١۔ محبت جب تک انتہاؤں کی گرفت میں رہتی ہے ہوس سے زیادہ
کچھ نہیں ہوتی کیونکہ یہ انتہاؤں سے باہر کی چیز ہے۔
٢۔ صفر قوت خرید و فروخت سے محروم سہی لیکن ہندسے کی اس کے بغیر بنتی نہیں
اور ہندسے سے جڑ کر ہندسےسے نو گنا زیادہ قیمت کی حامل ہو جاتی ہے۔ کسی کو
بیکار محض سمجھ کر نظر انداز نہ کرو پتا نہیں کب کسی ہندسے سے جڑ کر نو گنا
ہو جائے۔
٣۔ آدمی اصل میں وہ نہیں ہوتا جو ہمیں دکھائ دیتا ہے۔ آدمی کی اصل وہ ہوتی
ہے جو ہمیں دکھائ نہیں دیتی۔ ہاں نبوت دوہرے یا اس سے زیادہ پہلوؤں سے بعید
ہوتی ہے۔
٤۔ آخری مفہوم تک رسائ ممکن نہیں ہاں عدم دلچسپی اور کوہ کوسی مفاہیم کے
دروازے بند کر دیتے ہیں۔
٥۔ جانور بھی صرف اپنے لیے نہیں سوچتا لیکن آدمی ذات کی قید میں مقید ہو کر
رہ گیا ہے۔
٦۔ جب نیا انوکھا اور الگ سے دریافت ہو جاتا ہے تو یہ زندگی کی روانی کا
ثبوت ہوتا ہے ورنہ لاش اور چلتے پھرتے آدمی میں فرق صرف اتنا رہ جاتا ہے کہ
لاش کھاتی نہیں لیکن انسان لاش خوری میں ظفر مندی سمجھنے لگتا ہے۔
٧۔ وہ شیطان کا بھائ ہے جو خوشی اپنے لیے اور دکھ اوروں کے لیے بچا رکھتا
ہے۔
٨۔ الله تقسیم میں تفریق وامتیاز اپنی ربوبیت کے خلاف سمجھتا ہے۔ تم بھی
تقسیم میں تفریق وامتیاز کے دروازے بند کر دو تاکہ تمہارے انسان ہونے میں
کسی ذی شعور مخلوق کو شک و شبہ نہ رہے۔
٩۔ خوبی کی تحسین میں دیر اور بخل سے کام نہ لو ورنہ شر کو تمہارے دل و
دماغ میں جگہ بنانے میں دیر نہیں لگے گی۔
١٠۔ انت پر ہی نئ راہ کا سراغ مل سکتا ہے۔
١١۔ ستاروں پر کمند نہ ڈالو اتنا بلند ہو جاؤ کہ ستارے اپنے نصیب کی
سربلندی کے لیے تمہاری کھوج میں نکل پڑیں۔
١٢۔ جب بھوک اپنے لیے اور سیری دوسروں کے لیے تلاشو گے تو رب حقیقت کے
حقیقت ہونے پرحجت پیش کرتا ہے۔
١٣۔ کہنے والا اپنے کہے کا ذمہ دار ہوتا ہے لیکن خاموشی کا گریبان ہر ہاتھ
کی دسترس سے باہر ہوتا ہے۔
١٤۔ زندگی کا کوئ حوالہ معنویت سے خالی نہیں ہوتا اس لیے نظر انداز کرنے کی
عادت سے ہاتھ کھینچ لو۔
١٥۔ زندگی کو سادہ آسان اور واضع بناؤ تاکہ تمہارے اندر تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ
کسی طرح تشکیل نہ پا سکے۔
١٦۔ زندگی جب اپنے قدموں پر چلنا بھول جاتی ہے تو خوشحالی اسودگی اور آزادی
اپنی معنویت کھو دیتی ہے۔
١٧تاریخ ایک دلچسپ افسانہ ہے۔ اسے اردو کے افسانوی ادب میں شامل نہ کرنا
کھلی زیادتی ہے۔ مورخ نے حق سے زیادہ چوپڑی کو دیکھا ہے۔ چوپڑی بڑے بڑوں کو
بینائ سے محروم کر دیتی ہے۔ |