آتش فشاں کے ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ یلو سٹون جیسے
عظیم آتش فشاں کو پھٹنے کے لیے کسی زلزلے یا خارجی تحرک کی ضرورت نہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جنوب مشرقی فرانس کے شہر گرینوبل میں یوروپین
سنکروٹرون ریڈی ایشن فیسیلیٹی (ای ایس آر ایف) میں کیے گئے تجربے کے مطابق
زیر زمین موجود میگما یا آتش فشاں کے سیال مادے کی مقدار اور اس کا حجم ہی
قیامت خیز آتش فشاں کے پھٹنے کے لیے کافی ہے۔
|
|
سوئٹزرلینڈ میں ای ٹی ایچ زوریچ کے سائنسدانوں کی ٹیم کی یہ تحقیق نیچر
جیوسائنس نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔
اس کے رہنما مصنف وم مالفائٹ نے کہا: ’ہمیں معلوم ہے کہ گھڑی کی سوئی چل
رہی ہے لیکن اس کی رفتار سے ہم لا علم ہیں کہ عظیم آتش فشاں کے پھٹنے میں
کتنا وقت ہے۔‘
’اب ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ اس کے لیے کسی خارجی عنصر کی ضرورت نہیں۔ عظیم
آتش فشاں اپنے عظیم سائز کی وجہ سے بھی پھٹ سکتا ہے۔
’ایک بار وہاں لاوا اور گرم سیال مادہ زیادہ مقدار میں جمع ہو گیا وہ پھٹ
سکتا ہے۔‘
ابھی تک کی معلومات کے مطابق دنیا میں زیر زمین 20 عظیم آتش فشاں ہیں جن
میں انڈونیشیا کا لیک توبا، نیوزی لینڈ کا لیک ٹوپو اور اٹلی میں نیپلس کے
پاس بعض چھوٹے علاقے شامل ہیں۔
عظیم آتش فشاں کے پھٹنے کا عمل شاذونادر کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ عام طور
پر ایک لاکھ سال میں یہ ایک بار پھٹتا ہے لیکن جب یہ پھٹتا ہے تو اس کے
زمین کے موسم اور ماحولیات پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
جب چھ لاکھ سال قبل ویومنگ کا عظیم آتش فشاں پھٹا تھا جہاں آج امریکہ کا
یلوسٹون نیشنل پارک ہے تو اس سے ایک ہزار مکعب کلو میٹر راکھ اور لاوا فضا
میں پھیل گیا تھا۔ یہ مادہ اتنی مقدار میں نکلا تھا جو ایک شہر کو کئی کلو
میٹر زیر زمین دفن کرنے کے لیے کافی تھا۔
ویومنگ کا آتش فشاں سنہ 1992 میں فلپائن میں ماؤنٹ پناٹوبو میں پھٹنے والے
عظیم آتش فشاں سے سو گنا زیادہ بڑا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے سامنے سنہ 1883
کاکراکاٹوا کا تاریخی آتش فشاں بھی ماند تھا۔
|
|
ڈاکٹر مالفائٹ نے کہا کہ ’یہ اسی قسم کا کچھ ہے جس سے ہمیں بالآخر نبرد
آزما ہونا ہے کیونکہ یہ مستقبل میں پھٹنے والا ہے۔
’آپ اس کا موازنہ سٹرائڈ یا شہابیہ کے زمین سے ٹکرانے کے اثرات سے کر سکتے
ہیں لیکن اس کے اثرات نسبتا کم ہوں گے جبکہ اگر عظیم آتش فشاں پھٹتا ہے تو
اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔‘
مالفائٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ ایسا ہی جیسے آپ کسی فٹ بال کو پانی میں پکڑ کر
رکھیں اور جب وہ چھوٹے گا تو کس رفتار سے باہر آئے گا۔‘
اس کی جانچ کے لیے گرینوبل میں سائنسدانوں نے ایک تجربہ کیا جسے انھوں نے
’ہائی بیم لائن پریشر‘ کا نام دیا۔
انھوں نے ہیرے کے ایک کیپسول میں سنتھیٹک میگما بھر دیا اور پھر ایکس رے کے
ذریعے اس میں زبردست توانائی پہنچائی تاکہ یہ جانچا جا سکے کہ اس میں دباؤ
نازک ترین حد تک پیدا ہو گيا ہے یا نہیں۔
ای ایس آر ایف کے سائنس داں محمد میزور نے بی بی سی کو بتایا ’جب ہم ٹھوس
سے سیال میں تبدیل ہوتے لاوے کے حجم کو ناپتے ہیں تو اس کے ساتھ ہم از خود
پھٹ پڑنے کے عمل کے لیے ضروری دباؤ کا تخمینہ لگا سکتے ہیں۔
’زمین کے اندر اس طرح کی صورت حال پیدا کرنا کوئی چھوٹی بات نہیں لیکن ہم
اچھے پیمانے کے ساتھ میگما کی سطح کو 1700 سنٹی گریڈ سے 36000 سینٹی گریڈ
کے درمیان رکھ سکتے ہیں۔‘
تاہم ای ٹی ایچ زورچ کے کارمن سانچیز ویلے کا کہنا ہے کہ ’اگر آتش فشاں کا
لاوا یا گرم سیال زمین کی دراڑ سے زمین کی سطح پر آ جاتا ہے تو وہ شدید طور
پر پھیل پڑے گا اور بڑا دھماکہ ہوگا۔‘
اس کے باوجود ڈاکٹر مالفائٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر
یلوسٹون کا آتش فشاں پھٹنے کے قریب ہوگا تو اچھی خبر یہ ہے کہ ہمیں اس کا
پہلے پتہ چل جائے گا۔ کیونکہ وہاں کی زمین تقریبا سو میٹر اونچی ہو جائے گی
اور پہلے کی بہ نسبت یہ زیادہ ابھر آئے گی۔‘ |