حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
”اس وقت تک قیامت نہ آئے گی جب تک دو بڑی جماعتیں آپس میں زبردست جنگ نہ
کرلیں جن دونوں کا دعوٰی ایک ہی ہوگا اور جب تک تیس کے قریب ایسے دجال و
کذاب پیدا نہ ہوجائیں جن میں سے ہر ایک اپنے آپ کو اللہ کا رسول بتائے گا
اور فرمایا کہ اس وقت تک قیامت نہ آئے گی جب تک دنیا سے علم اٹھ جائے اور
زلزلوں کی کثرت نہ ہو جائے”۔ (بخاری و مسلم)
فائدہ:۔ اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر ماں باپ سے زیادہ مہربان ہے اور اس نے
جب خلق یعنی کائنات کو پیدا کیا تو اپنی کتاب میں لکھ دیا جو عرش پر اس کے
پاس موجود ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔ (بحوالہ بخاری، مسلم،
نسائی و ابن ماجہ)۔ لیکن جب انسان اس کے احکامات کی خلاف ورزی کو عادت بنا
لے اور گناہوں کی برائی اور نفرت دلوں سے نکل جائے بلکہ دل گناہوں سے مانوس
ہو جائیں تو اللہ تعالٰی کی طرف سے بطور تنبیہ مختلف مصیبتیں اور آفتوں کے
ذریعے خبردار کیا جاتا ہے۔ آج کل دنیا میں کہیں مصائب ہیں، کہیں مشکلات ہیں،
کہیں سیلاب ہیں، کہیں زلزلے ہیں لیکن لوگ اپنی دنیا میں مست ہیں۔ رنگ رلیوں
میں مگن ہیں۔ ذرا ہوش نہیں کہ یہ مصیبتیں کیوں نازل ہو رہی ہیں اور ان کے
اسباب کیا ہیں۔ جن لوگوں نے اپنے لیے ان عذاب اور ہلاکتوں کی راہ کا انتخاب
کیا ہے ان کا عمل یہی ظاہر کرتا ہے کہ ان مصائب اور مشکلات کا ظہور کسی طرح
عبرت اور نصیحت کے لیے نہیں بلکہ اس کا تعلق تو طبعیات سے ہے۔ زلزلے، سیلاب
اور بے انتہا بارش یا بے انتہا برف باری ان سب کے طبعی اسباب بیان کیے جاتے
ہیں۔ چنانچہ زلزلے کی وجہ زمین کے سطحی حصہ سے چٹانوں کا کھسکنا وغیرہ
بتایا جاتا ہے۔ لیکن وہ چٹانیں کس کے حکم سے حرکت میں آتی ہیں اور کس کے
ارادے سے زلزلہ آتا ہے اور تباہی پھیلتی ہے اس کی طرف ذرا بھی خیال نہیں
جاتا۔
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ: ”تو جب ان کے پاس ہمارا عذاب آیا تو چاہیے تھا
کہ وہ گڑگڑاتے (یعنی اپنے گناہوں کی مغفرت کا سوال کرتے) لیکن ان کے دل سخت
ہوگئے اور شیطان نے ان کے برے اعمال کو ان کی نظروں میں اچھا بنا دیا”۔
(الانعام۔43)۔ یعنی قومیں جب اخلاق و کردار کی پستی میں مبتلا ہو کر اپنے
دلوں کو زنگ آلود کرلیتی ہیں تو اس وقت اللہ کے عذاب بھی انہیں خواب غفلت
سے بیدار کرنے اور جھنجوڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پھر ان کے ہاتھ طلب مغفرت
کے لیے اللہ کے سامنے نہیں اٹھتے ان کے دل اس کی بارگاہ میں نہیں جھکتے اور
ان کے رخ اصلاح کی طرف نہیں مڑتے بلکہ اپنی بداعمالیوں پر تاویلات و
توجیہات کے حسین غلاف چڑھا کر اپنے دل کو مطمئین کر لیتے ہیں۔ آج ہم قرآن
مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مصیبتوں اور آفتوں کے جو
اسباب بیان کیے ہیں اس پر نظر نہیں کرتے اور بلا وجہ کی غیر منطقی توجیہات
پیش کرنے لگتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک زمانے میں
زلزلے کا جھٹکا محسوس ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین پر
اپنا مبارک ہاتھ رکھ کر فرمایا: ”اے زمین تو ساکن ہو جا، پھر لوگوں کی طرف
متوجہ ہو کر فرمایا تمہارا رب چاہتا ہے کہ تم اپنے خطاؤں کی معافی مانگو۔
اس کے بعد زلزلے کے جھٹکے رک گئے۔ (بحوالہ ابن ابی الدنیا)۔ حضرت عمر فاروق
رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور میں زلزلہ کے جھٹکے محسوس کیے گئے تو آپ رضی
اللہ تعالٰی عنہ نے لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا اے لوگو! یہ زلزلہ ضرور کسی
بڑے گناہ کی وجہ سے آیا ہے۔ اگر دوبارہ جھٹکا محسوس ہوا تو تم لوگوں کو شہر
سے بےدخل کردوں گا۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ: ”تم لوگوں نے کیا نئی روش
اختیار کی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد اتنی جلدی
تمہارا حال بگڑ گیا ہے”۔ (بحوالہ مسند احمد)۔ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ
فرماتے ہیں کہ میں ایک شخص کے ساتھ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
تعالٰی عنھا کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھی نے ان سے سوال کیا ہمیں
زلزلہ کے متعلق بتائیے وہ کیوں آتا ہے؟ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا جب
لوگ زنا کو حلال کرلیں، شرابیں پینے لگیں اور گانے بجانے کا مشغلہ اپنا لیں
تو اللہ تعالٰی کی غیرت جوش میں آتی ہے اور زمین کو حکم ہوتا ہے کہ زلزلہ
برپا کردے۔ بس اگر اس علاقے کے لوگ توبہ کرلیں اور بداعمالیوں سے باز
آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے ورنہ ان کے لیے ہلاکت ہے۔ (بحوالہ ابن ابی
الدنیا)۔ آج کل لوگوں کا ایسا مزاج ہوگیا ہے کہ جو کوئی مصیبت آتی ہے یا
مشکلات میں مبتلا ہوتے ہیں تو فلسفیانہ طور پر اس کے اسباب بیان کرتے ہیں
اور یوں کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو دنیا میں ہوتا رہتا ہے۔ لیکن گناہوں کو
چھوڑنے کے لیے ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ یہ مومن کی شان نہیں ہے۔ اے اللہ تو
ہمارے قلوب کی اصلاح فرما دے اور اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دے۔ تیری
رحمت بڑی وسیع ہے اور تو بڑا مہربان اور کریم ہے۔ امت کے حال پر رحم فرما۔
آمین۔
|