زرد صحافت

 دنیائے صحافت میں بھی اسی طرح کھوٹے سکے ہیں جس طرح ہمارے گردوپیش کے ہرطبقے‘ہرمحکمے اورہرسیاسی پارٹی میں ہیں۔ چونکہ سیاست اورصحافت سے عوام زیادہ اوربراہ راست متاثرہوتے ہیں اسلیئے اگران کالی بھیڑوں کے خاتمے کیلئے عوام‘ریاست اورصحافی خودکوشش کریں تومناسب پیمانے پر ان کی زردصحافت کوتلف کیاجاسکتاہے۔ان نام نہاد افراد کو میں صحافی نہیں بلکہ’’صافی‘‘کہتاہوں ‘کیونکہ جس طرح دیسی صافی کاشربت پینے سے آپ کاخون صاف ہوتاہے اسی طرح ان صافی افراد کو اپناآلہ کاربنانے سے بعض سیاسی زعماء اورکچھ افسران بالاکاچہرہ بھی صاف ہوجاتاہے ۔یادرہے پنجاب کے کچھ علاقوں میں روٹی پکانے سے پہلے جس بوسیدہ کپڑے کے ٹکڑے سے توے کی کالک اتاری جاتی ہے اسے بھی’’صافی کہتے ہیں اوربعدمیں اسی ’’صافی ‘‘کے ذریعے توے کوچولہے سے اتاراجاتاہے تاکہ ہاتھ کالے نہ ہوں ‘سمجھ گئے ناں۔’’صافی‘‘ اخبارمیں اپنے نان ونفقہ کے ذمہ داروں کی نیک نیتی ‘خلوص اورحب وطن کی ایسی تصویرتراشتے ہیں کہ خداکی پناہ۔

آپ کو ’’زردصحافت‘‘کی حقیقی تصویردکھانے کیلئے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات پیش کرتاہوں۔
جب پہلاکالم لکھ کرایک وسیع الاشاعت اخبار کے بزرگ رپوٹرکوتصیح کیلئے دیاتووہ مجھے ساتھ لے کرایک اور چنگے وڈے اخبارکے رپوٹرکی دکان پرلے گئے۔جہاں ہماری باتیں سن کر دکاندارصاحب نے مقامی اخبارمیں چھپوانے کیلئے مجھ سے دس روپیہ فی کالم مانگااورمیں نے جواب دیاکہ اگرمیری تحریرقابل اشاعت ہوئی تومجھے آپ کی مدد کی ضرورت نہیں رہے گی۔اوراگرتحریرکمزورہونے کے باوجودآپ کے ذریعے چھپ بھی گئی توجب میراپہلاقدم غلط ہوگاتوپھرمیرامستقبل کیساہوگا؟صافی صاحب نے فرمایاکہ مفت میں کچھ نہیں ہوتا‘مولوی صاحب آپ گزرے زمانے کی باتیں کرتے ہیں۔(پھروہ بزرگ صحافی اورمیں کسی اورجگہ جابیٹھے )۔یہی بات جب میں نے سینئرصحافی وکالم نگار محترم جبارمرزاکوسنائی توکہنے لگے کہ کیااس نے ڈاک خرچ مانگاتھا؟جواب :نہیں۔پھرجبارمرزاصاحب کہنے لگے اس نے مذاق کیاہوگاتومیں نے کہاجناب وہ ’’صافی‘‘ چندہ والی صندوقچی ہے کوئی پانچ ڈالے ‘دس ڈالے اسے کوئی انکارنہیں توجناب جبارمرزانے کہا یہاں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو قومی روزناموں میں اپنے کالم کی اشاعت کے لیئے دس دس ہزاردینے کیلئے تیارہیں۔

میں نے خود توکبھی ’’صحافتی ‘‘تعارف کواستعمال نہیں کیااسیلئے شناختی کارڈ کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے کیلئے تین مرتبہ ’’وہاں ‘‘جاناپڑا اور تیسری مرتبہ چہرہ تبدیل تھاتو امید بندھی اوراس نیک اہلکار نے رپورٹ درج کی ۔البتہ پریس کارڈ بکتے دیکھے ہیں اورخریداروں میں ڈاکٹرزتک کودیکھاہے‘۔برادرم فرخ شہباز وڑائچ نے توپاپڑاخبارکی بات کی ہے جبکہ تیسری دنیاکے ممالک میں تو’’دہی بلے چینل‘‘ ’’سموسے چینل‘‘ ’’منتھلی ۔۔چینل ‘‘ اورمشہورومعروف ’’گوڈے گٹے بھن‘‘چینل بھی موجودہیں۔اورجہاں تک اخبارات کاتعلق ہے تو یہ ایجوکیشن کی طرح ترقی پذیرممالک میں اب کاروباربن چکاہے۔میں نے ایک گیارہویں سکیل کے محافظ کواپنی توصیفی خبرکے بدلے صحافی کو سوروپے سے نوازتے دیکھاہے۔ایسابھی ہواکہ ایم پی اے نے جب کال ملانے کے بعدذراتوقف کیاتوصحافی یعنی صافی نے ptclاپنی طرف پھیر لیا اور دھڑا دھڑ کالز ملاتا چلاگیااوربیچاراسیاسی اپنے ذاتی فون سے کال ملانے کیلئے انتظارکاکڑوا‘کسیلااورلمباگھونٹ پیتارہا۔مجھے آج بھی اسmpa کی بیچارگی پررہ رہ کرترس آتاہے۔نت نئے روزنامے پبلش ہوتے ہیں جن میں دلکش تنخواہوں کے علاوہ لکھے پریس کارڈ کے فوائد درج ہیں :اسکے علاوہ آپ گاڑی یاموٹرسائیکل کی نمبرپلیٹ پرپریس رپوٹررلکھواسکتے ہیں ۔ڈبل سواری پرپابندی کے دوران آپ کورعائیت ملے گی وغیرہ وغیرہ۔لوگ لاکھ سمجھانے کے باوجودلٹے ہیں اورلٹتے چلے جارہے ہیں۔

اس ضمن میں چارتجاویزہیں:مقامی پریس کلب‘صحافتی یونینز‘اورپولیس ملکرنت نئے اورپرانے ڈمی اخبارات کے خلاف ایکشن لیں ‘2:اخباریاچینل کی رجسڑیشن کے لیئے پانچ تادس سال پریکٹیکل صحافت لازمی قراردی جائے۔3الیکٹرونک اورپرنٹ میڈیاپرنام نہاد قلم کے ٹھیکداروں کے خلاف بھرپورمہم چلائی جائے۔4:صحافیوں کی تنخواہ روکنے والے یابلامعاوضہ کام کروانے والے اخبارات وچینلز کے خلاف کاروائی کی جائے ۔5:سرکار سینئر صحافیوں سے اس مسلئے پرمشاورت کرکے مضبوط وقابل عمل لائحہ عمل طے کرے اورخلاف ورزی کرنے والے کی سزامقررکی جائے۔الغرض اگراس زردصحافت کے طوفان بدتمیزی کونہ روکاگیاتوایک دن وہ آئے گاکہ دلال کی معاشرے میں وقعت ہوگی لیکن صحافی کی نہیں۔اوریہ آندھی صرف صحافت کونہیں بلکہ پورے معاشرے کوسیاسی ‘سماجی ‘معاشرتی ومعاشی لحاظ سے تہس نہس کرکے رکھ دے گی۔

sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188703 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.