اتحاد۔۔۔مسلم امہ کی سب سے بڑی ضرورت

وفاق وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف کی زیر ِ صدارت ہونے والی اتحاد بین المسلمین کانفرنس نے ایک تیرہ نکاتی اعلامیہ منظور کیا ہے ۔ جس کے تحت فیصلہ کیا گیا ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد ، محبت اور رواداری کے فروغ کے لیے ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے گا۔علماء کی تقریروں اور تحریروں میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔مختلف مکاتب ِ فکر کے درمیان صلح، محبت ، رواداری اور افہام و تفہیم کی فضا پیدا کر کے خلوصِ نیت سے اس پر عمل کیا جائے گا۔دوسرے مسالک کا احترام کیا جائے گا۔مسلمانوں کے مقامات ِ مقدسہ کی احترام اور حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔نیز اقلیتی فرقوں کے تحفظ اوران کے مقامات ِ مقدسہ کی حفاظت کے لیے انتظام کیا جائے گا۔ایسی مساعیِ جلیلہ کو عمل میں لایا جائے گا ، جس سے عوام میں علماء اور مشائخ کا احترام بحال ہو۔مسلکی تنازعات کو باہم مشوروں اور افہام و تفہیم کے اصولوں کی روشنی میں طے کیا جائے گا۔پبلک پلیٹ فارم پر اپنے مخالفین کے خلاف طعن وتشنیع سے مکمل اجتناب کیا جائے گا۔امہات المومنین رضی اللہ عنھن، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، اہل ِ بیت اطہاررضی اللہ عنہم، اولیائے امت، تابعین و تبع تابعین اور تمام مسلمانوں کا احترام کیا جائے گا۔دوسروں کے حقوق کی پاسداری اور اپنے فرائض کی بجا آوری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے گا۔

یہ تیرہ نکاتی اعلامیہ بلا شبہ قابل ِ ستائش ہے۔ وطن ِ عزیز میں روزانہ کی بنیاد پر فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے۔جسے ہر معتدل شخص قابل ِ نفرین سمجھتا ہے۔تعصب کی خزاؤں میں محبت کے پھول بہت جلد مرجھا جاتے ہیں۔تعصب ، چاہے وہ فرقہ واریت کی صورت میں ہو، لسانیت کی صور ت میں ہو، قومیت کی صورت میں ہو یا کسی بھی صورت میں ہو، قابل ِ مذمت ہے۔ کیوں کہ یہ کسی بھی قوم کو دیمک کی طرح اندر ہی اندر سے چٹ کرجاتا ہے۔ پھر وہ قوم دیگر اقوم کے لیے تختہِ مشق بن جاتی ہے۔مگر بد قسمتی سے ہم آج یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کل جب دشمن ہم پر حملہ کرے گا تو وہ یہ نہیں دیکھے گا کہ ہم کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ صرف "ہمارا" دشمن ہوگا۔پھر ہم ایک کیوں نہیں ہوتے ؟

اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ امت ِ مسلمہ کے زوال کا سب سے بڑا سبب کیا ہے تو میرا جواب ہوگا : نا اتفاقی۔ جی ہاں ، ہمارا سب سے بڑا مسئلہ نا اتفاقی ہی ہے۔ ہم کسی ایشو پر ایک نہیں ہوتے ۔پھر روتے ہیں کہ ہماری حالت کیوں نہیں بدلتی۔ دوسری طرف ہمارا دین اتحاد و اتفاق کا سب سے بڑا داعی ہے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سقیفہ بنی ساعدہ کے دن فرما یا تھا: "یہ بات تو کسی طرح بھی درست نہیں ہے کہ مسلمانوں کے دو امیرہوں، کیوں کہ جب کبھی ایسا ہوگا تو ان کے احکام و معاملات میں اختلاف رونما ہو جائے گا۔ان کی جماعت تفرقہ کی شکار ہوجائے گی اور ان کے درمیان جھگڑے پیدا ہو جائیں گے۔" پہلے خلافت ہوتی تھی تو کچھ کچھ مسلمانوں کی مرکزیت کا بھرم قائم رہتا تھا۔ اب تو وہ بھی نہیں ہے۔قرآن مجید کی ایک آیت کا ترجمہ ملحوظ ہو: "بے شک جو لوگ دین کو فرقوں (ٹکڑوں ) میں کرتے ہیں اور (مختلف ) گروہ ہو جاتے ہیں، آپ ﷺ کا ان سے کسی چیز میں کچھ تعلق نہیں ہے۔ان کا معاملہ صرف اللہ کی طرف ہے ۔پھر وہ (اللہ )ان کو (واضح طور پر) بتائے گا،اس بارے میں جو وہ کیا کرتے تھے۔(الانعام، آیت 159)

باتیں اور بھی بہت سی ہیں ، لیکن اس کالم کا دامن بہت چھوٹا ہے۔ بس آخر میں یہ تیرہ نکاتی اعلامیہ پیش کرنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ اس کو عملی طور پر نافذ کرنے کی کوشش کریں کہ ہم میں فرقہ وارانہ تعصب جھیلنے کی مزید ہمت نہیں ہے۔
 

Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 147173 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More