کو برہنہ کر دیا گیا۔ ان کی کھلے میدان میں اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ پہلے لاٹھیوں سے عورتوں کو پیٹا گیا اس کے بعد بے رحمی سے ان کے ساتھ درندہ صفت شیطانی حرکات کی گئیں تو مردوں کو بھی ننگا کر کے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے۔ ایک گھنٹے کی درندگی کے بعد مجھے دیگر خواتین کے ساتھ برہنگی کے عالم میں پھینک دیا گیا۔ مجھے یاد نہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا؟ سوائے اس بات کے کہ اس کیمپ کے ایک آدمی نے مجھے پہننے کیلئے کرتا دیا۔ کنڈھلا کی ایک خاتون نے بتایا کہ ان کے بدن پر کپڑے نہیں تھے۔ مقامی خواتین نے کپڑے اکٹھے کر کے انہیں دیئے۔ شبانہ کے دونوں لڑکے طاہر اور شاہد جو 5 ویں اور دوسری جماعت میں پڑھتے تھے، اب تک لاپتہ ہیں حالانکہ واقعہ کو تین ماہ بیت چکے ہیں۔

مظفر نگر کے ایک چھوٹے سے شہر گنگرو کے ایک دینی مدرسہ نے 21 گاؤں کے 400 سے زائد لوگوں کو پناہ دی۔ اس مدرسہ کے سربراہ محمد ثناء اﷲ سے جب پوچھا گیا یہاں کسی خاتون کی عصمت ریزی کے کسی واقعہ کی اطلاع ہے؟ تو انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ’’خواتین کی بے حرمتی بھی کی گئی، انہیں اذیت بھی پہنچائی گئی مگر آپ کو میرا یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ ان واقعات کو بھول جائیں۔ متاثرہ خواتین کے خاندان کے لوگوں کو اگر اس کا علم ہو گا کہ انہوں نے آپ کو سب کچھ بتایا ہے تو وہ انہیں عاق کر دیں گے‘‘۔

یہاں دوسرے کیمپ میں پناہ گزین خاتون شمع نے اپنی کہانی دہرائی کہ ’’میں اپنے چھ بچوں کے ساتھ پناہ لینے پردھان کے گھر گئی۔ وہاں ہندوؤں نے میری 3 سالہ بچی کے دونوں ہاتھ بازو توڑ مروڑ کر اسے اچھال دیا۔ یہ وہ نوجوان (ہندو) لڑکے تھے جنہیں میں نے کئی بار اپنے گھر پر کھانا کھلایا تھا۔ جب میں اسے بچانے دوڑی انہوں نے مجھے ایک لاٹھی سے پٹینا شروع کر دیا اور پھر مجھے بے لباس کر کے میری عصمت دری کے لئے انہوں نے اسی لاٹھی کو استعمال کیا۔ اسی طرح انہوں نے یہی لاٹھی والا خوفناک سلوک مزید چار پانچ عورتوں کے ساتھ کیا‘‘۔ شمع کی بہن شازیہ جو ساتھ کھڑی تھی چلا کر بولی آپ اس کے بارے میں کسی کو کچھ مت بتایئے گا۔

اس کے بعد شمع اور اس کے بچے پردھان کے گھر سے نکال دیئے گئے تو شازیہ اور ان کے سات بچے مل کر وہاں سے بھاگ گئے۔ گاؤں کے لوگ انہیں برہنہ اور خون میں لت پت بھاگتا ہوا دیکھ رہے تھے مگر ان میں سے کوئی بھی مدد کے لئے آگے نہیں آیا۔ شازیہ نے بتایا کہ وہ (ہندو) عورتیں جن کی زچگیوں میں ہم نے مدد کی تھی، بھی ہمارا تماشہ دیکھتی رہیں۔ مہراز نے اس واقعہ کو یاد کر کے جھرجھری لیتے ہوئے بتایا کہ ہندو ہجوم چیخ رہا تھا کہ ان مسلمانوں کی لونڈیاں رکھ لو۔ ظلم پر ظلم سنیئے کہ ہندوؤں نے مسلم خواتین کی چھاتیوں تک کو کاٹ دیا۔ ان خواتین نے بتایا کہ 8اور 10 لڑکوں کا ایک گروپ تھا جو ایسا لگتا تھا کہ اس مشن پر مقرر کیا گیا ہے۔ وہ کسی بھی عورت کو بے لباس کر دیتے پھر اس پر ٹوٹ پڑتے اور اس کی عزت لوٹ لیتے اور چھاتی کاٹ ڈالتے۔

اس گاؤں کی خواتین کہتی ہیں کہ ہمارے متاثرہ گاؤں کی تمام مساجد جلا دی گئیں اور انہیں تباہ کر دیا گیا۔ گاؤں کے تباہ حال اور جلے ہوئے مکانوں کے متعلق اگر ہندو گاؤں والوں سے پوچھا جائے تو وہ صاف یہی کہتے ہیں کہ معاوضہ کے لالچ میں مسلمانوں نے خود اپنے گھر جلائے۔

ہمارے لوگ جب اس بھارت کو پسندیدہ کہتے، اس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی باتیں کرتے اور ہندوؤں سے خوشی خوشی لپک لپک کر چہک چہک کر تعلقات استوار کرتے ہیں تو تن من میں آگ لگ جاتی ہے۔ ان ہندوؤں کی ہمارے میڈیا میں روز و شب ترویج ہوتی ہے، ان کی تصویریں چھپتی ہیں، انہیں عزت دی جاتی ہے، ان کی تہذیب کو ہمارے ہاں غالب کرنے کیلئے ادھیر نگری مچائی جاتی ہے تو خون کھول اٹھتا ہے…… لیکن کریں تو کیا کریں…… جائیں تو کہاں جائیں……
سمجھیں اور سمجھائیں تو کیسے اور کیونکر……
Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 197319 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.